Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا
کَذَّبَتْ ثَمُوْدُالْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ صٰلِحٌ اَلاَ تَـتَّـقُوْنَ ۔ اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ۔ فَاتَّـقُواللّٰہَ وَاَطِیْعُـوْنِ ۔ وَمَـآ اَسْئَلُـکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍا ج اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا، کیا تم ڈرتے نہیں۔ میں تمہارے لیے اللہ کا ایک امانتدار رسول ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو بس اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ ) حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کی سرگزشت اب قوم ثمود کا ذکر ہورہا ہے۔ قرآن کریم کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد کے بعد جس قوم کو عروج عطا ہوا وہ یہی قوم تھی۔ لیکن اس قوم نے بھی اپنے انبیاء کی دعوت کے ساتھ وہی کچھ کیا جو پہلی قومیں کرچکی تھیں۔ ان کی تمدنی ترقی نے بھی بالآخر وہی شکل اختیار کی جو عاد کی ترقی نے کی تھی۔ یعنی ان کا معیارِ زندگی بلند سے بلند تر ہوتا گیا اور میعارِ انسانیت روز بروز گرتا گیا۔ جس طرح قوم عاد نے مادی زندگی کو اپنا ہدف بنا کر تکلف اور تعیش کی زندگی اختیار کی اور پھر بڑھتے بڑھتے عالی شان محلات زندگی کی ضرورت بن گئے اور دوام کی خواہش نے ہر بلند جگہ پر بلند وبالا عمارتیں بنا کر ہمیشہ کی یادگاروں کا سامان کیا۔ ان کے عقیدے کی تباہی جس نے ان کے اخلاق اور اعمال کو ابتری کے راستے پر ڈالا اور ساتھ ہی ساتھ مادی زندگی کی بےپناہ محبت نے تہذیب و تمدن کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ان کی طرف مبعوث ہونے والے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) نے بار بار انھیں انذار کیا، اور اپنی سابقہ زندگی سے استشہاد کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک رسول امین کی حیثیت سے پیش کیا۔ اور انھوں نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ سے رشتہ توڑ کر اور دنیا دار اور خواہش پرست لیڈروں کی پیروی نے چونکہ تمہیں ہلاکت کے راستے پر ڈال دیا ہے، ان کی پیروی چھوڑو اور میری اطاعت کرو، کیونکہ میرے پاس وہ علم ہے اور مجھ پر وہ رہنمائی اترتی ہے جو تمہارے ہر طرح کے بگاڑ کا علاج کرسکتی ہے۔ اور انھیں مزید توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح میری زندگی کا ایک ایک عمل اعتماد دلانے والا ہے، اسی طرح میری بےغرض دعوت اور ہمدردی اور خیرخواہی پر مشتمل تبلیغ تمہارے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ تمہیں اپنے معاشرے میں ایک شخص بھی بےغرض نظر نہیں آئے گا، لیکن میں کس قدر بےغر ضی اور ہمدردی و خیرخواہی سے شب و روز تمہاری اصلاح کے لیے کوشاں ہوں۔ کیا تمہیں اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ میرے پیش نظر تمہاری دنیا و عاقبت کے سنوارنے کے سوا اور کچھ نہیں، اس لیے تمہیں اپنی بھلائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور میری اطاعت کرنی چاہیے۔
Top