Ruh-ul-Quran - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیاطین کو چھوڑ رکھا ہے، وہ انھیں خوب خوب برانگیختہ کر رہے ہیں۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّـآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تُؤْزُّھُمْ اَزًّا۔ فَلاَ تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ ط اِنَّمَا نَعُدُّلَھُمْ عَدًّا۔ (مریم : 83، 84) (کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیاطین کو چھوڑ رکھا ہے، وہ انھیں خوب خوب برانگیختہ کررہے ہیں۔ تو آپ ان کے فیصلے کے لیے جلدی نہ کریں، ہم ان کے لیے اچھی طرح گنتی کررہے ہیں۔ ) اَرْسَلْنَا کا مفہوم اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ کا معنی امام رازی، علامہ قرطبی اور علامہ آلوسی کے نزدیک یہ ہے کہ ہم نے شیاطین کو کافروں پر مسلط کردیا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اَرْسَلْنَا تسلیط کے معنی کو متضمن ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک عرب جب اپنی گفتگو میں یہ کہتے ہیں ” ارسل الکلب علی الصید “ تو اس کے معنی ہوتے ہیں ” کتے کو شکار پر چھوڑ دیا “ اس آیت کریمہ میں بھی اسی اسلوب پر یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے ” کہ ہم نے ان کافروں پر شیاطین کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ جتنا انھیں دعوت حق کیخلاف اکسا سکتے ہیں اکسا لیں۔ “ اَزَّ یَـؤُزُّ کا مفہوم اَزًّا … اَزَّ یَـؤُزُکا معنی ہے برانگیختہ کرنا، بھڑکانا اور اکسانا۔ عربی لغت میں اَزَّ ، ھَزَّ ، فَزَّ ، حَضَّسب ایک معنی میں بولے جاتے ہیں۔ البتہ خفت و شدت اور کمی و زیادتی کے لحاظ سے ان میں باہمی فرق ہے۔ اَزَّ کے معنی میں سب سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ سنت اللہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جب حق و باطل میں کشمکش اپنے عروج کو چھو رہی تھی۔ کفار ہر ممکن طریقے سے دعوت اسلامی کا خاتمہ کردینا چاہتے تھے اور آئے دن مخالفت اور اذیت کے نئے سے نئے طریقے ایجاد کیے جارہے تھے۔ ایسے میں نبی کریم ﷺ اور مظلوم مسلمانوں کی نگاہیں بار بار آسمانوں کی طرف اٹھتی تھیں اور وہ اپنی بےبسی کے حوالے سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نصرت و رحمت کے منتظر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب اندھیرا شدید ہوجاتا ہے تو سحر ضرور طلوع ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق انھیں پریشانی بھی لاحق ہونے لگتی تھی۔ چناچہ اس پوری صورتحال میں بعض حکمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے یہ خلاف توقع نہیں۔ حق و باطل کی کشمکش میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب مخالفین اور معاندین ہر ممکن طریقے سے اللہ تعالیٰ کے رسول کا راستہ روکنے اور اس عظیم نعمت کی ناشکری کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ وہ انھیں اس بات سے روک دے بلکہ وہ مخالفت کے اسباب میں مزید اضافہ کردیتا ہے اور ان کی قبولیت کے سوتوں کو بالکل خشک کردیتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِالرَّحٰمَنِ نُقَیِّضْ لَـہٗ شَیْطْانًا فَھُوَلَـہٗ قَرِیْنٌ (زخرف آیت 36) ” جو شخص رحمن کے ذکر سے اعراض کرتا ہے ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں، پس وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ “ ان لوگوں نے چونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت سے نہ صرف اعراض کیا بلکہ اس کی مخالفت کی انتہا کردی ہے، تو اب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعراض کو مزید پختہ کرنے کے لیے ان پر شیاطین چھوڑ دیئے ہیں۔ ان کا کام شب و روز یہ ہے کہ وہ انھیں زیادہ سے زیادہ اسلام دشمنی پر اکساتے ہیں۔ اگر کبھی ان کی مصلحتیں آڑے آنے لگتی ہیں تو یہ انھیں اور بھڑکاتے ہیں تاکہ یہ لوگ اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ تاریخ کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا مذکورہ بالا قانون اللہ تعالیٰ کے رسول جیسی عظیم نعمت کی ناقدری کرنے پر حرکت میں آتا ہے اسی طرح مسلمانوں میں بھی اس وقت حرکت میں آتا ہے جب وہ اسلام کی نعمت عظمیٰ کی ناقدری کرتے ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں اللہ تعالیٰ کے قانون کو نافذ کریں، لیکن وہ بجائے نافذ کرنے کے اس کو زندگی کے ایک ایک دائرے سے خارج کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ تو شروع شروع میں تو اللہ تعالیٰ انھیں مختلف تنبیہات سے متنبہ فرماتا ہے، لیکن جب وہ راہ ِراست پر نہیں آتے تو پھر اس ملک کے رہنے والوں کی اکثریت کو اسلام کے حقیقی تصور سے بیگانہ کردیتا ہے اور اسلام کے مخلص اہل علم کی کاوشیں ان کے لیے بیکار ثابت ہونے لگتی ہیں۔ وہ اسلام کو ازکاررفتہ دین سمجھنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں بھی (اللہ تعالیٰ معاف کرے) ایسی ہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے مجبور و مہجور مسلمانوں کو محض اپنے فضل و کرم سے پاکستان جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اور ایک خونخوار اور منہ زور اکثریت سے انھیں محفوظ فرمایا۔ انگریزوں اور ہندوئوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود یہ ملک وجود میں آگیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس وعدے اور نعرے کی لاج رکھی کہ پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ۔ اور ان کے لیڈرانِ کرام کے اس وعدے کو آزمائش کے طور پر قبول کرلیا کہ ہم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے تاکہ اس تجربے کی کامیابی کو دیکھ کر پوری دنیا اسلام کی طرف مائل ہونے پر مجبور ہوجائے۔ لیکن پاکستان بنتے ہی جس طرح ان وعدوں کی مٹی پلید کی گئی اور آہستہ آہستہ اس ملک کا ایک ایک ادارہ اسلام سے آزاد ہوتا گیا، اس کا شاید نتیجہ ہے کہ آج ملک کی اکثریت اسلامی قانون کے نفاذ کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ تعلیمی اداروں سے نکلنے والے اسے بےوقت کی راگنی سمجھتے ہیں۔ ملک میں ابھی تک مخلص اور نیک لوگوں کا ایک طبقہ موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے اپنی ہمت سے بڑھ کر مساعی بروئے کار لا رہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون شاید نافذ ہوچکا ہے کہ شیاطین کو اکثریت پر مسلط کردیا گیا ہے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ ان پر اسلام کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا۔ اللہ تعالیٰ کرے میرا یہ احساس غلط ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی صورتحال سے محفوظ رکھے۔ فَلاَ تَعْجَلْ عَلَیْہِمْ …متذکرہ بالا صورتحال میں نبی کریم ﷺ اپنے ساتھیوں کی قوت مدافعت کو دیکھتے ہوئے بار بار اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصرت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ سے یہ کہا جارہا ہے کہ ان مخالفین کے خلاف جو فیصلہ ہونے والا ہے آپ ﷺ اس میں جلدی نہ کریں۔ آپ تسکین اور اطمینان رکھیں کیونکہ ان کی مخالفت جتنی شدت اختیار کرتی جارہی ہے اتنی ہی وہ اپنی مصیبت کو قریب لا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو شاید ہراساں کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور وہ دعوت اسلامی کا کام چھوڑ دیں گے، لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ ان کی یہ حرکتیں ان کی بربادی کو ان کے قریب کر رہی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے مزید کہا جارہا ہے کہ ہم ان کے ایک ایک لمحے کو شمار کررہے ہیں۔ گھڑی کی سوئی اپنے آخری نقطہ پر پہنچنے والی ہے۔ پس جیسے ہی ان کی مہلت عمل ختم ہوگی، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان پر مسلط ہوجائے گا اور وہ اپنی مخالفت اور اسلام دشمنی کی پاداش میں اپنے بدترین انجام کو پہنچ جائیں گے۔
Top