Al-Qurtubi - Al-Qalam : 12
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍۙ
مَّنَّاعٍ : بہت روکنے والا لِّلْخَيْرِ : بھلائی کا مُعْتَدٍ : حد سے بڑھنے والا اَثِيْمٍ : گناہ گار
مال میں بخل کرنیوالا حد سے بڑھا ہوا بدکار
امام شعبی، سدی اور ابن اسحاق کے قول میں احنس بن شریق مراد ہے (4) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد اسود بن عبد یغوث یا عبدالرحمٰن بن اسود ہے، یہ مجاہد کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، مراد ولید بن مغیرہ ہے (5) ۔ اس نے نبی کریم ﷺ کو ملا کی پیشکش کی اور اس نیق سم اٹھائی کہ اگر آپ ﷺ دین سے رجوع کرلیں تو وہ یہ مال انہیں دیگ ا، یہ مقاتل کا قول ہے۔ حضتر ابن عباس نے ہا، مراد ابوجہل بن ہشام ہے۔ حلا سے مراد بہت زیادہ قسمیں اٹھانے والا۔ مہین سے مراد جس کا دل کمزور ہو، یہ مجاہد سے مروی ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، مراد سخت جھوٹا اور جھوٹ بولنے والا ذلیل ہوتا ہے (6) ایک قول یہ کیا گیا ہے، شر میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والا، یہ قول حضرت حسن بصری اور قتادہ نے کیا ہے۔ کلبی نے کہا، مراد حقیر، فاجر اور عاجز ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں حقیر۔ ابن شجرہ نے کہا، وہ ذلیل ہے۔ امانی نے کہا، حقیر و پشت کیونکہ وہ بہت زیادہ قبیح عمل کرتا ہے۔ یہ مھانہ سے فعیل کا وزن ہے جس کا معنی قتل ہے یہاں رائے اورت میز میں قلت ہے یا یہ فعیل، مفعول کے معنی میں ہے۔ اس کا معنی مھان (ذلیل کیا گیا) ہے۔ ھماز ابن زید نے کہا، ھماز سے مراد وہ آدمی ہے جو اپنے ہاتھ سے لوگوں کی چٹکی لیتا ہے اور انہیں مارتا ہے اور لمازجو زبان سے دوسرے لوگوں کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا، جو مجلس میں لوگوں کے عیب ذکر کرے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ھمزۃ (الہمزہ : 1) (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے : ھماز سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کے سامنے ان کی برائی ذکر کرتا ہے اور لمازا سے کہتے ہیں جو ان کی عدم موجودگی میں ان کی برائی ذکر کرتا ہے، یہ ابوالعالیہ، عطا بن ابی رباح اور حضرت حسن بصری کا قول ہے۔ مقاتل نے اس کلام کی ضد میں کلام کی ہے : حمزہ اسے کہتے ہیں جو عدم موجودگی میں غیبت کرتا ہے اور لمزہ اسے کہتے ہیں جو سامنے برائی کرتا ہے۔ مرہ نے کہا : دونوں برابر ہیں۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو عدم موجودگی میں عیب جوئی کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے اسی کی مثل مروی ہے۔ شاعر نے کہا : تدلی بود اذا لا قیتنی کذباً وان اغب فانت الھا مز اللمزہ (2) جب تو ملتا ہے تو جھوٹ موٹ کی محبت کا اظہار کرتا ہے اور اگر میں غائب ہوں تو تو عیب جوئی کرنے والا ہے۔ مشآء ونمیم لوگوں میں چغیل خوری کرتا ہے تاکہ ان میں فساد برپا کر دے۔ یہ بولا جاتا ہے : نم ینم نما و نسیما و نمیمۃ جب وہ چغل خوری کرے اور فساد برپا کر دے۔ صحیح مسلم میں حضرت حذیفہ سے مروی ہے انہیں یہ خبر پہنچی کہف لاں آدمی چغل خوری کرتا ہے تو حضرت حذیفہ نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” جنت میں کوئی چغل خور داخل نہیں ہوگا۔ “ (3) شاعر نے کہا : ومولی کبیت النمل لا خیر عندہ لمولاہ الا سعیہ بنمیم (4) غلام چیوٹنی کے گھر کی طرح ہے۔ اس کے ہاں آقا کے لئے کوئی خیر نہیں سوائے اس کے کہ وہ چغل خوری کرتا ہے۔ مناع للخیر وہ مال کو روکنے والا ہے کہ اسے بھلائی کے راستوں میں خرچ کیا جائے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، وہ اپنی اولاد اور قبیلہ کو سالام سے روکتا ہے (5) حضرت حسن بصری نے ہا، وہ انہیں کہتا ہے تم میں سے جو بھی (حضرت) محمد ﷺ کے دین میں داخل ہوا میں اسے کبھی بھی کسی چیز کا فائدہ نہیں دوں گا (6) معتد وہ لوگوں پر ظلم کرنے والا ہے، حد سے تجاوز کرنے والا ہے، باطل کا ساتھی ہے۔ اثیم گناہگار ہے اس کا معنی اثوم ہے۔ یہ فعیل کا وزن ہے اور فعول کے معنی میں ہے۔ عتل بعد ذلک زنیم۔ عقل، یعنی وہ کفر میں بہت سخت ہے۔ کلبی اور فراء نے کہا، وہ باطل میں سخت خصوصیت کرنے والا ہے۔ (7) ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ لوگوں سے خصومت کرتا ہے اور انہیں قید یا عذاب کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ عتل سے ماخوذ ہے جس کا معنی کھینچنا ہے، اسی معنی میں یہ ارشاد ہے خذوہ فاعتلوہ (الدخان : 47) صحاح میں ہے عتلت الرجل، اعتلہ واعتلہ جب تو اسے سختی سے کھینچے۔ رجل معتل۔ وہ گھوڑے کی تعریف کرتا ہے : نفرعہ فرعاً ولسنا نعتلہ ہم اسے سختی سے روکتے ہیں اور ہم اسے کھینچتے نہیں۔ ابن کسیت نے کہا، عتلہ و عتنہ دونوں طرح یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ عتل کا معنی سخت دل۔ عتل کا معنی یہ بھی ہے موٹا نیزہ۔ رجل عتل ایسا آدمی جو برائی کی طرف جلدی جانے والا ہ۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ لاانعتل معک یعنی میں اپنی جگہ سے نہ ہلوں گا۔ عبیدبن عمیر نے کہا : العتل سے مراد بہت زیادہ کھانے والا، بہت زیادہ پینے والا، قوی اور شدید۔ اسے میزان میں رکھا جائے تو ایک جو کا وزن بھی نہ ہو۔ فرشتہ ایک دھکے سے ایسے ستر ہزار آدمیوں کو جہنم میں دھکیل دے گا۔ حضرت علی بن ابی طالبا رو حضتر حسن بصرمی نے کہا، عتل سے مراد فحش گوئی کرنے والا اور برے اخلاق والا۔ معمر نے کہا : اس سے مراد فحش گوئی کرنے والا اور کمینہ ہے (1) ۔ شاعر نے کہا : بعتل من الرجال زنیم غیر ذی نجدۃ وغیرہ کریم (2) لوگوں میں سے ترش اور بد اصل وہ بلند رمقام متر بےوالا نہیں اور نہ ہی معزعز ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت حاثر بن وہب سے روایت مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ” کیا میں تمہیں ا ہل جنت کے بارے میں باخبر نہ کروں ؟ “ (3) صحابہ نے عرض کی : کیوں نہیں ؟ فرمایا :” ہر کمزور جسے لوگ کمزور جانیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر کسی امر کے بارے میں قسم اٹھا دے تو وہ اس قسم کو پورا کر دے۔ کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں باخبر نہ کروں ؟ “ صحابہ نے عرض کی : کیوں نہیں ؟ فرمایا :” ہر ترش رو، سخت دل، مال جمع کرنے والا اور متکبر “۔ ایک روایت میں ہے۔ ” ہر مال جمع کرنے والا، بداصل اور متکبر “ (4) جواظ سے مراد مال جمع کرنے والا اور خرچ کرنے سے رکنے والا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، زیادہگ وشت والا اور چال میں تکبر کرنے اولا۔ ماوردی نے شہر بن حوشب سے وہ عبدالرحمٰن بن غنم سے روایت نقل کرتے ہیں (5) اسے حضرت ابن مسعود نے روایت نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، لایدخل الجنۃ جو اط ولا جعظری ولا العتل الزنیم ایک آدمی نے عرض کی : جو اظ اور جعظری کیا ہوتا ہے اور عتل زنیم سے کیا مراد ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو اظ اسے کہتے ہیں جو مال جمع کرتا ہے اور اسے روک لیتا ہے، جعظری سے مراد سخت دل اور عتل زنیم سے مراد مضبوط جسم والا، بڑے پیٹ والا، صحت مند، خوب کھانے پینے والا، کھانے کو پانے والا اور لوگوں پر ظلم کرنے والا۔ “ ثعلبی نے اسے شداد بن اوس سے نقل کیا ہے :” جنت میں جو اظ جعظری اور عتل زنیم داخل نہیں ہوگا۔ میں نے یہ باتیں نبی کریم ﷺ سے سنی ہیں۔ میں نے عرض کی : جو اظ کون ہے ؟ فرمایا :” مال جمع کرنے والا اور اسے روکنے ولا۔ “ میں نے پوچھا : جعظری کیا ہے ؟ فرمایا :” ترش رو سخت دل “ میں نے عرض کی : عتل زنیم کیا ہے ؟ فرمایا :” بڑے پیٹ والا۔ “ بھرے گوشت والا، خوب کھانے پینے والا اور ظالم۔ “ میں کہتا ہوں : یہ تفسیر نبی کریم ﷺ سے عتل کے بارے میں ہے جو مفسرین کے اقوال پر فوقیت رکتھی ہے۔ ابو دائود کی کتاب میں جو اظ کی تفسیر میں ہے، اس سے مراد ترش رو اور سخت دل ہے۔ یہ حارث بن وہب خزاعی کی حدیث میں وارد ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، لایدخل الجنۃ الجواظ ولا الجعظری (1) جو اظ اور جعظری جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کہا : جو اظ سے مراد ترش رو اور سخت دل ہے۔ اس بارے میں دو اور تفسیریں ہیں جو مرفوع روایت میں بیان ہوئیں جن کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، اس سے مراد سخت دل ہے۔
Top