Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ
وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا الرَّحْمٰنُ : اللہ وَلَدًا : ایک بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ عِبَادٌ : بندے مُّكْرَمُوْنَ : معزز
اور وہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے (اپنے لیے) اولاد بنا لی ہے، وہ ان باتوں سے پاک ہے بلکہ وہ خدا کے مقرب بندے ہیں۔
وَقَالُوْا اتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَـہٗ ط بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ۔ لاَ یَسْبِقُوْنَـہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ۔ (الانبیاء : 26، 27) (اور وہ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے (اپنے لیے) اولاد بنا لی ہے، وہ ان باتوں سے پاک ہے بلکہ وہ خدا کے مقرب بندے ہیں۔ اس سے بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کے دربار میں فرشتوں کی حیثیت سابقہ آیات میں پروردگار نے عقلی اور نقلی دلائل سے یہ بات ثابت کردی کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات اور حقوق میں واحد اور یکتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔ لیکن تعجب ہے بعض قوموں پر کہ اس قدر واضح اور عقلاً اور نقلاً مسلمہ حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کی۔ ولد کا معنی عام طور پر بیٹا کیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ولد کا لفظ مذکر، مونث اور واحد اور جمع سب پر بولا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ اولاد کیا ہے کیونکہ یہود نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا تھا اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا لیا اور مشرکینِ عرب نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھا۔ کوئی شخص ایسا کم عقل نہیں ہوتا کہ جو بیٹے کو باپ کے برابر قرار دے دے۔ اس لیے ان مشرک قوموں نے بھی درحقیقت بیٹوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہوئے اس سے برابری کا عقیدہ قائم نہیں کیا۔ البتہ ! اس کی بعض صفات میں شریک بنا کر ان کی بندگی کی اور یہ امید باندھ لی کہ باپ کو چونکہ اپنی اولاد بےحد عزیز ہوتی ہے اور بیٹیاں تو پرایا دھن ہونے کی وجہ سے عموماً زیادہ شفقت کے قابل سمجھی جاتی ہیں۔ اس لیے ان سے امید کی جاسکتی ہے کہ قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہوا تو یہ ضرور اپنے باپ کو ہمارے حق میں راضی کرلے گی۔ اگر اس کا غضب بھڑکے گا تو یہ اس کی محبت کا واسطہ دے کر غضب کو رحمت میں تبدیل کرالے گی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہاں ولد سے فرشتے مراد ہوں کیونکہ عرب ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں، ہم اگر یہاں انھیں خوش رکھیں گے تو وہ دنیا میں بھی ہمارے لیے رزق میں افزائش کا باعث بنیں گی اور قیامت کے دن اپنے باپ سے ضد کرکے بھی ہمیں بخشوا لیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہو۔ مخلوق کو اولاد کی خواہش اس لیے ہوتی ہے کہ ہر مخلوق پر کبھی نہ کبھی بڑھاپا آتا ہے اور کبھی نہ کبھی اسے دوسری احتیاجات لاحق ہوتی ہیں۔ بڑھاپے اور احتیاج کے وقت اسے شدید ضرورت ہوتی ہے کہ کاش اس کی اولاد ہوتی جو اس بڑھاپے اور احتیاج میں اسے سنبھالا دیتی۔ اللہ تعالیٰ حیی اور قیوم ہے۔ اسے نہ بڑھاپا آئے گا اور نہ کبھی کوئی احتیاج لاحق ہوگی تو اسے اولاد بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ تم نے جنھیں اللہ تعالیٰ کی اولاد بنا رکھا ہے وہ اولاد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے معزز اور مقرب بندے ہیں۔ یعنی وہ بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجز اور اس کی بندگی بجا لانے پر مجبور ہیں جس طرح تم ہو۔ البتہ تم میں اور ان میں فرق یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور معزز ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں انھیں کرامت و شرافت کا مقام میسر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام تر قرب کے باوجود ان کی حالت یہ ہے کہ کبھی وہ بات کرنے میں پہل نہیں کرتے۔ جب ان سے کوئی بات پوچھی جاتی ہے تو حدِادب میں اس کا جواب دیتے ہیں۔ کسی معاملے میں ان کی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ وہ ہر وہ خدمت بجا لاتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے لرزاں و ترساں سرتاپا ادب کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہاری ہر طرح کی سرکشی اور تمرد کے باوجود تمہاری بندگی کی وجہ سے وہ ضد کرکے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل کرالیں گے۔ وہ تمہارے کرتوتوں کے باعث تمہیں سزا دینا چاہے گا اور فرشتے اپنے زور و اثر یا نازوتذلل سے اللہ تعالیٰ کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیں گے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر طرح کے قرب کے باوجود وہ کبھی پروردگار سے کسی بات میں پہل کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور اگر پروردگار کی جانب سے کوئی بات پوچھی جاتی ہے تو نہایت ادب اور عاجزی سے وہ جواب دینے کی جسارت کرتے ہیں۔ اپنی مرضی سے کسی کام کو سرانجام دینا ان کی سرشت اور فطرت کے خلاف ہے۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جس بات کا انھیں حکم دیا جائے وہ اس کی تعمیل کریں۔
Top