Ruh-ul-Quran - Yunus : 45
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ كَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَهُمْ١ؕ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُھُمْ : جمع کرے گا انہیں كَاَنْ : گویا لَّمْ يَلْبَثُوْٓا : وہ نہ رہے تھے اِلَّا : مگر سَاعَةً : ایک گھڑی مِّنَ النَّهَارِ : دن سے (کی) يَتَعَارَفُوْنَ : وہ پہچانیں گے بَيْنَھُمْ : آپس میں قَدْ خَسِرَ : البتہ خسارہ میں رہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ اللّٰهِ : اللہ سے ملنے کو وَمَا كَانُوْا : وہ نہ تھے مُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والے
اور جس روز اللہ انھیں جمع کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے) کہ گویا وہ دنیا میں نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے (تب حقیقت کھلے گی) کہ نامراد ہوئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور وہ ہدایت حاصل کرنے والے نہ بنے۔
وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلاَّ سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ ط فَدْخَسِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ۔ (یونس : 45) (اور جس روز اللہ انھیں جمع کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے) کہ گویا وہ دنیا میں نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے (تب حقیقت کھلے گی) کہ نامراد ہوئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور وہ ہدایت حاصل کرنے والے نہ بنے۔ ) مشرکین مکہ کی ایک اور فکری گمراہی مشرکینِ مکہ کے افکارِ فاسدہ پر تنقید ہورہی ہے۔ ان کی ایک اور فکری گمراہی اور کج روی کا ذکر فرمایا جارہا ہے جسے ہم دو پہلوئوں سے زیر بحث لاسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس دور کا بگڑا ہوا انسان اولاً تو قیامت کا انکار کرتا تھا اور اگر کبھی بےدلی سے اقرار کرتا تو اس سے متاثر ہونے کی بجائے یہ کہتا کہ ہم ابھی سے اس آخرت کو اپنے دماغوں پر سوار کرلیں جس کے بارے میں معلوم ہی نہیں کہ اس کے آنے میں کتنی صدیوں کا فاصلہ حائل ہے۔ انسانی سفر پر صدیاں بیت گئیں اور قیامت کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مزید کتنی صدیاں انتظار کرنا ہوگا۔ آخر اس کے انتظار میں کون بیٹھا رہے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ تھا کہ قیامت کے دن کی جوابدہی ایک مذاق بن کے رہ گئی تھی۔ اعمال کا تول ایک افسانہ معلوم ہوتا تھا۔ جنت جہنم کے واقعات لوگوں کی عقلوں پر گراں گزرتے تھے۔ لوگ عموماً جھلا کر یہ بات کہتے کہ : جب حشر کا دن آئے گا اس وقت دیکھا جائے گا اور مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس طرح کا تصور رکھتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت بھی اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو زندگی کے معاملے میں ہرگز سنجیدہ نہیں۔ ایسی باتیں ان کی سوچ پر گراں گزرتی ہیں کہ کبھی یہ عیش و عشرت کا زمانہ سمٹنے والا بھی ہے۔ وہ دنیا کی لذتوں میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں کہ اس کی بےثباتی کی طرف کبھی ان کا دھیان نہیں جاتا۔ جنازے ان کے سامنے اٹھتے ہیں، ایک سے ایک بڑا حادثہ ہوتا ہے، ہر سو عبرت کے نمونے بکھرے ہوئے ہیں لیکن رنگ و بو نے انھیں اس طرح اندھا کر رکھا ہے کہ وہ کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ جس فریبِ نظر پر ہم ریجھے ہوئے ہیں اس کی عمر چند روز سے زیادہ نہیں۔ ان دونوں پہلوئوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہ فرمایا جارہا ہے کہ جس دن میدان حشر میں اللہ لوگوں کو جمع کرے گا اور پھر وہ پیچھے پلٹ کر دنیا میں گزری ہوئی زندگی پر ایک نظر ڈالیں گے اور اپنے سامنے آخرت کی بےپایاں زندگی دکھائی دے گی تو جس زندگی کو وہ اس قدر دراز سمجھتے تھے کہ اس کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہ تھا اور جس کے عیش و عشرت پر اس قدر مفتون تھے کہ کبھی انھیں یقین نہیں آتا تھا کہ عیش و عشرت کا یہ زمانہ کبھی ہم سے چھوٹ بھی سکتا ہے یا ہم اس زمانے سے بھی الگ کیے جاسکتے ہیں۔ اب میدان حشر میں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی اور وہاں کی عشوہ طرازیاں انھیں ایک فریب دکھائی دیں گی۔ سالہاسال میں گزرنے والی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک لمحہ محسوس ہوگی اور وہ اپنے دائیں بائیں پھیلی ہوئی خلق خدا کو دیکھیں گے تو ہر چہرہ شناسا دکھائی دے گا۔ قرآن کریم نے ان حقائق کو بعض مثالوں سے اسی لیے واضح فرمایا ہے تاکہ قیامت سے پہلے آدمی زندگی کی حقیقت کو سمجھ لے اور قیامت کی حقیقت کا بھی ادراک کرلے۔ اصحابِ کہف کا قصہ بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ جب تقریباً تین صدیاں گزرنے کے بعد غار والے جاگے تو ایک دوسرے سے پوچھا کہ ہم کتنی دیر سوئے رہے تو سب کا خیال تھا کہ ایک دوپہر گزری ہے یا ایک پورا دن گزر گیا، لیکن وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ہم تین صدیاں گزار چکے ہیں۔ دنیا میں گزری ہوئی تین صدیاں انھیں چند لمحے محسوس ہورہے تھے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ بھی اسی حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ ایک تباہ شدہ بستی پر جب وہ گزرے تو اللہ نے وہاں ان پر موت طاری کردی۔ سو سال کے بعد انھیں زندہ کیا گیا۔ پوچھا ” کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْماً اَوْبَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ “ یہاں کتنی دیر ٹھہرے ہو۔ کہا ایک دن رہا ہوں یا دن کا ایک حصہ۔ اللہ نے فرمایا تم یہاں سو سال گزار چکے ہو۔ ان واقعات سے بتانا یہ مقصود تھا کہ جس آخرت کو تم دور سمجھتے ہو کیونکہ درمیان میں ایک لمبی زندگی حائل ہے جب وہ آخرت آئے گی تو تمہیں دنیا کی زندگی چند لمحوں سے زیادہ محسوس نہیں ہوگی اور دنیا کی جس عیش و عشرت پر آج تم مفتون ہو اور اس سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے جب آخرت کی نعمتوں یا اس کی سزائوں کو دیکھو گے تو تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ تم کس فریبِ نظر کا شکار تھے۔ تب تم چیختے ہوئے کہو گے کہ وہ لوگ برباد ہوگئے جن لوگوں نے اللہ کی ملاقات یعنی قیامت کو جھٹلایا کیونکہ اصل حقیقت تو قیامت ہی تھی وہی انسان کی حقیقی منزل تھی۔ وہی دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا انعام تھی یا سزا تھی اس کا انکار کرکے یا اسے بھلا کر ہم نے اپنا سب کچھ برباد کردیا اور اس بربادی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ ہم اپنی منزل کا سراغ نہ پا سکے۔
Top