Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور ان کے لیے رحم دلانہ اطاعت کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہے کہ اے میرے رب ان پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا۔
قرآن کریم نے اولاد کو جو والدین کی اطاعت اور خدمت کرنے کا حکم دیا ہے اس میں یہ قید بھی لگائی ہے کہ : وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ۔ (بنی اسرائیل : 23) (والدین کے سامنے فرمانبرداری کے بازو محبت سے جھکائے رکھو۔ ) یعنی تم اپنے والدین کی خدمت ایک بوجھ سمجھ کر مت کرنا، بلکہ تمہاری فرمانبرداری کے بازو رحمت اور محبت سے ان کے سامنے پھیلے رہنے چاہئیں۔ یعنی جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو بوجھ سمجھ کر نہیں پالتے، بلکہ نہایت محبت اور پیار سے پالتے ہیں، بالکل اسی جذبے کے ساتھ اولاد کو بھی اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور اگر وہ ایسے ہی جذبے سے اپنے ماں باپ کی دیکھ بھال کریں تو یقین جانئے یہ خدمت اور یہ محبت سے کی ہوئی دیکھ بھال اتنا بڑا ذریعہ ہے کہ آدمی اگر کبھی کسی ایسی صورت حال میں گرفتار ہوجائے جس سے نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نہ ہو تو اس عمل کے واسطے سے اگر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے رد نہیں فرماتا۔ خود آنحضرت ﷺ نے ایک واقعہ بیان فرمایا : ارشاد ہوا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے کہ اتنے میں موسلا دھار پانی برسنے لگا۔ تینوں نے بھاگ کر ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی۔ قضا را ایک چٹان اوپر سے اس طرح گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہوگیا۔ اب ان کی بےکسی و بےچارگی اور اضطراب و بیقراری کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ ان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔ اس وقت انھوں نے پورے خضوع و خشوع کے ساتھ دربارِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ ہر ایک نے کہا کہ اس وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہیے۔ ایک نے کہا ” یا الٰہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں بکریاں چراتا تھا اور انھیں پر ان کی روزی کا سہارا تھا۔ میں شام کو جب بکریاں لے کر گھر آتا تھا تو دودھ دوھ کر پہلے اپنے اپنے والدین کی خدمت میں لاتا تھا۔ جب وہ پی چکتے تب اپنے بچوں کو پلاتا تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا۔ لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے۔ میں دودھ لیکر ان کے سرہانے کھڑا ہوا، نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آجاتا اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت ان کی آنکھیں کھلیں اور دودھ مانگیں، بچے بھوک سے بلک رہے تھے، مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں۔ میں اسی طرح پیالہ میں دودھ لیے رات بھر سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے۔ خداوندا ! اگر تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لیے کیا تو اس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹا دے۔ “ یہ کہنا تھا کہ چٹان کو خود بخود جنبش ہوئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سرک گئی۔ اس کے بعد باقی دو مسافروں کی باری آئی اور انھوں نے بھی اپنے نیک کاموں کو وسیلہ بنا کر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا۔ تیسرا حق دعا کرنا اولاد پر ماں باپ کا تیسرا حق دعا کرنا ہے۔ اس کا تعلق والدین کی زندگی سے بھی ہے اور والدین کی زندگی کے بعد سے بھی۔ جب تک والدین زندہ رہیں تو آدمی حتیٰ المقدور ماں باپ کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے : رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا (اے میرے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ ) اس میں اشارہ دو باتوں کی طرف ہے۔ ایک تو یہ کہ جو آدمی اپنے والدین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے اس طرح دل سے دعا بھی مانگے گا تو یقینا اس کے دل میں اپنے ماں باپ کی خدمت بوجھ نہیں بنے گی۔ اور پھر اس دعا سے ماں باپ کی محبت کا جذبہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور وہ امکانی حد تک کبھی اس خدمت سے دریغ نہیں کرے گا اور دوسرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دنیا میں ہر آدمی کے لیے بہت سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں جن میں دوست احباب ہیں، بیوی ہے، بچے ہیں، ان کی دعائوں میں یقینا اخلاص بھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بےلوث اور بےغرض دعا سوائے والدین کے اور کوئی نہیں مانگتا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کے اٹھ جانے سے بےلوث اور بےغرض دعائیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اولاد چاہے کتنے پیار سے دعا مانگے لیکن کوئی نہ کوئی خواہش کہیں نہ کہیں چھپی ہوتی ہے۔ یہی حال بیوی اور دوست احباب کا بھی ہے، لیکن والدین جب دعا مانگتے ہیں تو اپنی ذات کی مکمل نفی کر کے دعا کرتے ہیں۔ تو یہاں خدمت کے ساتھ ساتھ جو دعا کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ والدین کا حوالہ بھی ہے تو اس میں شائد اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ دیکھو تمہارے والدین نے جب تمہاری تربیت کی تھی اس میں جہاں ہر طرح کی دیکھ بھال، خیر خواہی، ہمدردی اور ایثار کا جذبہ کار فرما تھا وہیں اس میں تمہارے لیے بےلوث دعائیں بھی شامل تھیں۔ جن کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری سانس تک قائم رہا۔ وہ اپنے آپ کو بھول کر ہمیشہ تمہاری بھلائی اپنے رب سے مانگتے رہے۔ دیکھنا تم بھی ایسے ہی جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کرنا اور جہاں تک زندگی کے بعد دعائوں کا تعلق ہے اسے بھی آنحضرت ﷺ نے ماں باپ کے بعد از وفات حقوق میں شامل فرمایا۔ ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : عَنْ اَبِیْ السَّیِّدِ السَّاعَدِیْ قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِذْ جَآئَ رَجُلٌ مِّنْ بَنِیْ سَلْمَۃَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ بَقی من بر ابوی شیء ابرہما مِنْ بَعْدِ مَوْتِہِمَا قَالَ نَعَمْ اَلصّٰلٰوۃُ عَلَیْہِمَا وَالْاَسْتِغْفَارُ لَہُمَا وَانْقَاذُ عَہْدَہُمَا وَ صِلَۃُ الرَّحْمِ الَّتِیْ لَا تُوْصِلُ اِلَّا بِہِمَا وَ اِکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا (ابوسید الساعدی سے روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے بنی سلمہ میں سے ایک شخص آیا اور اس نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ کیا میرے ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے حقوق ہیں جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنے چاہئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا، ان کا اگر کوئی عہد معاہدہ کسی سے ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہیں ان کا لحاظ رکھنا، اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا اکرام و احترام کرنا۔ ) بعدازوفات والدین کے حقوق اس حدیث میں ماں باپ کے لیے دعا، اللہ سے ان کی بخشش کی طلب، بندوں میں سے کسی کے ساتھ اگر کوئی عہد معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا، ماں باپ کے تعلق سے جو جو رشتے بھی ہیں، ان کا لحاظ کرنا اور ان کا حق ادا کرنا اور زندگی میں ان کے جن کے ساتھ دوستی کے تعلقات تھے ان کا اکرام و احترام کرنا۔ یہ وہ حقوق ہیں جو ماں باپ کی وفات کے بعد بھی اولاد پر باقی رہتے ہیں تو ان میں سب سے پہلا حق ان کے لیے دعائے خیر و رحمت کرنا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جب بھی موقع ملے تو آپ اپنے والدین کے لیے یہ دعا کرتے رہا کریں : ’ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا (اے میرے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ ) اس کا فائدہ اس کے والدین کو قبر میں اور آخرت میں انشاء اللہ جو ہوگا سو ہوگا خود اولاد کو بھی اس کا فائدہ جو پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ نافرمان اولاد کو بھی اس دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرمانبردار اولاد میں شامل فرما دیتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِنَّ الْعَبْدَ لَیَمُوْتُ وَالِدَاہُ اَوْاَحَدُہُمَا وَ اِنَّہٗ لَہُمَا لَعَاقٍ فَلَا یَزَالُ یَدْعُوْلَہُمَا وَ یَسْتَغْفِرُ لَہُمَا حَتّٰی یَکْتُبَہُ اللّٰہُ بَارًا۔ (حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کے ماں باپ کا یا دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجاتا ہے اور اولاد زندگی میں ان کی نافرمان اور رضا مندی سے محروم ہوتی ہے لیکن یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد سچے دل سے ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر و رحمت کی دعا مانگتی اور بخشش کی التجا کرتی رہتی ہے۔ (اور اس طرح اپنی قصور کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالیٰ اس نافرمان اولاد کو فرمانبردار قرار دے دیتا ہی اور پھر وہ ماں باپ کی نافرمانی کے وبال اور عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ اندازہ فرمایئے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کرم کیا ہوگا ؟ دنیا میں کی ہوئی غلطیوں کی تلافی اور وہ بھی حقوق العباد کے حوالے سے متعلقہ لوگوں کی موت کے بعد، ظاہر ہے ایک ناممکن بات ہے لیکن پروردگار نے محض اپنے فضل و کرم سے نافرمان اولاد کی کوتاہیوں اور ان کی نافرمانیوں کا ازالہ اس صورت میں فرمایا کہ اگر وہ اپنی کوتاہیوں کو محسوس کرتے ہوئے اپنے لیے مغفرت مانگتے رہیں اور اپنے والدین کے لیے دعائوں کا سلسلہ جاری رکھیں تو جہاں والدین کو قبر میں رحمت و سکون ملے گا وہاں اس اولاد کے بارے میں بھی امید کی جاسکتی ہے کہ یہ قیامت کے دن عذاب سے بچ جائے۔ جہاں تک والدین کے بعد از وفات دوسرے حقوق کا تعلق ہے اس کی پابندی بھی اولاد پر لازم ہے۔ یعنی انھیں ہر صورت میں اپنے والدین کے معاہدوں کی پابندی کرنی چاہیے۔ وہ اپنے عزیزوں سے جس طرح صلہ رحمی سے پیش آتے تھے، انھیں بھی اس میں کمی نہیں کرنی چاہیے اور زندگی میں جن لوگوں سے انھوں نے اپنی دوستی اور محبت کا تعلق قائم کیا تھا انھیں ان کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے اور اس کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی ذاتی احباب کی فہرست میں اپنے والدین کے ملنے والوں کو بھی شامل کرے۔ پھر جس طرح مختلف تقریبات کے حوالے سے وہ اپنے احباب کو یاد رکھتا ہے اسی طرح وہ اپنی والدین کے احباب کو بھی یاد رکھے۔ اپنی والدہ کی سہیلیوں کو بھی مختلف اوقات میں تحائف بھیجتا رہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا یہ عمل ہمیں احادیث میں ملتا ہے کہ گھر میں جب کبھی آپ کوئی اچھا کھانا تیار کرواتے تو اپنے والدین کے احباب کو بھی یاد فرماتے۔ حتیٰ کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( رض) کی سہیلیوں کے گھروں میں بھی پکوان بھجواتے۔ ایک حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کے قریبی لوگوں سے حسن سلوک اولاد کے ذمہ صرف ماں باپ کا حق ہی نہیں، بلکہ خود اولاد کو اس سے یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ اگر ان سے کوئی ایسا بڑ گناہ ہوجائے جس سے بظاہر بخشش کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو والدین کے قریبی لوگوں سے حسن سلوک کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ وہ گناہ بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ یہ حدیث ملاحظہ فرمایئے۔ عَنْ اِبْنِ عُمَرَ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْٓ اَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَہَلْ لِّیْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ اُمٍّ قَالَ لَا قَالَ وَ ہَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرْہَا (حضرت عبداللہ بن عمر ( رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ؟ اور مجھے معافی مل سکتی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تمہاری ماں زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا ماں تو نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری کوئی خالہ ہے ؟ اس نے عرض کیا ہاں خالہ موجود ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو اس کی خدمت کر اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔ (اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول فرما لے گا اور تمہیں معاف فرما دے گا) والدین کی اطاعت کی دنیوی برکات آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ماں باپ کی فرمانبرداری کے دنیوی اور اخروی نتائج کیا ہوں گے ؟ جہاں تک دنیا میں اس کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق ہے اس کا ذکر ہم شروع میں کرچکے ہیں۔ کوئی معاشرہ کبھی حفاظت اور تربیت کے حوالے سے مستحکم بنیادوں پر قائم نہیں ہوسکتا۔ جس معاشرے میں والدین کا مقام و مرتبہ محفوظ نہ ہو اور جس میں ماں باپ کے تعلق کو معاشرے کی ایک مضبوط بنیاد کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ لیکن جہاں تک اس کی دنیوی برکات کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ہم آنحضرت ﷺ کی چند احادیث نقل کرتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ کی فرمانبرداری کی دنیا میں جو سب سے پہلی برکت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے فرمانبرداری کرنے والوں کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سلَّمَ اَنَّ اللّٰہِ یَزِیْدُ فِیْ عُمْرِ الرَّجُلِ بِبِرٍّ وَّالِدَیْہِ ( رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی خدمت فرمانبرداری اور حسن سلوک کی وجہ سے آدمی کی عمر میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ ) دوسری دنیوی برکت یہ ہے کہ جو اولاد ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت کرے گی اللہ تعالیٰ اس کی اولاد کو اس کی فرمانبرداری اور خدمت گزار بنا دے گا۔ اسی طرح جو لوگ پاکدامنی کی زندگی گزاریں گے اللہ تعالیٰ ان کی بیویوں کو پاکدامنی کی توفیق عطا فرمائے گا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : عَنْ اِبْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سلَّمَ بِرُّوْا اٰبَآئَ کُمْ یَبِرُّ اَبْنَآئُ کُمْ وَ عَفُّوْا تَعْفُ نِسَآئُ کُمْ (حضرت عمر ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے والدین کی خدمت اور فرمانبرداری کرو، تمہاری اولاد تمہاری فرمانبرداری اور خدمت گزار ہوگی۔ اور تم پاکدامنی کے ساتھ رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی۔ ) تیسرا دنیوی فائدہ یہ ہے کہ والدین کی خدمت سے اللہ تعالیٰ رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے : عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ سلَّمَ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ فِیْ رِزْقِہٖ وَ یَنْسَا لَہٗ فِیْٓ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلُ رَحْمَہٗ (حضرت انس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کے اجل میں تاخیر کی جائے تو اپنا رشتہ پیوست رکھے۔ ) مختصر یہ کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت اور بعد از وفات ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرنا، ان کے معاہدوں کی پاسداری کرنا اور انکے ملنے جلنے والوں سے اچھا رویہ رکھنا یہ وہ قدریں ہیں جن سے خاندان مضبوط ہوتا اور اہل خاندان کو معاشرتی تحفظ میسر آتا ہے۔ نتیجۃً معاشرے میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ ایثار و محبت کی قدریں پروان چڑھتی ہیں اور معاشرے میں رہنے والے لوگ خوشحالی، خوش اطواری اور خوشگواری کی زندگی گزارتے ہین، لیکن اگر والدین کا یہ ادارہ متاثر ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں پلنے والے بچے ان تمام قدروں سے آہستہ آہستہ محروم ہوجائیں گے جن کا ابھی ہم نے ذکر کیا اور خود غرضی اور خود سری کی لعنتیں معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرہ اجتماعی سکون سے محروم ہو کر حیوانون کا ایک انبوہ بن جائے گا۔ اس لیے ہم اگر ایک زندہ قوم کی طرح اسلامی اطوار کے حامل بن کر ایک آبرو مندانہ زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو انتہائی ضروری ہے کہ والدین کے احترام اور حسن سلوک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ باپ کو صحیح احترام اور حسن سلوک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ باپ کو صحیح احترام دیا جائے، وہ نہ صرف گھر کا مرکز ہے، بلکہ وہ گھر کا سربراہ بھی ہے۔ جس طرح گھر بھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کندھے اٹھائیں اسی طرح بچے اسکے نقوش قدم کو بھی اپنے لیے ایک نعمت سمجھیں۔ اس لیے اسلام نے باپ کی طرف پائوں پسارنے سے، اس کے آگے چلنے سے، اس کے سامنے بلند آواز سے بولنے سے اور اس کی رضامندی سے ہٹ کر فیصلہ کرنے سے منع فرمایا اور جہاں تک حسن سلوک کا تعلق ہے ماں کو باپ سے تین گنا بڑھ کر اس کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ کیونکہ جو بےتکلفی اولاد کو اپنی ماں سے ہوتی ہے باپ سے نہیں ہوتی۔ البتہ رہنمائی کا فریضہ چونکہ باپ کو انجام دینا ہے اس لیے اولاد اور باپ میں ایک فرق رکھتے ہوئے اس کے احترام کی زیادہ تاکید فرمائی اور ماں کو حسن سلوک کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ محترم بنایا گیا۔ بہرحال والدین ہی اولاد کی جنت بھی ہیں اور ہنم بھی۔ اور انہی کے حوالے سی معاشرہ بنتا بھی ہے اور بگڑتا بھی اور یہی وہ نعمت ہیں جن کی قدر کر کے قومیں دنیا میں سرفراز ہوتی ہیں۔
Top