Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 38
قُلْ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ یَّنْتَهُوْا یُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ١ۚ وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ
قُلْ : کہ دیں لِّلَّذِيْنَ : ان سے جو كَفَرُوْٓا : انہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ : اگر يَّنْتَهُوْا : وہ باز آجائیں يُغْفَرْ : معاف کردیا جائے لَهُمْ : انہیں جو مَّا : جو قَدْ سَلَفَ : گزر چکا وَاِنْ : اور اگر يَّعُوْدُوْا : پھر وہی کریں فَقَدْ : تو تحقیق مَضَتْ : گزر چکی ہے سُنَّةُ : سنت (روش) الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
(اے پیغمبر ﷺ کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیا جائیگا۔ اور اگر پھر (وہی حرکات) کرنے لگیں گے تو اگلے لوگوں کا (جو) طریق جاری ہوچکا ہے (وہی ان کے حق میں برتا جائے گا۔
آیت نمبر :38 اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : قل للذین کفروا حضور نبی مکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ کفار کو یہ بات کہیں، چاہے تو آپ انہیں الفاظ کے ساتھ کہیں یا ان کے علاوہ دوسرے الفاظ مین۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اگر ایسا ہے جیسے کسائی نے ذکر کیا ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے مصحف میں اس طرح ہے : آیت : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم تو پھر نبی مکرم ﷺ نے اسے بعینہ ان الفاظ کے ساتھ ادا کیا ہے، یہ اس کے لیے کافی ہے جس کا تقاضا الفاظ کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : 2 قولہ تعالیٰ : آیت : ان ینتھوا مراد یہ ہے کہ اگر کفر سے باز آجائیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اور یہی ضروری ہے۔ اور اس پر ابھارنے والا یہ جواب شرط ہے آیت : یغفرلھم ما قد سلف اور جو ہوچکا اس کی مغفرت فقط کفر سے باز رہنے کے سبب ہی ہو سکتی ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 527 ) ۔ ابو سعید احمد بن محمد زبیری نے بہت خوب کہا ہے۔ یستوجب العفو الفتی اذا اعترف ثم انتھی عما اتاہ واقترف نوجوان معافی کا مستحق ہوجاتا ہے جب وہ اعتراف کرلے پھر اس سے باز آجائے جو اس نے کیا۔ لقولہ سبحانہ فی المعترف ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے معترف کے بارے فرمایا ہے : اگر وہ باز آجائیں تو بخش دیا جائے گا جو ہوچکا۔ امام مسلم نے ابو شماسہ مہری سے روایت بیان کی ہے انہوں نے کہا : ہم حضرت عمرو بن عاص ؓ کے پاس حاضور ہوئے اس حال میں کہ وہ نزع کی کیفیت میں تھے طویل وقت تک روتے رہے (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 76) ۔ الحدیث۔ اور اس میں ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام اپنے سے پہلے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے والے گناہوں کو گرا دیتی ہے اور حج اپنے سے پہلے والے گناہوں کو منہدم کردیتا ہے “ (کنز العمال، جلد 1، صفحہ 75، حدیث نمبر 299) ۔ الحدیث علامہ ابن عربی نے فرمایا : یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے انتہائی لطف وکرم ہے جس کے ساتھ اس نے مخلوق پر احسان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ کفار اپنے آپ کو کفر اور جرائم میں پھنسائے رکھتے ہیں اور معاصی اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پس اگر ان کا یہ عمل ان کے لیے مواخذہ کو واجب کردے تو وہ کبھی بھی تو بہ کو نہ پاسکیں اور نہ مغفرت انہیں حاصل ہو سکے۔ پس اللہ تعالیٰ نے رجوع الی اللہ کے وقت توبہ قبول فرما کر ان پر معاملہ آسان کردیا اور اسلام کے بدلے انہیں مغفرت عطا فرما کر اور سابقہ سارے گناہوں کو گر کر ان پر معاملہ آسان فرما دیا، تاکہ یہ انہیں دین میں داخل ہونے کے زیادہ قریب کر دے اور مسلمانوں کے کلمہ کو قبول کرنے کی انہیں زیادہ عورت دے اور اگر انہیں یہ معلوم ہو کہ ان کا موخذہ کیا جائے گا تو نہ وہ توبہ کریں اور نہ اسلام قبول کریں (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 853۔ 