Ruh-ul-Quran - An-Naml : 48
وَ كَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوْنَ
وَكَانَ : اور تھے فِي الْمَدِيْنَةِ : شہر میں تِسْعَةُ : نو رَهْطٍ : شخص يُّفْسِدُوْنَ : وہ فساد کرتے تھے فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَ : اور لَا يُصْلِحُوْنَ : اصلاح نہیں کرتے تھے
اور شہر میں نو خاندان تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے
وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَھْطٍ یُّـفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلاَ یُصْلِحُوْنَ ۔ (النمل : 48) (اور شہر میں نو خاندان تھے جو زمین میں فساد پھیلاتے تھے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔ ) رَھْطٍ کا مفہوم رَھْطٍ … تین سے لے کر دس تک یا سات سے لے کر دس تک کے گروہ کو کہتے ہیں۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شہر میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی تھی اس میں نو جتھے یا نو گینگ تھے جو منظم شکل میں شہر میں فساد پھیلاتے تھے اور کسی بھی اصلاحی کوشش کو بارآور نہیں ہونے دیتے تھے۔ لیکن قرآن کریم نے سورة ہود میں اس لفظ کو خاندان کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ قوم شعیب نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا تھا وَلَوْلاَ رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰـکَ ” اور اگر تیرا خاندان نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ میں بھی رھط کا معنی خاندان ہے۔ جس طرح مکہ معظمہ میں مختلف قبائل آباد تھے اسی طرح حضرت صالح (علیہ السلام) کے شہر میں نو قبائل بستے تھے۔ یقینا ان میں سے ہر قبیلے کا ایک سردار تھا جو قبیلے کے تمام معاملات کا کرتا دھرتا اور اس کے مجموعی مفادات کا نگران تھا۔ جدھر یہ سردار چاہتا، ادھر قبیلہ رخ کرلیتا۔ چناچہ ایسی ہی صورتحال حضرت صالح (علیہ السلام) کے شہر میں بھی تھی کہ ان نو خاندانوں کے نو سردار تھے جن میں سے ہر ایک برائی کا نمائندہ اور فساد کا خوگر تھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں جب اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی اور انھیں بتایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری زندگیوں میں آسودگی آئے، تمہارے گھروں میں سکون پیدا ہو اور تمہاری آئے دن کی آپس کی لڑائیاں ختم ہوجائیں اور تمہارے اندر اخلاقِ حسنہ کا دوردورہ ہو اور تمہارے تمام معاملات ٹھیک نہج پر چلیں تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ تم اس دعوت کو قبول کرلو۔ زمین میں فساد کا سبب جس طرح اہل زمین کے علاوہ تمام کائنات میں ہم ایک نظم و ضبط، ایک سکون و اطمینان اور ایک شائستگی اور آسودگی دیکھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر مخلوق حتیٰ کہ بڑے سے بڑا کُرّہ بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کمربستہ اور اس کے تکوینی نظام کا تابع ہے۔ ہمیں کہیں تصادم نظر نہیں آتا، کوئی فساد دکھائی نہیں دیتا، ہر کام اپنے وقت پر اور اپنے موقع پر سرانجام پا رہا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے قانون اور نظام میں کسی قسم کی خلل اندازی دکھائی نہیں دیتی۔ اہل زمین بھی بالکل اسی طرح کی اصلاحی صورتحال سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں اگر وہ اس نقطے کو پالیں کہ باقی کائنات کی طرح وہ بھی اللہ تعالیٰ کے قانون کی فرمانبرداری اپنے اوپر لازم کرلیں، اس کے احکام و نواہی کی پابندی کریں، اس کے دیئے ہوئے حقوق و فرائض سے سرمو تجاوز نہ کریں، خواہشات و مفادات کے راستوں پر چلنے کی بجائے صراط مستقیم پر چلنا شروع کردیں۔ تو یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس کے نتیجے میں ہر طرح کا فساد ختم ہوجائے گا اور زمین اور اہل زمین صلاح و فلاح سے وابستہ ہوجائے گی۔ لیکن جب تک اہل زمین اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے اس کا راستہ روکنے میں اپنی مساعی بروئے کار لاتے رہیں گے اس وقت تک انفرادی اور اجتماعی زندگی فساد کا شکار رہے گی۔ چونکہ اس شہر کے نو کے نو خاندان اور ان کے روساء حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرنے اور آپ ( علیہ السلام) کی اطاعت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے اس کے نتیجے میں فساد برپا ہوتا تھا اور اسی کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے۔
Top