Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 43
اِذْ یُرِیْكَهُمُ اللّٰهُ فِیْ مَنَامِكَ قَلِیْلًا١ؕ وَ لَوْ اَرٰىكَهُمْ كَثِیْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَ لَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِذْ : جب يُرِيْكَهُمُ : تمہیں دکھایا انہیں اللّٰهُ : اللہ فِيْ : میں مَنَامِكَ : تمہاری خواب قَلِيْلًا : تھوڑا وَلَوْ : اور اگر اَرٰىكَهُمْ : تمہیں دکھاتا انہیں كَثِيْرًا : بہت زیادہ لَّفَشِلْتُمْ : تو تم بزدلی کرتے وَلَتَنَازَعْتُمْ : تم جھگڑتے فِي الْاَمْرِ : معاملہ میں وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ سَلَّمَ : بچا لیا اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کی بات
اس وقت خدا نے تمہیں خواب میں کافروں کو تھوڑی تعداد میں دکھایا اور اگر بہت کر کے دکھاتا تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور (جو) کام (درپیش تھا اس) میں جھگڑنے لگتے۔ لیکن خدا نے (تمہیں اس سے) بچالیا۔ بیشک وہ سینوں کی باتوں تک سے واقف ہے۔
قولہ تعالیٰ : واذیریکموھم اذا التقیتم فی اعینکم قلیلا یہ رویت حالت بیداری میں تھی۔ اور پہلی آیت میں بھی رئویت کو بیداری کی حالت پر محمول کرنا جائز ہے جب آپ یہ کہیں کہ منام سے مراد سونے کی جگہ ہے اور وہ معین ہے، پس اس بنا پر پہلی رئویت حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہے اور یہ تمام کے لیے ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : میں نے بدر کے دن ایک آدمی کو کہا جو میرے پہلو میں تھا : کیا تو انہیں ستر دیکھ رہا ہے ؟ تو اس نے کہا : وہ تقریبا سو ہیں۔ پھر ہم نے ایک آدمی کو قید کیا تو ہم نے اس سے پو چھا : تم کتنے تھے ؟ تو اس نے بتایا : ہم ہزار تھے (1) ۔ ویقللکم فی اعیھم یہ صورت حال جنگ کی ابتداء میں تھی یہاں تک کہ ابوجہل نے اس دن کہا : یہ تو اونٹ کے گوشت کا ایک نوالا ہیں۔ تم انہیں مضبوطی سے پکڑ لو اور تم انہیں رسیوں کے ساتھ باندھ دو ۔ پس جب جنگ شروع ہوئی تو مسلمان ان کی نظروں بڑھ گئے اور بہت زیادہ ہوگئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یرونھم مثلیمھم رائی العین ( آل عمران : 13) ” دیکھ رہے تھے ( مسلمان انہیں) اپنے سے دو چند ( اپنی) آنکھوں سے “ ، جیسا کہ اس کا بیان سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ لیقضی اللہ امر کان مفعولا اس کا تکرار ہے، کیونکہ پہلے میں معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ مقابلے سے وہ کام کر دکھائے اور اس دوسرے میں ہے کہ مشرکین کے قل اور دین کو غالب کر کے اللہ تعالیٰ وہ کام کر دکھائے۔ اور یہ مسلمانوں پر اتمام نعمت ہے۔ والی اللہ ترجع الامور یعنی امور کا انجام اور ان کا لوٹنا اسی کی طرف ہے۔ ( آیت نمبر قولہ تعالیٰ : واذکرو اللہ کثیر العلکم تفلحون اس ذکر کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں : (1) تم اپنے دلوں کی گھبراہٹ کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، کیونکہ اس کا ذکر شدائد اور سختیوں میں ثبات اختیار کرنے پر معاون ہوتا ہے۔ (2) تم اپنے دلوں کو مضبوط اور پختہ رکھو اور اپنی زبانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو، کیونکہ دل مقابلہ کے وقت پرسکون نہیں رہتے اور زبان مضطرف ہوجاتی ہے۔ پس ذکر کا حکم ارشاد فرمایا یہاں تک دل یقین پر ثابت اور پختہ ہوجائے اور زبان ذکر پر ثابت ہوجائے اور وہ کچھ کہے جو اصحاب طالوت نے کہا : ربنا افرغ علینا صبر وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکفرین۔ ( البقرہ) ” اے ہمارے رب ! اتار ہم پر صبر اور جمائے رکھ ہمارے قدموں کو اور فتح دے ہمیں قوم کفار پر “۔ اور یہ حالت صرف قوت معرفت اور نور بصیرت کے ساتھ ہی حاصل ہو سکتی ہے اور یہی وہ شجاعت اور بہادری ہے جو لوگوں میں قابل تعریف ہے۔ (3) یاد کرو اسے جو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اس بارے میں کہ اس نے تمہارے نفسوں کو خریدا ہے اور اسے تمہارے لیے عوص بنایا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اظہر قول یہ ہے کہ مراد زبان کا ذکر ہے جو دل کے موافق ہو۔ محمد بن کعب قرظی نے کہا ہے : اگر ذکر چھوڑنے کے بارے میں کسی کو رخصت دی جاتی تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کو رخصت دی جاتی۔ اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے : الاتکلم الناس ثلثۃ ایام الارمزا وذکر ربک کثیرا ( آل عمران :41) ” کہ نہ بات کرسکو گے لوگوں سے تین دن مگر اشارہ سے اور یاد کرو اپنے پروردگار کر بہت) اور حضرت قتادہ نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر اپنے بندوں پر فرض کیا ہے اور اس نے انہیں تلواروں کے ساتھ جنگ لڑتے وقت بھی اس میں مشغول رکھا ہے۔ اور اس ذکر کا حکم یہ ہے کہ وہ خفی ہو، کیونکہ جنگ کے مقامات میں آواز کو بلند کرنا ردی اور مکروہ ہے جب کہ ذکر کرنے والا ایک ہو، لیکن حملہ کے وقت جب ذکر کرنے والی جماعت ہو تو ( آواز بلند کرنا) اچھا ہے، کیونکہ یہ دشمن کی قوت کو توڑ دیتا ہے۔ اور ابودائود نے قیس بند عباد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اصحاب جنگ کے وقت آواز بلند کرنا ناپسند کرتے تھے۔ ابو بردہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے اس کی مثل روایت بیان کی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : جنگ کے وقت ناک اور منہ پر کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اسی وجہ سے سرحد پر پڑائو ڈالنے والوں نے جنگ کے وقت ناک اور منہ پر کپڑا نہ لپیٹنے کا طریقہ اختیار کیا ہے تاکہ وہ اس قول پر عمل پیرا ہو سکیں۔ واللہ اعلم ( آیت نمبر
Top