Ashraf-ul-Hawashi - Al-Muminoon : 5
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِفُرُوْجِهِمْ : اپنی شرمگاہوں کی حٰفِظُوْنَ : حفاطت کرنے والے
وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ ۔ (المومنون : 5) (وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ ) اہلِ ایمان کی ایک اور صفت اصحابِ ایمان کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ یعنی جسم کے وہ حصے جنھیں چھپانا ضروری ہے۔ انھیں کھولنے اور عریاں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ نہ وہ دوسروں کے ستر پر نگاہ ڈالتے ہیں اور نہ اسے برداشت کرتے ہیں کہ کوئی ان کے ستر پر نگاہ ڈالے۔ آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : ” کوئی شخص مجھے عریاں حالت میں دیکھے یعنی اس کی نظر میرے ستر پر پڑے اس سے بہتر ہے کہ مجھے آسمانوں سے گرادیا جائے اور میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں “۔ اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مرد کا ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے اور عورت کاستر ہاتھ پائوں اور چہرے کے علاوہ سارا جسم ہے۔ اب اس کی شکایت کس سے کی جائے کہ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کی بیٹیاں مختلف کھیلوں میں شریک ہو کر ٹیوی پر اپنے جسموں کی نمائش کرتی ہیں اور ڈراموں اور کمرشل میں کام کرنے والی بہو بیٹیاں اپنے نازوانداز، اپنے جسم کے مختلف زاویوں اور اپنی ادائوں سے دنیا کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہم کر سٹن کیلر کی امت سے تعلق رکھتی ہیں، ہمار افاطمہ اور عائشہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر تو بعض دفعہ بےساختہ کہنے کو جی چاہتا ہے : بانجھ ہوجائیں زمینیں لڑکیاں پیدا نہ ہوں اے خدا شہنازگل سی بیٹیاں پیدا نہ ہوں پھول پیدا ہوں مگر شاخوں کی آرائش رہیں لڑکیاں پیدا ہوں لیکن تتلیاں پیدا نہ ہوں اور جہاں تک مردوں کا تعلق ہے انھوں نے فری سٹائل کشتیوں، کبڈی اور بعض دوسری کھیلوں سے امتیاز ہی ختم کرڈالا ہے کہ مرد کا بھی کوئی ستر ہوتا ہے۔ دوسرا مفہوم اس آیت کا یہ ہے کہ وہ اپنی عصمت وعفت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے۔ شہوانی خواہشات کو کنڑول میں رکھتے ہیں اس کے استعمال میں بےلگام نہیں ہوتے۔ وہ ان کو صرف وہیں آزادی دیتے ہیں جہاں اس کا حق ان کو حاصل ہے۔
Top