Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 82
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں عَلَيْكَ : تم پر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : کھول کر (صاف صاف)
اسی طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو آپ کی ذمہ داری صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورۃ النحل : 82) (پھر اگر وہ اعراض کریں تو آپ کی ذمہ داری صاف صاف پہنچا دینا ہے) پروردگار نے گزشتہ آیات میں جس جزرسی کے ساتھ انسانوں پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اس کے بعد اگر انسانوں سے پوچھا جائے کہ تم بتائو تمہارے خیال میں ان نعمتوں کا عطا کرنے والا کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی ہے۔ وہ یقینا اپنے کفر کے باوجود اعتراف کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان تمام نعمتوں کو پیدا فرمایا ہے۔ اس کے بعد برجستہ ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان تمام نعمتوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر تم نے دوسروں کو اس کا شریک کیوں بنا رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن کی تم پوجا کرتے ہو اس کا تمہارے یہاں کیا جواز ہے۔ لیکن اس سوال کے جواب میں بھی اگر وہ اپنے شرک پر اڑے رہیں اور وہ کسی طرح اپنے رویے کو بدلنے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی ذمہ داری کی انتہا کو بیان فرمایا ہے جس کے بعد آپ ﷺ سے کسی قسم کی بازپرس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ آپ ﷺ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیں اور اس طرح پہنچا دیں کہ کوئی بات ان کے لیے نہ مخفی رہے اور نہ مبہم رہے۔
Top