Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ
: اور سکھائے
آدَمَ
: آدم
الْاَسْمَآءَ
: نام
كُلَّهَا
: سب چیزیں
ثُمَّ
: پھر
عَرَضَهُمْ
: انہیں سامنے کیا
عَلَى
: پر
الْمَلَائِکَةِ
: فرشتے
فَقَالَ
: پھر کہا
اَنْبِئُوْنِیْ
: مجھ کو بتلاؤ
بِاَسْمَآءِ
: نام
هٰٓؤُلَآءِ
: ان
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اور اس نے سکھادئیے آدم کو ساری چیزوں کے نام پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا مجھے بتلائو ان چیزوں کے نام اگر تم سچے ہو
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآئِ ھٰٓؤُلَائِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لاَعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیمُ الْحَکِیْمُ قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْج فَلَمَّآ اَنْبَاَھُمْ بِاَسْمَآئِھِمْ لا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ۔ (البقرۃ : 31 تا 33) (اور اس نے سکھادئیے آدم کو ساری چیزوں کے نام پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا مجھے بتلائو ان چیزوں کے نام اگر تم سچے ہو۔ انھوں نے عرض کیا کہ تو پاک ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے، بیشک تو ہی علم والا اور حکمت والا ہے۔ پھر اللہ نے آدم سے کہا تم انھیں ان چیزوں کے نام بتائو جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتادئیے تو اللہ نے فرمایا، میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں اس چیز کو جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو چھپاتے تھے) یہاں ایک دفعہ پھر ذہن میں سابقہ بحث کا خلاصہ مستحضر کرلیجئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جو انسانوں کے جد امجد ہیں۔ خلافتِ ارضی کے منصب پر فائز کرنا چاہتا ہے اور فرشتے یہ جان کر کہ خلافت بغیر اختیارات کے نہیں ہوتی اور یہ بھی دیکھ کر کہ آدم خواہشات اور آزادانہ ارادوں کا حامل بھی ہے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ زمین میں اس کی خلافت سے خوں ریزی ہوگی اور فساد برپا ہوگا۔ انھوں نے بات کو سمجھنے کے لیے بڑے ادب سے عرض کیا کہ پروردگار تیرے بندوں اور تیری مخلوق کی جانب سے جو بات ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تیری تسبیح و تقدیس ہوتی رہے اور تیری حمد کے ترانے گونجتے رہیں اور زمین کو تیری مرضی ِمبارک کے مطابق پاک وصاف رکھا جائے اور یہ سارے کام تیرے یہ عاجز بندے اپنے مقدور کے مطابق بجا لا رہے ہیں اور تیری مخلوقات میں سے کوئی مخلوق ایسی نہیں جو اپنی تسبیح اور اپنی نماز سے واقف نہ ہو۔ حتی کے درختوں کے پتے اور زمین پر مٹی کے ڈھیلے تک تیری تسبیح میں مشغول رہتے ہیں تو پھر اس نئی مخلوق کو پیدا کرنے اور اسے خلافت کا منصب عطا کرنے کی حکمت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں پروردگار نے آدم (علیہ السلام) کو علم الاشیا سے نوازا۔ اس علم کے لیے جو تعبیر اختیار کی گئی وہ یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو اشیا کے نام سکھائے، اس لحاظ سے دو چیزیں ہمارے پیش نظر ہیں ایک تو یہ کہ بنیادی بحث کو دیکھتے ہوئے یہ بات تو واضح ہے کہ آدم کو علم کی دولت دی گئی اور وہ علم وہ تھا جو خلافت ارضی کی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے ضروری تھا اور یقینا یہ علم ایسا تھا جس کے متحمل فرشتے نہیں ہوسکتے تھے اور دوسری یہ بات کہ اس علم کو اسماء کا علم قرار دیا گیا ہے۔ اس تعبیر میں کیا حقیقت پنہاں ہے ؟ علم الاشیاء کیا ہے ؟ سب سے پہلے پہلی بات کو لیجئے کہ خلافت کی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کون سا علم درکار تھا ؟ جسے آدم کو عطا کیا گیا ہے لیکن فرشتے اس کے متحمل نہ ہوسکے حالانکہ قرآن وسنت سے کہیں یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم کی تعلیم کے لیے آدم (علیہ السلام) کے لیے الگ کوئی انتظام کیا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ سکھانے کا عمل فرشتوں اور آدم کے لیے یکساں تھا۔ البتہ آدم اور فرشتوں کی صلاحیتوں اور حقائق کو اخذ کرنے کی صلاحیت میں چونکہ فرق تھا اس لیے آدم (علیہ السلام) نے اس تعلیم کو سمجھا اور اس کے مغز کو پالیا۔ لیکن فرشتے اسے اخذ نہ کرسکے۔ اس لیے جب دونوں کا امتحان لیا گیا تو فرشتے جواب نہ دے سکے اور آدم (علیہ السلام) نے ان کے سامنے ان تمام باتوں کو کھول کر بیان کردیا اور یا یہاں تعلیم سے مراد تعلیم کا عمل نہیں بلکہ تعلیم کی صلاحیت کی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو الگ الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ فرشتوں کو وہ صلاحیتیں دی گئی ہیں جو ان کی اپنی ذمہ داریوں کے مطابق ہیں اور آدم (علیہ السلام) کو وہ صلاحیت عطا کی گئی ہے جو خلافت ارضی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اصل سوال اپنی جگہ ہے کہ وہ علم کیا تھا ؟ تھوڑے سے تدبر سے کام لیں تو اس علم کی دو جہتیں معلوم ہوتی ہیں۔ علم کی ایک جہت وہ ہے، جس کا تعلق انسان کی ذات اور اس کے اندرونی احساسات سے ہے اور علم کی دوسری جہت وہ ہے، جس کا تعلق انسانی ضروریات اور اس کے متعلقات سے ہے۔ جہاں تک علم کی پہلی جہت کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو اللہ نے خیر و شر میں امتیاز کرنے کا شعور بخشا ہے وہ اگر نفسیاتی علائق اور بیرونی دبائو سے آزاد ہو کر غور وفکر سے کام لے تو بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کرسکتا ہے۔ حق کیا ہے ؟ باطل کیا ہے ؟ صحیح کیا ہے ؟ غلط کیا ہے ؟ حسن کیا ہے ؟ اور قبح کیا ہے ؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر خواہشات بھی پیدا کی گئی ہیں۔ محبت اور نفرت کے جذبات بھی ہیں، قوت واہمہ بھی ہے، عقل جیسا جوہر بھی عطا کیا گیا ہے، لیکن اس کے ساتھ نارسائی کا ایک لاحقہ بھی ہے حواس کی دولت بھی دی گئی ہے۔ لیکن وہ غلطیوں سے اور حدود سے ماورا ہرگز نہیں۔ مزید یہ کہ اس کے اندر مفادات کی ہوس اور حرص بھی ہے۔ یہ تمام موانع ایسے ہیں، جو اس کے شعور کو بعض دفعہ مغلوب کرلیتے ہیں۔ پھر اس کے لیے صحیح فیصلے پر پہنچنا آسان نہیں رہتا اور یہی وہ امتحان اور آزمائش ہے جو اسے باقی مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے۔ اس لیے ایک علم تو ایسا ہونا چاہیے جو اسے یہ بات سکھائے کہ خیرو شر کے امتیاز کے شعورکو کس طرح ان موانع سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو انسان کے اندر پید اہوجائے تو یہ تمام جذبات اور خواہشات زور دار ہونے کے باوجود بھی اس پر قابو نہیں پاسکتیں ؟ اور وہ کیا چیز ہے جو جب انسان کے اندر سے نکل جائے تو انسان انسانیت کی سطح سے گر کر بعض دفعہ حیوانی سطح سے بھی گرجاتا ہے ؟ انسان چونکہ خلیفۃ اللہ بناکر بھیجا جارہا ہے اس لیے اسے ایک ایسے علم کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنے اس آقا کی معرفت حاصل کرسکے جس کا وہ خلیفہ ہے اور اس کے اندر ایک زور دار جذبہ ابھرے تو اس کی زندگی کا حقیقی مقصد اپنے آقا کی معرفت اس کے قرب کی خواہش اور بالآخراسی سے وصل اس کی زندگی کا ہدف بن جائے۔ درحقیقت یہی وہ علم ہے جس کو قرآن کریم نے (العلم) سے تعبیر کیا ہے۔ یہی وہ علم ہے جس تک رسائی انسان کی براہ راست نہیں ہوتی اسی علم کو لے کر اللہ کی کتابیں اترتی ہیں اور اللہ کے نبی مبعوث کیے جاتے ہیں۔ علم الاشیاء کو علم الاسماء سے کیوں تعبیر کیا گیا ؟ دوسرا علم جس کی انسان کو ضرورت ہے اس کا تعلق انسان کی ضروریات سے بھی ہے اور اللہ کی ان مخلوقات کے ساتھ بھی جن سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور اس کائنات کے ساتھ بھی جس میں انسان مکین ہے۔ پھر اس علم کی بھی دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ تو یہ ہے کہ مجھے اشیائے ضرورت کس طرح اور کون سی حاصل کرنی ہیں ؟ کن سے تمتع کرنا ہے اور کن سے پرہیز کرنا ہے ؟ یعنی کون سی چیزیں میرے لیے حلال ہیں اور کون سی حرام ؟ کون سی جائز ہیں اور کون سی ناجائز ؟ علم کی اس شاخ کا تعلق بھی پہلے علم سے ہے اور یہ بھی وحی الہٰی کی رہنمائی کی محتاج ہے۔ اس علم کی دوسری شاخ یہ ہے کہ انسان کو زمین پر بھیجا جارہا ہے تو اس کے اندر قوت تسخیر جذبہ تسخیر، قوت عمل، ایجاد واختراع کا جذبہ بھی پیدا کیا جارہا ہے اور اس کے لیے اس کی فطرت اور عقل میں ضروری حد تک رہنمائی رکھ دی گئی ہے۔ اسے بتادیا گیا ہے کہ زمین تیرے لیے ہے، اس کا گردوپیش تیرا ہے، یہ آسمانوں کی وسعتیں بھی تیری ہیں۔ زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کو نکالنا، زمین کی قوت روئیدگی سے کام لینا، زمین اور فضائے آسمانی کی قوتوں کو مسخر کرکے ان سے خدمت لینا، یہ تیرا حق ہے۔ تمہارا اصل ہدف تو اللہ کی رضا کا حصول ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ محنت اور ذوق تسخیر سے کام لینا، یہ بھی تم پر لازم ہے۔ جو چیزیں انسانی ضرورت کا درجہ رکھتی ہیں، ان کے لیے علم وہنر پیدا کرنا، ایجاد واختراع سے کام لینایہ فرضِ کفایہ ہے۔ اور مخالفتیں طاقت پکڑ لیں، تو ان سے دفاع کے لیے یا انھیں زیر کرنے لیے قوت کا فراہم کرنا، یہ کبھی فرضِ عین ہے اور کبھی فرضِ کفایہ ہے۔ مختصر یہ کہ یہ علم کی وسیع دنیا ہے جس کا تعلق آدم اور انسان سے ہے۔ لیکن فرشتوں کی زندگی میں ان باتوں کا کوئی دخل نہیں۔ اس لیے پروردگار نے جب اس علم کی بنیادی باتوں سے حضرت آدم کو آگاہ کیا اور یہ بنیادی احساسات، جبلت، فطرت اور جذبات کی شکل میں اس کے اندر رکھ دئے گئے اور اسے ان تمام سے شناسا بنایا گیا اور پھر اس سے پوچھا گیا کہ تم اس علم کی تفصیل بیان کرو تو اس نے بڑے آسانی سے ان چیزوں کو بیان کردیا لیکن فرشتے چونکہ ان احساسات سے اور ان صلاحیتوں سے بےنیاز رکھے گئے ہیں۔ انھیں علم وہ دیا گیا ہے جن کا تعلق ان کی ملکوتی زندگی سے ہے اور اگر انھیں زمینی معاملات کی کوئی خدمت بخشی بھی گئی ہے تو صرف ان کی ذمہ داری کی حد تک اس کا علم دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے اندر وہ جامعیت نہیں رکھی گئی جو انسان میں ہے۔ دوسرا معاملہ تعبیر کا ہے کہ قرآن کریم نے علم الاشیاء کو یا علم کو علم الاسماء کا نام دیا ہے کہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھائے۔ اس سے مراد کیا ہے ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ انسان کے علم کی پہلے بھی یہی صورت رہی ہے اور آج بھی یہی ہے کہ وہ ہر چیز کا علم نام کے ذریعے سے اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ زندگی کے کسی شعبے، کائنات کی کسی چیز، انسانی رویوں میں سے کوئی رویہ، علمی اور فکری دریافتوں میں سے کسی دریافت کے بارے میں ہم جاننا چاہیں تو ہم ہمیشہ اسما سے مدد لیتے ہیں اور اسم ہی سے اس کا آغاز کرتے ہیں۔ سائنس اور آرٹ یہ علم کی دو الگ الگ شاخیں ہیں۔ اور ہم ان دونوں کو دوناموں سے جانتے ہیں پھر آگے ان دونوں کے تفصیلی اور ذیلی اسما ہیں اور ان کے الگ الگ شعبے ہیں۔ ان سب کو ہم ان کے ناموں سے پہچانتے ہیں حتی کہ انسانوں کی، شہروں کی اور استعمال میں آنے والی چیزوں کی شناخت صرف اسماء سے ہوتی ہے۔ آپ کسی سے علم کے کسی گوشے کے بارے میں، کسی حقیقت کے بارے میں، کسی فرد کے بارے میں، کسی تاریخی حادثے کے بارے میں، علیٰ ہذالقیاس ایسی ہی کسی چیز کے بارے میں جاننا چاہیں تو فوراً آپ اس کا نام یا عنوان معلوم کرتے ہیں اور اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرلیتے ہیں۔ یہی حقیقت ہے، جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو بیشمار علوم کے نام بتادیئے گئے اور یا یہ ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا کردی گئی کہ وہ خود ایک حقیقت کا نام رکھے اور پھر اس کی تفصیلات جاننے کے لیے تحقیق اور تجسس سے کام لے۔ بعض اہل علم نے اس کے بعض دوسرے مفاہیم بھی بیان کیے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ فرشتوں کو یہ گمان تھا کہ اولادِ آدم زمین میں خوں ریزی کا باعث بنے گی۔ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اولادِ آدم کا مشاہدہ کرایا جن، میں انبیا اور رسل، مجددین اور مصلحین اور شہداء اور صدیقین بھی پیدا ہونے والے تھے۔ ان کو دکھا کر یہ بتایا کہ اگر اولادِ آدم کے اندر ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے جو اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات کو بےجا طور پر استعمال کریں گے، تو ساتھ ہی ان کے اندر ایسے لوگ بھی اٹھیں گے جو خود بھی اس ذمہ داری کا حق ادا کریں گے اور دوسروں کو بھی ان ذمہ دارویوں سے آگاہ کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادیں گے۔ مختصر یہ کہ اللہ نے آدم کو علم کی دولت عطا فرماکر فرشتوں پر یہ واضح کردیا کہ تمہیں یہ جو شبہ ہے یہ مخلوق زمین پر جاکر فساد پھیلائے گی، یہ صحیح نہیں کیونکہ ہم آدم کو صرف اختیارات ہی نہیں دے کر بھیج رہے اسے علم بھی دے رہے ہیں۔ علم ان کو غلط کام کرنے سے روکے گا، ان کے اندر ایک ایسا شعور پیدا کرے گا، جس سے ان میں خیرغالب آجائے گا اور شر مغلوب ہوجائے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان کا علم انھیں اس انجام سے بھی آگاہ کرتا رہے گا جو غلط کام کرنے کے نتیجے میں بالآخر انھیں بھگتنا پڑے گا۔ سُبْحَان … کلمہ تنزیہ فرشتے جب اس بات سے آگاہ ہوگئے تو وہ پکار اٹھے سُبْحٰنَـکَ لاَعِلْمَ لَنَآ اِلَّامَاعَلَّمْتَـنَا ” یا اللہ تو پاک ہے “ یہ کلمہ تنزیہ ہے جو نامناسب اور خلاف شان باتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم میں جابجا اس کا استعمال ہوا ہے اور یہاں فرشتے اس کلمہ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پروردگار تیری شان اس سے ارفع اور بلند ہے کہ تیرے ہاتھوں کوئی ایسا کام ہو جو تیری حکمت اور مصلحت سے خالی ہو۔ ہم نے جس شبہ کا اظہار کیا ہے، وہ محض ہمارے علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ہمارے پاس تو صرفاتنا ہی علم ہے جتنا تو نے بخشا ہے۔ علم اور حکمت کا اصلی خزانہ تو تیرے ہی پاس ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو علم کا خزانہ عطا فرمایا تھا ان کو اسماء کی صورت میں فرشتوں کے سامنے جب پیش کیا تو وہ پہلے ہی اپنے عجز کا اعتراف کرچکے تھے اب ان کی عاجزی اور سرفکندگی میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد پروردگار نے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں، جن میں خطاب اگرچہ فرشتوں سے ہے لیکن مقصود انسانوں کو سمجھانا ہے۔ ایک تو وہ بات جو پہلے اختصار سے فرمائی تھی اب اسے وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ کے ہر فیصلے کے بارے میں یہ بات ہر وقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس کارخانہ کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی ساری حکمتیں اور مصلحتیں صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں۔ فرشتے باوجود اللہ کے قرب کے ان حکمتوں اور مصلحتوں کو نہیں جانتے۔ اس لیے جب اس کارخانہ قدرت میں اللہ کے کسی فیصلے کی حکمت سمجھ میں نہ آتی ہو تو اسے ہمیشہ اپنے علم کی کمی پر محمول کرنا چاہیے اس کے بارے میں کبھی بھی طبیعت میں شک وشبہ کو پید انھیں ہونے دینا چاہیے کیونکہ اللہ کا کوئی کام بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں۔ لیکن اس کے سارے کاموں کی حکمتوں اور مصلحت کو جاننا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ دوسری بات فرشتوں سے یہ فرمائی وَاَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ” میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپا رہے ہو “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے سوال کو بھی سمجھتا تھا اور اس کی اصل وجہ کو بھی جانتا تھا، جس سے یہ سوال پیدا ہوا تھا۔ وہ وجہ یہ تھی کہ تم آدم کی خلافت کی اسکیم کے مضمرات سے بیخبر تھے۔ تم چاہتے تھے کہ وہ تم پر ظاہر کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے تم نے اس اسکیم کے برے پہلوئوں کی طرف جو واضح طور پر تمہیں نظر آئے بشکل سوال اشارہ کیا تاکہ تم پر اس کے وہ پہلو کھولے جائیں جو خیر کے ہیں۔ چناچہ علم الاسماء کے حوالے سے وہ پہلو تم پر کھول دئیے گئے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر اپنے ایک احسان کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ تمہارے سوال کے ظاہر و باطن دونوں کا جواب تمہیں دے دیا گیا ہے اس میں فرشتوں کے لیے کسی ملامت کا کوئی پہلو نہیں۔
Top