Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 70
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا : کیا۔ کس تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو
جبکہ انھوں نے اپنے باپ اور قوم کے لوگوں سے کہا، تم کس کی پرستش کرتے ہو
قَالَ ھَلْ یَسْمَعُوْنَـکُمْ اِذْ تَدْعُوْنَ ۔ اَوْیَنْـفَـعُـوْنَـکُمْ اَوْیَضُرُّوْنَ ۔ قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَـآ اٰبَـآئَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ۔ (الشعرآء : 72 تا 74) (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا، کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم انھیں پکارتے ہو۔ یا وہ تمہیں کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں یا ضرر پہنچا سکتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔ ) دعوت ایک قدم آگے اور مخالفین کا جواب لوگوں کی حمیت جاہلی کو دیکھتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بات کو آگے بڑھایا کہ تمہاری اپنی جاہلیت پر استقامت اپنی جگہ، میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہتا، البتہ یہ تو بتایئے کہ جب تم اپنے ان مصنوعی خدائوں کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں۔ سننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جواب دیتے ہیں اور جو کچھ تم ان سے مانگتے ہو، کیا وہ تمہاری طلب کو پورا کرتے ہیں اور تمہاری دعائیں ان کے یہاں باریاب ہوتی ہیں اور کیا وہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں کیونکہ ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص کسی کے سامنے سر جھکائے، اس سے دعائیں مانگے، اس سے استمداد کرے اور وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ ہو، اور یہ پھر بھی اس کی عظمت کے گن گاتا رہے۔ اس کی قدرت وہیبت کو اپنی دل میں بسائے رکھے۔ اگر یہ تمہارے معبود نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان دے سکتے ہیں تو پھر وہ معبود کیسے ہیں، تمہیں تو یقینا کوئی بڑی غلطی لگی ہے۔ اس کے جواب میں ان کے مخاطب لوگوں نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ نفع نقصان دینے پر قادر نہیں۔ نہ وہ ہماری مناجاتیں سنتے ہیں اور نہ ہماری فریادیں سنتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی پوجا پاٹ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارے آبائواجداد یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہ کام صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر اس کام کی کوئی حقیقت نہ ہوتی اور دینی نقطہ نگاہ سے اس کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو ہمارے آبائواجداد کیا پاگل تھے کہ وہ اس بیکار کام کو جاری رکھتے۔ یقینا اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی حقیقت کارفرما ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل اور ہمارے تصورات سے ماورا ہے۔ دنیا میں آبائواجداد کا طرزعمل اور ان کی فکری وراثت ہمیشہ ایک بہت بڑی قوت رہی ہے۔ بعد کے آنے والے لوگ جب فکری جمود کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اپنے باپ دادا اور یا ماضی کے بزرگوں کا ہمیشہ سہارا لیتے ہیں۔ نہ جانے یہ جہالت کب پیدا ہوئی ہے کہ غلطی صرف اس سے ہوسکتی ہے جو زندہ ہے، اور جو مرچکا ہے وہ غلطیوں سے پاک تھا اور اس کے افکار و اعمال بعد والوں کے لیے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتے ہیں حالانکہ جو آج زندہ ہے وہ ایک وقت کے بعد ماضی کا حصہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ آبائواجداد میں شامل ہوگئے ہیں وہ چند سال پہلے زندہ تھے۔ جس طرح آج کے زندہ لوگ غلطیاں کرتے اور ٹھوکریں کھاتے ہیں، یہی حال ان کا بھی تھا۔ تو صرف آنکھوں سے اوجھل ہوجانے کے باعث ہم نے ان کے سر پر معصومیت کا تاج سجا دیا ہے اور ان کی ہر بات بعد کے آنے والوں کے لیے حجت بن گئی ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ علم کے سہارے زندہ رہتی اور ہدایت کے راستے منزل تک پہنچتی ہیں۔ وہ معقول اور محسوس معاملات کو عقل کے پیمانے سے ناپتی اور اخلاقی، روحانی اور دینی معاملات کو وحی الٰہی کی روشنی میں دیکھتی ہیں۔ یہی ان کے لیے رہنمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور ان کا یہی طریقہ ہمیشہ انھیں ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رکھتا ہے۔
Top