Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان چیزوں کے پیچھے پـڑگئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے اور وہ پیچھے لگ گئے اس علم کے بھی جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا تھا اور وہ دونوں کسی کو بھی (اس فن کی باتیں) نہیں بتاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو بس ایک آزمائش کے لیے ہیں تو تم کفر میں نہ پڑجانا۔ مگر لوگ ان دونوں سے وہ علم سیکھتے جس سے وہ جدائی ڈال دیتے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان حالانکہ اس کے ذریعے سے نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر ہاں ارادئہ الہٰی سے اور یہ وہ چیز سیکھتے تھے جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور انھیں نفع نہیں پہنچا سکتی حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ جس نے اس چیز کو اختیار کیا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے اور بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا اے کاش ! وہ اس کو سمجھتے
وَاتَّبَعُوْامَا تَتْلُوْا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ج وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوایُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَق وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہٖ ط وَمَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّابِاِذْنِ اللّٰہِط وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَایَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْط وَلَقَدْعَلِمُوْالَمَنِ اشْتَرٰہُ مَالَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ قف وَلَبِئْسَ مَاشَرَوْابِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ ط لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ وَلَوْاَنَّھُمْ اٰمَنُوْاوَاتَّقَوْالَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ خَیْرٌط لَوْکَانُوْایَعْلَمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 102 تا 103) (اور ان چیزوں کے پیچھے پـڑگئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے اور وہ پیچھے لگ گئے اس علم کے بھی جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا تھا اور وہ دونوں کسی کو بھی (اس فن کی باتیں) نہیں بتاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو بس ایک آزمائش کے لیے ہیں تو تم کفر میں نہ پڑجانا۔ مگر لوگ ان دونوں سے وہ علم سیکھتے جس سے وہ جدائی ڈال دیتے مرد اور اس کی بیوی کے درمیان حالانکہ اس کے ذریعے سے نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر ہاں ارادئہ الہٰی سے اور یہ وہ چیز سیکھتے تھے جو انھیں نقصان پہنچا سکتی ہے اور انھیں نفع نہیں پہنچا سکتی حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ جس نے اس چیز کو اختیار کیا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے اور بہت ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا اے کاش ! وہ اس کو سمجھتے اور اگر وہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو اس کا ثواب اللہ کے ہاں کہیں بہتر ہوتا۔ کاش ! وہ جانتے) قوموں کا زوال سحر و ساحری جیسی دلچسپیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو قوم اور امت اللہ کے دین سے وابستگی کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، اس کی سرافرازی اور مضبوطی اسی دین کی وابستگی میں مضمر ہوتی ہے۔ جب تک وہ اللہ کے نبیوں کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتی رہتی ہے اور اللہ کی رضا کا حصول ان کا مقصود رہتا ہے اور اللہ کے رسول کی سنت ان کی زندگی کا طریقہ بنا رہتا ہے تو اس کے اندر زندہ قوم کی تمام صفات موجود رہتی ہیں۔ وہ اولوالعزم قوموں کی طرح زندگی کے جہاد میں شریک رہتی ہے اور اس کا ایک ایک فرد انسانی صفات کا پیکر اور دینی حسیات کا مرقع ہوتا ہے۔ اس کی روحانی اور معنوی زندگی چونکہ اس پر غالب رہتی ہے اس لیے مادی قوتیں اس کے سامنے مغلوب رہتی ہیں۔ وہ دنیا میں اللہ کا پیغام بن کر اس طرح زندہ رہتی ہے کہ تمام قوتیں اس کے ہم رکاب چلتی ہیں اور قدم قدم پر اللہ کی تائید اور نصرت اسے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جب دین کا رشتہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور وہ مادی زندگی کی اسیرہوجاتی ہے تو پھر اس کی دلچسپیاں اللہ کی کتاب اور اللہ کے دین سے نہیں رہتیں بلکہ ایسے تمام علوم وفنون اس کی دلچسپی کا مرکز بن جاتے ہیں جو اس کے معدے کے جہنم کو بھرنے کا کام دیتے ہیں اور اس کے سفلی جذبات کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ وہ چونکہ زندگی کی کشمکش سے عاری ہوجاتی ہے اس لیے اپنی کامیابیاں اور کامرانیاں ان علوم کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے جن سے اس کے کام بھی نکلتے رہیں لیکن نہ اسے محنت کی تکلیف اٹھانا پڑے اور نہ کسی معرکے سے واسطہ پڑے۔ آنحضرت ﷺ کے معاصر یہود ایسی ہی صورت حال سے دوچار تھے۔ وہ اللہ کے دین سے دوری کے باعث زندگی کے مقاصد سے بےبہرہ اور اولوالعزمی، جاں سپاری اور سرفروشی جیسے جذبات سے محروم ہوگئے تھے۔ شمشیروسناں سے ان کا تعلق ٹوٹ چکا تھا۔ اب ان کی ساری دلچسپیاں سحر وساحری، ٹونے ٹوٹکے، جنتر منتر، جیسے سفلی اور شیطانی علوم سے وابستہ ہو کر رہ گئی تھیں۔ بجائے اللہ کی کتاب کو پڑھنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے سحر وشعبدہ اور علم نجوم وغیرہ جیسے علوم سفلیہ سے انھوں نے تعلق جوڑ لیا تھا۔ سحر وساحری کا چرچا تو کچھ نہ کچھ ہر دور میں رہا لیکن حضرت سلیمان کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے، ان کے روحانی علوم کے مقابلہ کے شوق میں شیاطینِ جن وانس کے ایک طبقہ میں یہ شوق بہت فروغ پا گیا تھا اور ان مفسدین نے اپنے ان علوم وفنون کو مدون بھی کرڈالا تھا۔ یہود نے اپنی اخلاقی پستی کے زمانہ میں انھیں چیزوں سے اپنا تعلق اس حد تک استوار کرلیا تھا کہ ان کے علما اور مشائخ انھیں چیزوں کے بل بوتے پر اپنے کاروبارِ علم اور دکان مشیخیت کو چلا رہے تھے اور لوگوں میں اپنے اعتماد کو بڑھانے کے لیے سحروساحری کے اس علم کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف منسوب بھی کرتے تھے اور لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ یہ جو کچھ ہم کررہے ہیں یہ ہماری اپنی اختراع نہیں بلکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت اور حشمت کا راز انھیں علوم میں تھا۔ مسلمانوں کے اندر بھی شائد یہی اثر سینہ بسینہ منتقل ہوا ہے کہ ہمارے عملیات کا کام کرنے والے نقش سلیمانی کے نام سے آج بھی بعض عملیات کرتے ہیں۔ وَمَـآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ (جو کچھ نازل کیا گیا دو فرشتوں پر بابل میں یعنی ہاروت وماروت پر) آیت کے اس ٹکڑے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے معاصر یہود جو سحر وساحری کا کاروبار کررہے تھے اس کا تعلق جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد کی اس جادوگری سے تھا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں شیاطین جن و انس کیا کرتے تھے اور انھوں نے بعد کے آنے والوں کے لیے اپنے ورثے کو مدون بھی کردیا تھا۔ اسی طرح ان کا تعلق اس جادو گری سے بھی تھا جس کا تعلق بابل کی سحروساحری سے تھا۔ جو ہاروت وماروت کے ذریعے لوگوں تک پہنچا تھا۔ تاریخِ قدیم کے جاننے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ عہد رسالت اور طلوع اسلام سے صدیوں پہلے بنی اسرائیل دو مستقل حصوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک ٹکڑا وہ جو بخت نصر کے ہاتھوں جلا وطنی کے بعد کلدانیہ یا بابل (موجودہ عراق) میں رہ پڑا تھا اور یہیں بس گیا تھا۔ دوسری شاخ وہ جو ایک مدت دراز کے بعد وہاں سے واپس آکر پھر فلسطین میں آباد ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں یہ حقیقت واضح کی جارہی ہے کہ عہد رسالت کے معاصر یہود جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد کے رزائل وخبائث کے وارث تھے اسی طرح وہ بابل کی جادوگری کے امین بھی تھے۔ ان دونوں ورثوں سے کام لے کر وہ سحروساحری کی دکان چلا رہے تھے۔ لیکن بابل کے جادوکا ذکر کرنے سے پہلے ( حالانکہ عہد سلیمانی اور بابل کے جادو اپنے اثر کے اعتبار سے ایک ہیں ) ۔ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ کا مفہوم درمیان میں وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ وَلٰـکِنَّ الشَّیٰطِیْنُ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ” اور سلیمان نے کفر نہیں کیا شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے “۔ کی عبارت پڑھ کر عجیب سا احساس ہونے لگتا ہے۔ کہ پہلا اور تیسرا جملہ آپس میں مربوط ہیں۔ درمیان میں ایک ایسی بات کہنا کیوں ضروری سمجھا گیا ہے جو بظاہر غیر مربوط معلوم ہوتی ہے اور پھر سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر ہیں اور پیغمبروں کے بارے میں ہر امت کو یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نمائندے اور معصوم ہوتے ہیں کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے تو پھر یہ کہنا کہ سلیمان نے کفر نہیں کیا ایک عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی ملک کا بادشاہ یہ فرمان جاری کرے کہ ہمارا نائب السلطنت باغی اور غدار نہیں حالانکہ نائب السلطنت تو کبھی باغی یا غدار نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں کسی بات کا تذکرہ بےسبب نہیں ہوتا۔ تحقیق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل کتاب یعنی یہود اگرچہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ کا پیغمبر تسلیم کرتے تھے، اور ان کی عظمت کے بھی قائل تھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی طرف گندے سے گندے جرائم بھی منسوب کرتے تھے۔ حتی کہ کفر وشرک تک کا الزام ان پر لگایا گیا۔ حالانکہ اللہ کے یہاں کفر وشرک سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کے الزامات یہود کی طرف سے یہودی قصص اور حکایات اور مسیحی آثار و روایات ہی میں منقول نہیں بلکہ بائبل یعنی عہد عتیق کے صحائف جن پر یہود و نصاریٰ دونوں کا ایمان ہے میں بھی اس طرح کی تصریحات موجود ہیں۔ مثلاً (جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جو روئوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اس کا دل اپنے خدا کی طرف سے کامل نہ تھا) (1۔ سلاطین 11، 4، 9، 10) مزید ملاحظہ کیجئے ! (سو ازبسکہ اس کا دل خداوندِ اسرائیل کے خدا سے برگشتہ ہوا۔ اس لیے خداوند سلیمان پر غضب ناک ہوا کہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اس نے اپنے خداوند کے حکم کو یا دنہ رکھا) (1۔ سلاطین : 11، 9، 10) قرآن کریم چونکہ اپنی دعوت کی بنیاد پیغمبروں کی عصمت پر رکھتا ہے اس لیے اس نے بات کو نامکمل چھوڑ کر پہلے یہ ضروری سمجھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسے پیغمبر کا دامن اہل کتاب کے اڑائے ہوئے چھینٹوں سے پاک کردے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی اس وضاحت کے باوجود دنیا سینکڑوں سال تک انھیں یہودیانہ تحریفات واختراعات کا شکار ہو کر اس موحد اعظم کو نعوذباللہ کافر اور مشرک سجھتی رہی ہے اور قرآن کی صدائے حق اس ہنگامے میں دنیا کے کانوں میں نہ پہنچ سکی۔ یہاں تک کہ صدیاں گزر گئیں بالآخر اللہ کی قدرت کا اعجاز دیکھئے کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکاجو برطانوی تحقیق کا لب لباب ہے اس کے سب سے آخری ایڈیشن میں مقالہ زیرعنوان سلیمان میں لکھا گیا ہے : (سلیمان خدائے واحد کے مخلص پرستار تھے) (جلد 2، صفحہ 952۔ طبع چہاردہم) انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا خاص مسیحی فضلاء اور پرستارانِ بائبل کی تحقیق وتدقیق کا ثمرہ ہے اس میں تو یہاں تک ہے کہ بائبل کی جو آیتیں اوپر نقل ہوچکی ہیں ان کا حوالہ دے کر لکھا گیا ہے کہ یہ عبارتیں بعد میں بڑھائی گئی ہیں اور الحاقی ہیں۔ اور پھر لکھا ہے یہ غالباً صحیح ہے کہ سلیمان کی بیویاں متعدد تھیں اسرائیلی بھی، غیر اسرائیلی بھی۔ لیکن انھوں نے نہ تو سب کے لیے قربان گاہیں تیار کروائیں اور نہ خود خدائے واحد کی پرستش کے ساتھ اپنی بیویوں کے دیوتائوں کی پرستش کا تجربہ ہونے دیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ ایک تو یہ بات فرمائی گئی کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا۔ لیکن یہ نہیں بتلایا کہ کفر سے مراد کیا ہے لیکن اسی جملے کے دوسرے حصے میں یہ فرمایا کہ کفر شیاطین نے کیا، اور وہ کفر کیا تھا ؟ کہ وہ لوگوں کو سحر اور جادو کی تعلیم دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سحر ہر لحاظ سے کفر ہے اور اس کے اگلے جملے میں جس کا پہلے بھی تذکرہ ہوچکا یہ بتلایا گیا ہے کہ یہود صرف عہد سلیمان کی جادو گری سے ہی واقف نہیں تھے بلکہ وہ سحر بابل سے بھی واقف تھے جو ہاروت وماروت دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ مَـآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَـکَیْنِ سے کیا مراد ہے ؟ اس جملے کو سمجھنے میں علما میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک تو رائے یہی ہے کہ ہاروت وماروت پر جادو کے علوم نازل کیے گئے تھے اور آگے لوگوں میں جس طرح عہد سلیمانی کا جادو پھیلا اسی طرح یہ جادو بھی پھیلا۔ اس پر سوال پید اہوا کہ عجیب بات ہے کہ جادو اگر کفر ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے آخر دو فرشتوں کے ذریعے لوگوں تک کیوں پہنچایا ؟ اور پھر اللہ کی طرف سے انزال یا نزول کا تعلق کفر یہ علوم کے حوالے سے نہائت کھٹکنے والی بات ہے۔ اس پر رائے دیتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ نزول اور انزال کا اطلاق صرف احکامِ تشریعی ہی میں نہیں ہوتا امور تکوینی میں بھی ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ تکوینیات کے سلسلے میں جو کام جیسا بھی کیا جاتا ہے اس کے لیے واسطہ اور وسیلہ بہرحال فرشتے ہوتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد بیشمار کام فرشتوں سے لیے جارہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ان کا شعور نہیں ہوتا اسی لیے قرآن کریم نے مختلف تکوینی معاملات میں فرشتوں کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا ہے۔ جہاں تک نازل کیے جانے کا تعلق ہے اللہ کی طرف سے نازل صرف کتاب و حکمت اور وحی والہام ہی نہیں ہوتا۔ قحط، بیماری، موت، سب کا نزول اور انزال بحیثیتِ مسبب الاسباب اللہ ہی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ محاورہ قرآنی میں انزال کا تعلق رزق، پانی، لباس، پوشاک، لوہے اور چوپائے کے سلسلے میں صراحت کے ساتھ آیا ہے اور پھر ہاروت وماروت پر اس علم کا نازل کیا جانا جادو گری کے لیے نہیں بلکہ ایک اور مقصد کے لیے تھا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ بابل میں جادو کا جب بہت چرچا ہوا تو اس کے عجیب و غریب اثرات دیکھ کر جاہلوں کو اس کی حقیقت اور انبیائے کرام کے معجزات کی حقیقت میں اختلاط و اشتباہ ہونے لگا اور بعض لوگ جادوگروں کو مقدس اور قابل اتباع سمجھنے لگے اور بعض لوگ جادو کو نیک کام سمجھ کر اس کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے لگے۔ جیسا موجودہ دور میں مسمریزم اور ہیپناٹزم کے ساتھ لوگوں کا معاملہ ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلطی کو رفع کرنے کے لیے بابل میں دو فرشتے ہاروت و ماروت نامی بھیجے کہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کے شعبوں سے مطلع کردیں تاکہ اشتباہ جاتا رہے۔ البتہ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام انبیائے کرام سے کیوں نہ لیا گیا ؟ جب کہ ہدایت کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے تو یہ بھی ہدایت ہی کا ایک پہلو ہے۔ اسے بھی ان کے سپرد کیوں نہ کیا گیا ؟ مولانا تھانوی ( رح) اس کے جواب میں لکھتے ہیں : (یہ کام انبیائے کرام سے اس لیے نہیں لیا گیا کہ اول تو انبیاء اور جادوگروں میں امتیاز وفصل کرنا مقصود تھا، ایک حیثیت سے گویا انبیائے کرام ایک فریق کا درجہ رکھتے تھے اس لیے فریقین کے علاوہ کوئی اور ثالث ہونا مناسب تھا ) دوسرے اس کام کی تکمیل بغیر جادو کے الفاظ کی نقل وحکایت کے عادۃً ہو نہ سکتی تھی اگرچہ نقل کفر کفر نہ باشد کے عقلی ونقلی مسلمہ قاعدہ کے مطابق ایسا ہوسکتا تھا مگر چونکہ حضراتِ انبیائے کرام مظہر ہدایت ہوتے تھے اس لیے ان سے یہ کام لینا مناسب نہ سمجھا گیا لہٰذا فرشتوں کو اس کام کے لیے تجویز کیا گیا۔ کیونکہ کارخانہ تکوین میں جو خیر و شر سب پر مشتمل ہوتا ہے ان فرشتوں سے ایسے کام بھی لیے جاتے ہیں جو مجموعہ عالم کے اعتبار سے بوجہ مصالح عامہ خیر ہوں لیکن لزوم مفسدہ کے سبب فی ذاتہٖ شر ہوں جیسے کسی ظالم و جابر یا موذی جانوروغیرہ کی نشو و نما اور غور وپرداخت کہ تکوینی اعتبار سے تو درست و محمود ہے اور تشریعی لحاظ سے نا درست و مذموم، بخلاف انبیائے کرام (علیہم السلام) کے کہ ان سے خاص تشریحات کا ہی کام لیا جاتا ہے جو خصوصاً و عموماً خیرہی ہوتا ہے۔ گو کہ یہ نقل وحکایت مذکورہ غرض کے لحاظ سے ایک تشریعی کام ہی تھا لیکن پھر بھی بوجہ احتمال قریب اس امر کے کہ کہیں یہ نقل وحکایت بھی جادو پر عمل کا سبب نہ بن جائے جیسا کہ واقعہ میں ہوا تو حضرات انبیاء کو اس کا سبب براستہ نقل بنانا بھی پسند نہ کیا۔ البتہ کلیاتِ شرعیہ سے انبیائے کرام کے ذریعہ بھی اس مقصود کی تکمیل کردی گئی۔ ان کلیات کے جزئیات کی تفصیلات بوجہ احتمال ِ فتنہ انبیائے کرام کے ذریعہ نہیں کی گئیں۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ مثلاً انبیائے کرام نے یہ بتایا ہے کہ رشوت لینا حرام ہے اور اس کی حقیقت بھی بتلادی۔ لیکن جزئیات نہیں بتلائے کہ ایک طریقہ رشوت کا یہ ہے کہ صاحب معاملہ سے یوں چال کرکے فلاں بات کہے وغیرہ وغیرہ کیونکہ اس طرح کی تفصیلات بیان کرنے سے تو لوگ اور ترکیبیں سیکھ سکتے ہیں۔ یا مثلاً اقسامِ سحر ہی میں مثال فرض کیجئے کہ قواعدِ کلیہ سے یہ بتادیا گیا کہ دست غیب کا عمل جس میں تکیہ کے نیچے یا جیب میں رکھے ہوئے روپے مل جائیں ناجائز ہے۔ لیکن یہ نہیں بتلایا کہ فلاں عمل پڑھنے سے اس طرح روپیہ ملنے لگتا ہے۔ بعض دوسرے اہل علم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ فرشتوں پر جو کچھ اتارا گیا تھا وہ جادو تھا۔ اس کو تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ فرشتوں پر کوئی علم اتارا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا تھا ؟ ان کے خیال میں وہ ایساعلم ہونا چاہیے جس کا فرشتوں پر اترنا موزوں بھی ہو اور جس کے انہماک یا غلط استعمال سے وہ خرابیاں بھی پیدا ہوسکتی ہوں جو یہاں اس علم میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کا انہماک کتاب اللہ سے برگشتہ کرتاہو۔ اس کی نوعیت ایک فتنہ کی ہو جس کے غلط استعمال سے آدمی کفر میں پڑسکتا ہو۔ اشیاء اور کلمات کے روحانی خواص کا علم مولاناامین احسن اصلاحی ( رح) اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں : ” ہمارے نزدیک اس سے مراد اشیاء اور کلمات کے روحانی خواص وتاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے پیروں اور صوفیوں میں ہوا۔ جس کو انھوں نے گنڈوں، تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالہ کے لیے یا نظربد اور جادو وغیرہ کے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے۔ یہ علم اس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ کے علم سے بالکل مختلف تھا کہ اس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا۔ لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانہ اسیری کے دو فرشتوں کے ذریعہ سے اس لیے دیا گیا ہو کہ اس کے ذریعہ سے بابل کی سحر وساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوگوں کو جادو گروں کے رعب سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر وساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا اور دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اس کے مقابلہ کے لیے اہل ایمان کو کوئی ایسا علم بھی عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔ آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں :” ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کیا اس طرح کا کوئی علم دنیا میں وجود بھی رکھتا ہے تو اس کے جواب میں ہماری گذارش یہ ہے کہ اس کا انکار ایک بالکل بدیہی بات کا انکار ہے۔ اگرچہ میں خود اس طرح کے کسی علم کا کبھی عامل نہیں بنا لیکن متعدد بار میرے اپنے تجربہ میں ایسی باتیں آئی ہیں جن کے بعد میرے لیے اس چیز کا انکار ممکن نہیں رہا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنا یا اور اس سے انھوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اس کی مدد سے انھوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمانوں کی برتری بھی ثابت کی۔ لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود میں یہ علم علوم سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکانداری کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا۔ اس طرح ہمارے یہاں بھی یہ پیری مریدی کی دکان چلانے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا اور حق سے زیادہ اس میں باطل کے اجزا شامل ہوگئے جس کے سبب سے لوگوں پر اس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے “۔ (تدبرِ قرآن۔ سورة البقرۃ) فرشتوں کی معصومیت اور ان کی طرف سے تعلیم سے پہلے تنبیہ اس کے بعد کے جملے میں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کی طرح ہاروت وماروت کی معصومیت واضح فرمائی ہے کہ ان دونوں فرشتوں نے جو علم لوگوں تک منتقل کیا وہ پوری شرائط کے ساتھ تھا اور انھیں سکھانے سے پہلے بار بار یہ بات بتلاتے تھے کہ ہمیں ایک آزمائش بنا کر بھیجا گیا ہے کہ تم ہم سے یہ علم سیکھ کر دین کی بالادستی کا کام کرتے ہو یا اپنی نفسانیت کو غذا فراہم کرتے ہو۔ بابل کا جادو تمہارے دین اور تمہارے اخلاق کو جو نقصان پہنچا رہا ہے ہمارا علم اس کا علاج ہے۔ لیکن اگر تم نے اسے بھی ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا تو یہ علم بھی جادو ہی کی طرح تمہیں برباد کردے گا۔ لیکن ان تمام احتیاطی تدابیر کے واضح کرنے کے باوجود اگلے جملوں میں بتایا گیا ہے کہ یہودنے اپنی پست ہمتی، بد اخلاقی اور دناءت کے باعث اس علم سے بھی وہی کام لیا جس سے ان کی جسمانی اغراض پوری ہوتیں۔ حتی کہ میاں بیوی کا تعلق جو خاندان کی بنیاد ہے وہ بھی ان کے شر سے محفوظ نہ رہاحالان کہ یہود کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جو لوگ اس طرح کے فتنوں میں پڑیں گے ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا۔ لیکن انھوں نے ہر صورت میں نفسانی اغراض کی خاطر اس علم کو ایک کاروبار بنایا اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیاحالان کہ اگر وہ اللہ کی کتاب پر ایمان لاتے اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرتے توا للہ کے یہاں جو اجر وثواب ملتا وہ انھیں نہال کردیتا۔ لیکن وہ اس سے محروم رہے۔ کاش ! وہ کبھی اس بات پر غور کرتے اور کتاب اللہ کی حقیقت کو سمجھتے۔ آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صاحب معارف القرآن نے سحر کی حقیقت پر جو کچھ لکھا ہے اسے یہاں نقل کردیاجائے۔ سحر کی حقیقت سحر بالکسر لغت میں ہر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو (قاموس) خواہ وہ سبب معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو، جیسے جنات و شیاطین کا اثر یا مسمریزم میں قوت خیالیہ کا اثر یا محسوسات کا ہو مگر وہ محسوسات مخفی ہوں، جیسے مقناطیس کی کشش لوہے کے لیے جبکہ مقنا طیس نظروں سے پوشیدہ ہو یا دوائوں کا اثر جب کہ وہ دوائیں مخفی ہوں یا نجوم وسیارات کا اثر۔ اسی لیے جادو کی اقسام بہت ہیں، مگر عرف عام میں عموماً جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے، جن میں جنات و شیاطین کے عمل کا دخل ہو یا قوت خیالیہ مسمریزم کا یا کچھ الفاظ و کلمات کا کیونکہ یہ بات عقلاً بھی ثابت ہے اور تجربہ و مشاہدہ سے بھی اور قدیم وجدید فلاسفہ بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حروف و کلمات میں بھی بالخاصہ کچھ تاثیرات ہوتی ہیں، کسی خاص حرف یا کلمہ کو کسی خاص تعداد میں پڑھنے یا لکھنے وغیرہ سے خاص خاص تاثرات کا مشاہدہ ہوتا ہے یا ایسی تاثیرات جو کسی انسانی بالوں یا ناخنوں وغیرہ اعضاء یا اس کے استعمالی کپڑوں کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں شامل کرکے پید ا کی جاتی ہیں جن کو عرف عام میں ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اصطلاحِ قرآن وسنت میں سحر ایسے امرعجیب کو کہا جاتا ہے، جس میں شیاطین کو خوش کرکے ان کی مدد حاصل کی گئی ہو، پھر شیاطین کو راضی کرنے کی مختلف صورتیں ہیں، کبھی ایسے منتراختیار کیے جاتے ہیں جن میں کفر وشرک کے کلمات ہوں اور شیاطین کی مدح کی گئی ہو یا کواکب ونجوم کی عبادت کی گئی ہو، جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔ کبھی ایسے اعمال اختیار کیے جاتے ہیں، جو شیطان کو پسند ہیں، مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا یا جنابت و نجاست کی حالت میں رہنا، طہارت سے اجتناب کرنا، وغیرہ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتوں کی مدد ان اقوال وافعال سے حاصل کی جاتی ہے، جن کو فرشتے پسند کرتے ہیں۔ مثلاً تقویٰ ، طہارت اور پاکیزگی، بدبودار اور نجاست سے اجتناب ذکر اللہ اور اعمالِ خیر۔ اسی طرح شیاطین کی امداد ایسے اقوال وافعال سے حاصل ہوتی ہے، جو شیطان کو پسند ہیں، اسی لیے سحر صرف ایسے ہی لوگوں کا کامیاب ہوتا ہے جو گندے اور نجس رہیں، پاکی اور اللہ کے نام سے دور رہیں، خبیث کاموں کے عادی ہوں، عورتیں بھی ایام حیض میں یہ کام کرتی ہیں تو موثر ہوتا ہے، باقی شعبدے اور ٹوٹکے یا ہاتھ چالاکی کے کام مسمریزم وغیرہ ان کو مجازاً سحر کہہ دیا جاتا ہے۔ (روح المعانی) سحر کی اقسام امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف قسمیں ہیں، شعبدہ باز اپنی ہاتھ چالاکی سے ایسے کام کرلیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں، یاقوت خیالیہ مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، مگر اس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں ہوتی، کبھی یہ کام شیاطین کے اثر سے بھی ہوسکتا ہے کہ مسحور کی آنکھوں اور دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے جس سے وہ ایک غیر واقعی چیز کو حقیقت سمجھنے لگے، قرآن پاک میں فرعونی ساحروں کے جس سحر کا ذکر ہے وہ اسی قسم کا سحر تھا، جیسا کہ ارشاد ہے : سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ ” انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا “ اور ارشاد ہے : یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ” ان کے سحر سے موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال میں یہ آنے لگا کہ یہ رسیوں کے سانپ دوڑ رہے ہیں “ اس میں یخیل کے لفظ سے یہ بتلادیا گیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنیں اور نہ انھوں نے کوئی حرکت کی بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوت متخیلہ متأثر ہو کر ان کو دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی۔ دوسری قسم اس طرح کی تخییل اور نظر بندی ہے جو بعض اوقات شیاطین کے اثر سے ہوتی ہو، جو قرآن کریم کے اس ارشاد سے معلوم ہوئی : بَلْ اُنَـبِّـئُـکُم عَلٰی مَن تَنَزَلَ الشَّیَاطِیْن تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ ” میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیطان اترتے ہیں ہر بہتان باندھنے والے گناہ گار پر اترتے ہیں۔ نیز دوسری جگہ ارشاد ہے : وَ لٰـکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ” یعنی شیاطین نے کفر اختیار کیا لوگوں کو جادو سکھانے لگے “۔ تیسری قسم یہ ہے کہ سحر کے ذریعے ایک شے کی حقیقت ہی بدل جائے، جیسے کسی انسان یا جاندار کو پتھر یا کوئی جانور بنادیں، امام راغب اصفہانی ابوبکر جصاص وغیرہ حضرات نے اس سے انکار کیا ہے کہ سحر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بدل جائے بلکہ سحر کا اثرصرف تخییل اور نظر بندی ہی تک ہوسکتا ہے، معتزلہ کا بھی یہی قول ہے، مگر جمہور علماء کی تحقیق یہ ہے کہ انقلابِ اعیان میں نہ کوئی عقلی امتناع ہے نہ شرعی، مثلاً کوئی جسم پتھر ہوجائے یا ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف منقلب ہوجائے اور فلاسفہ کا جو یہ قول مشہور ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں، ان کی مراد حقائق سے محال، ممکن، واجب کی حقیقتیں ہیں کہ ان میں انقلاب عقلاً ممکن نہیں کہ کوئی محال ممکن بن جائے یا کوئی ممکن محال بن جائے اور قرآن عزیز میں فرعونی ساحروں کے سحر کو جو تخییل قراردیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر سحر تخییل ہی ہو اس سے زائد اور کچھ نہ ہو اور بعض حضرات نے سحر کے ذریعہ انقلاب حقیقت کے جواز پر حضرت کعب احبار کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو مؤطا امام مالک میں بروایت قعقاع بن حکیم منقول ہے۔ لَولَا کَلِمَاتٌ اَقُولُھُن لَجَعَلَتْنِی الیَہُودُ حِمَارًا ” اگر یہ چند کلمات نہ ہوتے جن کو میں پابندی سے پڑھتا ہوں تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے َ “ گدھا بنادینے کا لفظ مجازی طور پر بیوقوف بنانے کے معنیٰ میں بھی ہوسکتا ہے، مگر بلاضرورت حقیقت کو چھوڑ کرمجاز مراد لینا صحیح نہیں، اس لیے حقیقی اور ظاہری مفہوم اس کا یہی ہے کہ اگر میں یہ کلمات روزانہ پابندی سے نہ پڑھتا تو یہودی جادوگر مجھے گدھا بنادیتے۔ اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ سحر کے ذریعے انسان کو گدھا بنادینے کا امکان ہے دوسرے یہ کہ جو کلمات وہ پڑھا کرتے تھے ان کی تاثیر یہ ہے کہ کوئی جادو اثر نہیں کرتا، حضرت کعب احبار سے جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ کلمات کیا تھے تو آپ نے یہ کلمات بتلائے : اَعُوذُ بِاللّٰہِ العَظِیمِ الَّذِی لَیسَ بِشَیئٍ اَعظَمُ مِنْہُ وَبِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ اللَّتِی لَایُجَاوِزُھُن بَرّولاَ فَاجِرٌوَ بِاَسمَائِ اللّٰہ الْحُسنٰی کُلِّھَا مَاعَلِمْتُ مِنْھَا وَمَالَم اَعلَم مِن شَرِّمَاخَلَقَ وَبرِئَ وَذَرَئَ اخرجہ فی الموٗطائَ باب التعوذ عند النوم (میں اللہ عظیم کی پناہ پکڑتا ہوں جس سے بڑا کوئی نہیں اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کی جن سے کوئی نیک وبدانسان آگے نہیں نکل سکتا اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ کی جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، ہر اس چیز کے شر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور جو بویا اور پھیلایا ہے ) خلاصہ یہ ہے کہ سحر کی یہ تینوں قسمیں ممکن الوقوع ہیں۔ جس طرح انبیائے کرام کے معجزات یا اولیاء کی کرامات سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو عادۃً نہیں ہوسکتے، اسی لیے ان کو خرق عادت کہا جاتا ہے۔ بظاہر سحر اور جادو سے بھی ایسے ہی آثار مشاہدے میں آتے ہیں، اس لیے بعض جاہلوں کو ان دونوں میں التباس بھی ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ جادوگروں کی تعظیم و تکریم کرنے لگتے ہیں، اس لیے دونوں کا فرق بیان کرنا ضروری ہے۔ سحر اور معجزے میں فرق سو یہ فرق ایک تو اصل حقیقت کے اعتبار سے ہے اور ایک ظاہری آثار کے اعتبار سے۔ حقیقت کا فرق تو یہ ہے کہ سحر اور جادو سے جو چیزیں مشاہدے میں آتی ہیں یہ دائرہ اسباب سے الگ کوئی چیز نہیں۔ فرق صرف اسباب کے ظہور وخفا کا ہے۔ جہاں اسباب ظاہر ہوتے ہیں وہ آثار ان اسباب کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں اور کوئی تعجب کی چیز نہیں سمجھی جاتی۔ لیکن جہاں اسباب مخفی ہوں تو وہ تعجب کی چیز ہوتی ہے اور عوام اسباب کے نہ جاننے کی وجہ سے اس کو خرق عادت سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ درحقیقت تمام عادی امو رکی طرح کسی جن شیطان کے اثر سے ہوتی ہے۔ ایک خط مشرق بعید سے آج کا لکھا ہوا اچانک سامنے آکر گرگیا، تو دیکھنے والے اس کو خرق عادت کہیں گے، حالانکہ جنات و شیاطین کو ایسے اعمال وافعال کی قوت دی گئی ہے، ان کا ذریعہ معلوم ہو تو پھر کوئی خرق عادت نہیں رہتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ سحر ظاہر ہونے والے تمام آثار اسباب طبیعہ کے ماتحت ہوتے ہیں، مگر اسباب کے مخفی ہونے کے سبب لوگوں کو مغالطہ خرق عادت کا ہوجاتا ہے۔ بخلافِ معجزہ کے کہ وہ بلاواسطہ فعل حق تعالیٰ کا ہوتا ہے، اس میں اسباب طبیعہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے نمرود کی آگ کو حق تعالیٰ نے فرمادیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈی ہوجا، مگر ٹھنڈک بھی اتنی نہ ہو جس سے تکلیف پہنچے بلکہ جس سے سلامتی حاصل ہو، اس حکم الہٰی سے آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ آج بھی بعض لوگ بدن پر کچھ دوائیں استعمال کرکے آگ کے اندر چلے جاتے ہیں۔ وہ معجزہ نہیں بلکہ دوائوں کا اثر ہے۔ دوائیں مخفی ہونے سے لوگوں کو دھوکا خرق عادت کا ہوجاتا ہے۔ یہ بات کہ معجزہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے، خود قرآن عزیز کی تصریح سے ثابت ہے۔ ارشاد فرمایا : وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ” کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی، درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے۔ “ مراد یہ ہے کہ ایک مٹھی خاک اور کنکر کی سارے مجمع کی آنکھوں تک پہنچ جانا اس میں آپ کے عمل کو کوئی دخل نہیں، یہ خالص حق تعالیٰ کا فعل ہے۔ معجزہ اور سحر کی حقیقتوں کا یہ فرق کہ معجزہ بلاواسطہ اسباب طبیعہ کے براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اور جادو اسباب طبیعہ مخفیہ کا اثرہوتا ہے۔ حقیقت سمجھنے کے لیے تو کافی وافی ہے۔ مگر یہاں ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ عوام الناس اس فرق کو کیسے پہچانیں، کیونکہ ظاہری صورت دونوں کی ایک سی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے پہچاننے کے لیے بھی حق تعالیٰ نے کئی فرق ظاہر کردیئے ہیں۔ اول یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے حضرات سے ظاہر ہوتی ہے جن کا تقویٰ طہارت و پاکیزگی اخلاق و اعمال کا سب مشاہدہ کرتے ہیں، اس کے برعکس جادو کا اثر صرف ایسے لوگوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو گندے، ناپاک، اللہ کے نام سے اور اس کی عبادت سے دوررہتے ہیں، یہ چیز ہر انسان آنکھوں سے دیکھ کر معجزہ اور سحر میں فرق پہچان سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ عادۃً اللہ یہ بھی جاری ہے کہ جو شخص معجزے کا دعویٰ کرکے کوئی دعویٰ کرنا چاہے اس کا جادو نہیں چلتا، ہاں معجزہ کے دعوے کے بغیر کرے تو چل جاتا ہے۔ کیا انبیاء پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے۔ وجہ وہی ہے جو اوپر بتلائی گئی کہ سحر درحقیقت اسباب طبعیہ ہی کا اثر ہوتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اسباب طبعیہ کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں، یہ تأثرشانِ نبوت کے خلاف نہیں، جیسے ان کا بھوک پیاس سے متاثر ہونا بیماری میں مبتلا ہونا اور شفاپانا، ظاہری اسباب سب جانتے ہیں، اسی طرح جادو کے باطنی اسباب سے بھی انبیاء (علیہم السلام) متاثر ہوسکتے ہیں اور یہ تأثر شان نبوت کے منافی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ پر یہودیوں کا سحر کرنا اور اس کی وجہ سے آپ پر بعض آثار کا ظاہر ہونا اور بذریعہ وحی اس جادو کا پتہ لگنا اور اس کا ازالہ کرنا احادیثِ صحیحہ میں ثابت ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سحر سے متاثر ہونا خود قرآن میں مذکور ہے۔ آیات یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی اور وَاَوْجَسَ فِی نَفسِہٖ خِیْفَۃً مُّوسٰی، اس پر شاہد ہیں۔
Top