Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 219
وَ تَقَلُّبَكَ فِی السّٰجِدِیْنَ
وَتَقَلُّبَكَ : اور تمہارا پھرنا فِي : میں السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے (نمازی)
اور (سجدہ گزار لوگوں) نمازیوں کے درمیان جب آپ پھرتے ہیں
سجدوں میں تیرا اس طرح پلٹنا وہ اچھی طرح دیکھ رہا ہے : 219۔ زیر نظر آیت کے مضمون میں ہمارے مفسرین نے اتنی بحثیں اٹھائی ہیں کہ ان سب کو اس جگہ جمع کیا جائے تو کم از کم دو سو صفھات کا ایک مقالہ یہاں تحریر کیا جائے اور پھر ان کا تجزیہ کیا جائے تو وہ اتنا مزید بڑھ جائے لیکن ہم اس ساری بحث کو انہیں پر چھوڑتے ہوئے قارئین سے گزارش کریں گے کہ اگر اس کی وضاحت چاہتے ہیں تو دوسری اردو تفاسیر کی طرف رجوع کریں ۔ ہمارا مؤقف تو یہ ہے کہ یہ سورت مکی ہے اور لاریب نماز ابھی باقاعدہ جماعت کے ساتھ پانچ وقت مقرر نہ کی گئی تھی اگرچہ مکہ میں خود نبی اعظم وآخر ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین انفرادی طور پر نماز ادا کرتے تھے خواہ اس کی کچھ بھی صورت تھی اور خصوصا رات کے وقت جب ہر طرف سے آدمی سناٹے میں ہوتا ہے اور رات کی شائیں شائیں میں جب وہ اپنے اللہ رب ذوالجلال والاکرام سے کوئی گزارش کرتا ہے بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کی یہ حالت بہت پذیرائی کی نظر سے دیکھی جاتی ہے ، آپ خود شب خیزی کے لئے اٹھتے تھے اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی لیکن اس وقت تکنہ کوئی مسجد تھی اور نہ ہی کہیں باقاعدہ نمازیں ادا کرنے کے لئے کوئی جگہ مختص تھی ۔ یہ نماز کی انفرادی صورت تھی اور گزشتہ آیت میں جس طرح آپ ﷺ کی نماز کا ذکر کیا گیا جو نہایت ہی عاجزی اور تذلل کی آخری حالت ہے اور پھر جب یہ حالت بار بار اور بےاختیار حالت میں ہو کیا ہی اس کی خوبی ہوگی اور آپ ﷺ کی اس خوبی کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے اور آپ ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ تیرا اس طرح نماز کے اندر قیام ‘ رکوع و سجود وقعود کی طرف بار بار منتقل ہونا اور سجدے کے بعد سجدے میں گرنا ہم دیکھ رہے ہیں اور تیری ان والہانہ حرکتوں کو ہمارے ہاں نہایت قدر کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور تیری یہ حرکات و سکنات یقینا رنگ لائیں گی ۔ گویا اس آیت میں آپ ﷺ کی انفرادی نماز تہجد جس کو قیام اللیل بھی کہا گیا ہے کا ذکر ہے کہ وہ کہاں کہاں اور کس کس حالت میں آپ کیسے کیسے ادا کر رہے ہیں ، یہ خواہ مخواہ کی تکلیف مالا یطاق ہے اور پھر خصوصا راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس طرح دوسروں کے گھروں میں جانا اور ان کو دیکھنا خواہ کتنی ہی دلجمعی سے ہو اور پیار و محبت کی بنا پر ہو لیکن قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق یہ کسی حال بھی صحیح اور درست معلوم نہیں ہوتا نہ معلوم ہمارے مفسرین نے یہ بحثیں کیوں شروع کردیں ۔ (تقلب) قلب سے ہے جس کے معنی ایک چیز کا ایک طرف سے دوسری طرف پھرنا ہے اور تقلب کے معنی تصرف کے ہیں (غ) اس جگہ نماز کے اندر ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونا مراد ہے اور ہر ایک حرکت دوسری حرکت سے ایک والہانہ صورت رکھتی ہے اور سجدہ ان ساری صورتوں میں نہایت ہی عبودیت کی نشانی ہے اور ارکان نماز میں سے اس رکن کو ایک حد تک فوقیت حاصل ہے جو اس کی کیفیت ہی سے واضح ہوجاتی ہے اس لئے رکن کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے ، اوپر تین آیتوں کے مضمون کو ہمارے مترجمین نے اس طرح ترجمہ میں جمع کیا ہے کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ بھروسہ رکھئے اس (اللہ) پر جو بڑے غلبہ والا اور بہت رحم کرنے والا ہے ، جو آپ کو دیکھتا ہے جب آپ ﷺ اٹھتے ہیں اور نمازیوں کے درمیان جب آپ ﷺ پھرتے ہیں ۔ “ لیکن ہم اس کو اس طرح سمجھتے ہیں کہ اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آپ ﷺ بھروسہ رکھئے اس اللہ پر جو بہت ہی مہربان ہی پیار کرنے والا ہے وہ (اللہ) آپ ﷺ کو دیکھتا ہے جب آپ ﷺ اٹھتے ہیں اور نماز کے اندر (جس طرح آپ ﷺ سجدہ پر سجدہ کرتے ہیں “ یا ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف پھرتے ہیں اور بلاشبہ یہ پھرنا آپ کا والہانہ طور پر ہے ۔
Top