Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 84
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ
وَاجْعَلْ : اور کر لِّيْ لِسَانَ : میرے لیے۔ میرا ذکر صِدْقٍ : اچھا۔ خیر فِي الْاٰخِرِيْنَ : بعد میں آنے والوں میں
اور بعد کے آنے والوں میں مجھے سچی ناموری عطا فرما
وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنَّۃِ النَّعِیْمِ ۔ وَاغْفِرْ لِاَبِیْٓ اِنَّـہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّـیْنَ ۔ وَلاَ تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ (الشعرآء : 85 تا 87) (اور مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں شامل فرما۔ اور میرے باپ کو معاف فرما دے، بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔ اور مجھے اس دن رسوا نہ کر جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔ ) رب العالمین ! مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا۔ تیرا انتہائی کرم ہے کہ تو نے مجھے نبوت سے نوازا اور لوگوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز کیا، لیکن تیری دی ہوئی ہدایت سے میں یہ بات جانتا ہوں کہ تیری ذات انتہائی بےنیاز اور بےپرواہ ہے۔ اس لیے تیری بارگاہ کے مقربین بھی ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں جنت تیرا ایسا انعام ہے جو صرف اسے نصیب ہوگا جو ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ تیرے فضل سے بہرہ ور ہوگا۔ تیری وہ عنایات جو تیرے فضل کو دعوت دیتی ہیں وہ سب تو نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔ اب قیامت کے دن تیرا فضل ہوگا تو میں جنت میں داخل ہوسکوں گا۔ اس لیے میں تجھ ہی سے تیرا فضل اور تیری جنت مانگتا ہوں۔ والد کے لیے مغفرت کی دعا کا مفہوم و مراد سعادت مند اولاد جب بھی اپنے اللہ کو پکارتی ہے تو اپنے والدین کو کبھی نہیں بھولتی۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے لیے جنت کے وارثوں میں سے ہونے کی دعا مانگی تو معاً خیال آیا کہ میرے والد نے تو ابھی تک بت پرستی چھوڑ کر توحید کے راستے پر چلنے کا اقرار نہیں کیا۔ یعنی اس نے ایمان کا راستہ اختیار نہیں کیا اور ایمان کے بغیر مغفرت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن یہ بات بھی بہت تکلیف دہ ہے کہ قیامت کے دن میرا باپ کافروں کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بلند مراتب عطا فرمائے ہیں، لیکن جب میرا باپ جہنم میں جائے گا تو مجھے رسوائی سے کون بچا سکے گا۔ اس لیے بےساختہ اللہ تعالیٰ سے اپنے والد کے لیے دعا مانگی۔ کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے۔ اگر اسے ایمان کی دولت نہ ملی اور وہ جنت میں جانے کا مستحق نہ ٹھہرا تو میری میدانِ حشر میں کیسی رسوائی ہوگی۔ لیکن قرآن کریم کی دیگر تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لیے اس وقت تک دعائیں مانگی ہیں جب تک آپ ( علیہ السلام) کو باپ کے ایمان لانے کے بارے میں بالکل مایوسی نہیں ہوگئی۔ اور آپ ( علیہ السلام) کی دعائیں جہاں پسرانہ محبت کی وجہ سے تھیں وہیں اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب آپ ( علیہ السلام) اپنے والد کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرنے لگے تو آپ ( علیہ السلام) نے اپنے والد سے کہا تھا سَلاَ مٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَـکَ اِنَّـہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا ” آپ کو سلام ہے، میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے۔ “ اس وعدے کے ایفاء کے لیے آپ ( علیہ السلام) اپنے باپ کے لیے دعا کرتے رہے۔ لیکن اس کی جب حق سے دشمنی انتہا کو پہنچ گئی تو تب آپ ( علیہ السلام) نے دعا کرنا چھوڑ دیا۔ قرآن کریم کہتا ہے وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مّـوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَا اِیَّـاہُ فَلَمَّا تَـبَـیَّنَ لَـہٗ اَنَّـہٗ عَدَوَّلِلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْـہُ ” حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس وعدے کی وجہ سے تھا جو اس نے اس سے کیا تھا مگر جب یہ بات اس پر کھل گئی کہ وہ خدا کا دشمن ہے تو اس نے اظہارِ بیزاری کردیا۔ “
Top