Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 107
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ
اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے رَسُوْلٌ : رسول اَمِيْنٌ : امانت دار
بیشک میں تمہارے لیے ایک رسول امین ہوں
اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَا تَّـقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنَ ۔ (الشعرآء : 107، 108) (بیشک میں تمہارے لیے ایک رسول امین ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ) رسولِ امین کا مطلب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا لازمی نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی وہ راستہ تلاش کرے جس پر چل کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچا جاسکتا ہے۔ اسی لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرانے کے بعد فوراً اس راستے کی خبر دی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنا چاہتے ہو اور اس کی ناراضگی کا خطرہ نہیں مول لینا چاہتے تو پھر میں تمہیں اس راستے کی خبر دیتا ہوں جس پر چل کر تم عافیت کو پہنچ سکتے ہو، وہ راستہ میں ہوں۔ کیونکہ میں تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک واسطہ ہوں۔ اس کی وحی مجھ پر اترتی ہے اور میں تم تک پہنچاتا ہوں۔ میں کوئی جھوٹا اور مفتری مدعی نہیں ہوں کہ تم مجھ پر اعتماد نہ کرسکو۔ میں ایک رسول امین ہوں۔ یعنی میں ایک ایسا رسول ہوں جسے تم پہلے سے ایک امین اور راست باز آدمی کی حیثیت سے جانتے ہو۔ میرا بچپن، میرا لڑکپن، میرا عنفوانِ شباب اور میری عمر کے تمام مراحل تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ تم میرے خاندان تک سے واقف ہو۔ میرے تمہارے ساتھ قرابت کے رشتے ہیں، میری زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تمہارے سامنے ہے، تم کسی حوالے اور کسی پہلو سے جانچ پرکھ کر دیکھو، تمہیں کہیں بھی خیانت یا بےاعتمادی کا کوئی چھینٹا نظر آتا ہے ؟ تمہارا پورا معاشرہ گناہوں کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن میں نے تم میں اس طرح زندگی گزاری ہے جیسے پتھروں کے ڈھیر میں ہیرا چمکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر میری صداقت و امانت کی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ ایک رسول امین کے آجانے کے بعد بیخبر ی کا عذر ختم ہوگیا۔ اور تمام ان قوتوں کو چھوڑ کر جن کے ساتھ تم نے اطاعت کا رشتہ باندھ رکھا ہے صرف میری اطاعت کرو۔ اور جو احکام میں تمہیں دیتا ہوں ان کے آگے سرتسلیم خم کرو۔
Top