Ruh-ul-Quran - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اگر ہم انسان کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں اور پھر اس کو اس سے محروم کردیتے تو وہ مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے۔
وَلَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰہَا مِنْہُج اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ کَفُوْرٌ۔ وَ لَئِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآئَ بَعْدَ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْط اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ۔ (سورۃ ہود : 9، 10) (اگر ہم انسان کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں اور پھر اس کو اس سے محروم کردیتے تو وہ مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے۔ اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اس کو پہنچی اس کو نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے میری مصیبتیں جاتی رہیں اور وہ اکڑنے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے۔ ) آیات کی تشریح سے پہلے چند مشکل الفاظ کی وضاحت۔ یہاں ” رحمت “ سے مراد صحت، امن و عافیت، خوشحالی، فارغ البالی اور موافق حالات کے ہیں۔” یَئُوْس “ مبالغہ کا صیغہ ہے اس سے مراد ایسا شخص ہے جو حالات کا ایک جھٹکا برداشت نہ کرسکے حالات کی دگرگونی سے بالکل مایوس ہوجائے۔” کفور “ یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے بہت ناشکری کرنے والا۔ اسے ہزار نعمتوں سے نوازا جائے کبھی بھول کر شکر ادا نہ کرے اور معمولی تکلیف پر ناشکری پر اتر آئے۔” فَخُوْر “ مبالغے کا صیغہ ہے اس کا معنی ہے بہت اترانے والا۔ حالات اچھے ہوں کاروبار چمک اٹھے، قسمت یاوری کرنے لگے تو اترانا شروع کر دے۔ انسان کا ذکر کرنے کا فائدہ پہلی آیت کریمہ میں کسی خاص طبقے کا ذکر کرنے کے بجائے انسان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ روئے سخن اگرچہ انہی لوگوں کی طرف ہے جن کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ہے لیکن ان کا نام لیے بغیر انسان کے لفظ سے بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے اس قابل نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہو۔ اس لیے بجائے انھیں خطاب کرنے کے انسان کا لفظ بول کر اجتماعی اسلوب میں بات فرمائی۔ اس سے اعراض کا مقصد بھی پورا ہوگیا اور جو بات کہنا تھی اس کا حق بھی ادا ہوگیا۔ امر واقعہ یہ ہے کسی ایک طبقے کی بات کو ایک کلیہ کی شکل میں کہنا ہمیشہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ یہاں بھی ہم اسی تاثیر کو دیکھ رہے ہیں۔ اور مزید یہ بات بھی کہ اس سے انسانی نفسیات کا ایسا حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی سامنے آیا ہے جس سے انسان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ مہذب اور شائستہ انسان خاص صفات کے حامل ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو انسانیت کے جامہ کو تار تار کردیتے ہیں اور ان کے اندر چھچھورا پن آجاتا ہے ان کے انداز بالکل مختلف ہوتے ہیں یہاں اسی انداز کی بعض جہتوں کا تذکرہ فرمایا جارہا ہے ان کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انھیں اپنی طرف سے خوشحالی عطا فرماتا اور عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے یا اثر ورسوخ میں اضافہ فرماتا ہے تو بجائے اس کے کہ اسے اللہ کی دین سمجھیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور انہی نعمتوں کو خدمت خلق کے لیے کام میں لائیں اور ان کے رویے کو دیکھ کر لوگ یہ سمجھیں کہ اللہ نے انھیں جیسے ہی نعمتوں سے گراں بار کیا ہے تو یہ پھل دار درخت کی طرح پہلے سے زیادہ متواضع ہوگئے ہیں اور ان کا سایہ پہلے سے بھی گھنا ہوگیا ہے لیکن ان میں ایسے کسی رویہ کی دور دور تک بھی نشان دہی نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ ان سے یہ نعمتیں چھین لیتا ہے ان کے حالات دگرگوں ہوجاتے ہیں تو اب بھی وہ صبر کرنے کی بجائے مایوس اور ناشکرے ہوجاتے ہیں۔ وہ بالکل اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ کل اگر ہمارے حالات اچھے تھے تو وہ اللہ کی عطا تھی اور ہماری محنتوں کا ثمر تھا اور آج اگر حالات بگڑ گئے ہیں تو یقینا اس میں ہماری کوتاہیوں کا دخل ہوگا۔ ہمیں اپنی کو تاہیاں دور کر کے ازسرنو جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے اور اللہ سے مدد مانگنی چاہیے کوئی بڑی بات نہیں کہ اگر پہلے حالات میں انقلاب آیا ہے تو اب انقلاب کیوں نہ آئے۔ دوسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر ہم ان مایوس اور ناشکرے لوگوں کو سزا دینے کی بجائے ان کو مزید آزمائش میں ڈالنے کے لیے ایک دفعہ پھر ان کے حالات کو بدل دیتے ہیں ان کی مصیبتیں ہٹا دی جاتی ہیں، کاروبار کے لیے بہتر حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں تو محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہمارے دن اس طرح پھرگئے ہیں کہ مصیبتوں کا کوئی اثر ہم پر نہیں رہا لیکن اب بھی وہ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو ہم کبھی اپنے حالات خراب نہ ہونے دیتے اور کبھی بھی اپنی خوشحالی کو بدحالی میں تبدیل نہ ہونے دیتے اس میں یقینا اس خالق کائنات کا ہاتھ ہے جو جب چاہتا ہے خوشیاں عطا فرماتا ہے اور جب چاہتا ہے غموں میں ڈبو دیتا ہے۔ لیکن اس کی یہ مشیت حکمت سے خالی نہیں ہوتی حالات کی ہر طرح کی تبدیلی کے پیچھے یقینا اس کی حکمت کارفرما ہوتی ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ بےبصیرت اور چھچھورے لوگ جس طرح ناموافق حالات میں مایوس اور ناشکرے ہوگئے اسی طرح موافق حالات میں اترانے لگتے اور شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں۔ اندازہ فرمائیے جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ خوشحالی اور فارغ البالی ملے اور عہدہ ومنصب نصیب ہو تو لوگوں کے لیے عذاب بن جائیں اور بنیادی انسانی خصائص سے بھی تہی دامن ہوجائیں اور اگر انھیں سخت حالات سے واسطہ پڑے تو انتہائی کمزور اور بودے ثابت ہوں تو ایسے لوگوں سے کسی بھی خیر کی امید کرنا مشکل ہے یہ اگر پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور انھیں اگر اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو تمسخر اڑاتے ہیں تو ان سے اس سے مختلف بات کی توقع کرنا ہی عبث ہے۔ اس لیے کہ پیغمبر کی دعوت کی قبولیت کے لیے چند بنیادی انسانی صفات کا ہونا ضروری ہے اور اللہ کے نبی کے انذار کے ادراک کے لیے بھی شرافتِ نفس کا وجود ضروری ہے لیکن جو لوگ انتہائی پست سطح تک اتر چکے ہوں ان کا رویہ اگر اپنے رویہ سے مختلف ہو تو یہ حیرانی کی بات ہے جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے۔
Top