Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 81
وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَةً تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَكْنَا فِیْهَا١ؕ وَ كُنَّا بِكُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ
وَلِسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان کے لیے الرِّيْحَ : ہوا عَاصِفَةً : تیز چلنے والی تَجْرِيْ : چلتی بِاَمْرِهٖٓ : اس کے حکم سے اِلَى : طرف الْاَرْضِ : سرزمین الَّتِيْ بٰرَكْنَا : جس کو ہم نے برکت دی ہے فِيْهَا : اس میں وَكُنَّا : اور ہم ہیں بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے عٰلِمِيْنَ : جاننے والے
ور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، 74 ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے
سورة الْاَنْبِیَآء 74 اس کی تفصیل سورة سبا میں یہ آئی ہے وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَ رَوَاحُھَا شَھْرٌ، " اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو "۔ پھر اس کی مزید تفصیل سورة ص میں یہ آتی ہے فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ رَخَآءً حَیْثُ اَصَابَ۔ " پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا "۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کردیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جاسکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحر روم کے بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بائیبل میں " ترسیسی بیڑہ " کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورة سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ وَاَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ ، " اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا "۔ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو " مسخر " کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو، جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی وجہ نہیں۔
Top