Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 41
وَ لَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۠   ۧ
وَ : اور لَقَدِ اسْتُهْزِئَ : البتہ مذاق اڑائی گئی بِرُسُلٍ : رسولوں کی مِّنْ قَبْلِكَ : آپ سے پہلے فَحَاقَ : آگھیرا (پکڑ لیا) بِالَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے سَخِرُوْا : مذاق اڑایا مِنْهُمْ : ان میں سے مَّا : جو كَانُوْا : تھے بِهٖ : اس کے ساتھ (کا) يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے تھے
اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جن لوگوں نے ان میں سے مذاق اڑایا ان کو اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔
وَلَقَدِاسْتُھْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَخَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ (الانبیاء : 41) (اور آپ سے پہلے بھی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو جن لوگوں نے ان میں سے مذاق اڑایا ان کو اس چیز نے گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مذاق اڑانے والوں کو تنبیہ بھی کی گئی ہے۔ تسلی کا مضمون یہ ہے کہ اے پیغمبر ! آپ ان بدبختوں کی زبان درازیوں سے بدمزہ نہ ہوں۔ تبلیغ و دعوت کے راستے کی کچھ سنتیں ہیں جن میں ایک سنت یہ ہے کہ جس نے بھی انسانوں کی ہدایت اور اللہ تعالیٰ کا دین پہنچانے کے لیے تبلیغ و دعوت اور اصلاح کا کام کیا ہے اس کی قوم نے کبھی آرام سے اس دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ مدتوں تک اس نے اس دعوت کے راستے میں نہ صرف روڑے اٹکائے بلکہ داعی الی الحق کے لیے جینا دوبھر کردیا۔ ہر طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں، زبان درازیوں سے دل زخمی کیے گئے اور دنیا کا کوئی دکھ ایسا نہیں جو اس راستے پر چلنے والوں نے برداشت نہیں کیا۔ پہلے آنے والے رسول بھی آپ ہی کی طرح خون جگر پی پی کر قوم کی ہدایت کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے بھی آپ ہی کی طرح قوم کی ایذارسانیوں کے جواب میں ہمیشہ ہمدردی و خیرخواہی کا ثبوت دیا۔ ان کی گالیاں سن کر دعائیں دیتے رہے، لیکن ان کی قوموں نے ان کی خیرخواہی اور ہمدردی کا جواب ہمیشہ بدخواہی اور دشمنی سے دیا۔ آپ ﷺ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے یہ تاریخ کا تسلسل ہے۔ یہی کچھ ہوتا آیا ہے اور یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ ؎ زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے آپ کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ یہ صورتحال ہمیشہ نہیں رہے گی ہر مشکل کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ ہر رات کے بعد سحر طلوع ہوتی ہے۔ آپ کی مساعیِ جمیلہ کی سحر بھی طلوع ہونے والی ہے اور اس میں کچھ زیادہ دیر نہیں۔ مشرکین سے یہ کہا جارہا ہے کہ جس طرح یہ ایک تاریخی روایت ہے کہ ہر پیغمبر کی قوم نے اسے ستایا اور اس کی مخالفت کی انتہا کردی۔ اسی طرح یہ بھی تاریخی روایت ہے کہ جب وہ قوم اپنی مخالفت اور اپنے انکار میں بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ وہ پیغمبر کی جان لینے کے منصوبے باندھنے لگی تو تب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور وہ لوگ جو عذاب کا تمسخر اڑایا کرتے تھے ان میں سے ایک ایک شخص اس عذاب کی نذر ہوا اور اپنے انجام کو پہنچا۔ مکہ کے لوگو ! تم بھی اسی تاریخ کا حصہ ہو۔ اگر تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اللہ تعالیٰ کی یہ سنت حرکت میں آئے گی اور تم میں سے ایک ایک تمسخر کرنے والا اپنے انجام کو پہنچے گا۔
Top