852 ) ۔ اور صحیح مسلم میں ہے : جو لوگ تم سے پہلے تھے ان میں سے ایک آدمی نے ننانوں آدمیوں کو قتل کیا پھر اس کے ذہن میں خیال آیا کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے، چناچہ وہ ایک عبادت گزار کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : کیا اس کے لیے کوئی توبہ کا ذریعہ ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : تیرے لیے کوئی توبہ نہیں، پس اس نے اسے بھی قتل کردیا اور اس کے ساتھ سو مکمل ہوگئے (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، جلد 2، صفحہ 359 ) ۔ الحدیث۔ پس تم عابد کے اس قول کی طرف دیکھو : تیرے لیے کوئی توبہ نہیں۔ تو جب اسے یہ معلوم ہوا تو وہ اس سے مایوس اور ناامید ہوگیا نتیجۃ اس نے اسے بھی قتل کردیا، تو یہ ہے رحمت سے مایوس ہونے والے کا فعل۔ پس بگانا اور نفرد دلانا مخلوق کو بگاڑ دیتا ہے اور آسانی و سہولت پیدا کرنا مخلوق کی اصلاح کرتا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب آپ کے پاس کوئی ایسا آدمی آتا جس نے قتل نہ کیا ہوتا اور وہ آپ سے پوچھتا : کیا قاتل کے لیے توبہ ہے ؟ تو آپ فرماتے : اس کے لیے کوئی توبہ نہیں، آپ اسے ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لیے ایسا فرماتے۔ اور جب ایسا آدمی آتا جس نے قتل کیا ہوتا اور وہ سوال کرتا : کیا قاتل کے لیے توبہ ہے ؟ تو آپ اسے فرماتے : تیرے لیے توبہ ہے۔ آپ یہ اسے آسانی اور سہولت پہنچانے کے لیے اور تالیف قلب کیلیے فرماتے۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : 3 ابن القاسم اور ابن وہب نے امام مالک (رح) سے ایسے آدمی کے بارے میں نقل کیا ہے جس نے حالت شرک میں طلاق دی اور پھر اسلام قبول کرلیا کہ اس کی طلاق نہیں ہے اور اسی طرح وہ آدمی جس نے قسم کھائی پھر اسلام قبول کرلیا تو اس پر حانث ہونتا نہیں۔ اور اسی طرح وہ آدمی جس پر یہ چیزیں واجب ہوئیں تو اس کے لیے (اسلام کے سبب) مغفرت اور بخشش ہے، لیکن وہ آدمی جس نے کسی مسلمان پر افتراء باندھا پھر اسلام قبول کرلیا یا سامان چوری کیا پھرا سلام قبول کرلیا تو اس پر افترا پردازی اور چوری کی حد قائم کی جائے گی۔ اور اگر کسی نے زنا کیا اور پھر اسلام لے آیا یا کسی مسلمان عورت کو غصب کیا پھر اسلام قبول کرلیا تو اس سے حد ساقط ہوجائے گی۔ اور اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ وہ سب مراد لے رہا ہے جو اسلام سے پہلے ہوچکا، چاہے اس کا تعلق مال سے ہو یا دم سے یا کسی اور شے سے۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : یہی صحیح اور درست ہے، کیونکہ ہم پہلے قول باری تعالیٰ : آیت : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف اور حدیث طیبہ : الاسلام یھدم ما قبلہ کی عمومیت بیان کرچکے ہیں اور اس کی دلیل وہ بھی ہے جو ہم نے آسانی باہم پہنچانے اور نفرت نہ دلانے کا معنی بیان کیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جہاں تک حربی کافر کا تعلق ہے تو اس نے حالت کفر میں دار الحرب میں جو کچھ بھی کیا ہے اس کے (اسلام کے سبب) ساقط ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور اگر وہ امان لے کر ہمارے پاس آیا اور کسی مسلمان پر تہمت لگا دی تو اسے حد لگائی جائے گی اور اگر اس نے چوری کی تو اسے قطع ید کی سزا دی جائے گی۔ اور اسی طرح ذی نے جب کسی پر قذف لگائی تو اسے اسی کوڑے حد لگائی جائے گی اور جب اس نے چوری کی تو اس کا ہاتھ کا تا جائے گا اور اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو اسے قصاصا قتل کیا جائے گا۔ اور اسلام اس سے ان کو ساقط نہیں کرے گ۔ کیونکہ اس نے اپنا عہد حالت کفر میں ہی توڑ دیا ہے۔ یہ ابن قاسم وغیرہ کی روایت کے مطابق ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : ایسے نصرانی کے بارے میں اختلاف ہے جو زنا کرتا ہے پھر اسلام قبول کرلیتا ہے، حالانکہ اس پر مسلمانوں میں سے بینہ موجود ہے، پس حضرت امام شافعی (رح) سے بیان کیا گیا جب کہ وہ عراق میں تھے کہ اس پر نہ حد ہے اور نہ تغریب ( جلا وطنی) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے : آیت : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہ اس کے موافق ہے جو امام مالک (رح) سے روایت کیا گیا ہے۔ اور ابو ثورنے کہا ہے : جب اس نے اقرار اس حال میں کیا کہ وہ مسلمان تھا کہ اس نے حالت کفر میں زنا کیا ہے تو اس پر حد قائم کی جائے گی۔ اور کوفی سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : اسے حد نہیں لگائی جائے گی۔ مسئلہ نمبر : 4 رہا مرتد جب وہ اسلام قبول کرلے درآنحالیکہ اس کی کئی نمازیں فوت ہوچکی ہوں، اس نے کئی جرائم کا ارتکاب کیا ہو اور مال ضائع کیے ہوں، تو اس کے بارے کہا گیا ہے : اس کا حکم کا فراصلی جیسا ہے جب وہ اسلام قبول کرے یا اس سے کسی شے کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا جو کچھ اس نے حالت ارتداد میں کیا۔ امام شافعی رنے اپنے ایک قول میں کہا ہے : اس کے ذمہ اللہ تعالیٰ اور آدمیوں کے تمام حقوق لازم ہوتے ہیں، دلیل یہ ہے کہ آدمیوں کے حقوق اس کے ذمہ لازم ہیں تو پھر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اس پر لازم ہوں۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے : جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں وہ ساقط ہوجائیں گے اور جو آدمی حقوق ہیں وہ ساقط نہ ہوں گے۔ علامہ ابن عربی نے کہا : یہی ہمارے علماء کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے حق سے مستغنی ہے اور آدمی اپنے حق کا محتاج ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ حقوق اللہ بچوں پر واجب نہیں ہوتے لیکن حقوق العباد ان پر لازم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے : ارشاد باری تعالیٰ : آیت : قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ما قد سلف اللہ تعالیٰ کے حقوق عام ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 854۔ 853 ) ۔ مسئلہ نمبر : 5 قولہ تعالیٰ : آیت : وان یعودوا مراد قتال کی طرف لوٹنا ہے، کیونکہ لفظ عاد جب مطلق آئے تو اس حالت کی طرف لوٹنے کو متضمن ہوتا ہے جس پر انسان پہلے ہو اور پھر اس حالت سے ( نئی حالت کی طرف) منقل ہو۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ہم اس آیت میں ان کفار کے لیے ایسی کوئی حالت نہیں پاتے جو سوائے قتال کے ہماری ذکر کردہ کسی کیفیت سے مشابہت رکھتی ہو۔ اور کفر کی طرف لوٹنے کی تاویل کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ کفر سے جدا ہوئے ہی نہیں اور ہم نے عاد کے بارے میں جو کہا ہے کہ جب یہ مطلق ہو ( تو اس کی وجہ یہ ہے) کیونکہ یہ کلام عرب میں کبھی مبتدا اور خبر پر داخل ہوتا ہے، تو اس وقت یہ بمعنی صار ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : عاد زید ملکا مراد ہے صار زید ملکا (زید بادشاہ ہوگیا) اور اسی پر امیہ بن ابی صلت کا قول ہے : تلک المکارم لاقعبان من لبن شیبا بماء فعادا بعد ابوالا (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 527 ) اور یہ اس حالت کی طرف لوٹنے کو متضمن نہیں جس پر لوٹنے والا اس سے پہلے تھا۔ پس یہ اپنی خبر کے ساتھ مقید ہے اس کے بغیر اقتصار جائز نہیں، پس اس کا حکم صار کے حکم کی طرح ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فقد مضت سلت الاولین یہ عبارت وعید، تہدید اور تمثیل تمام کو جامع ہے ان کے ساتھ جو زمانہ ماضی کی امتیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔
Top