Ruh-ul-Quran - An-Naml : 63
اَمَّنْ یَّهْدِیْكُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًۢا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِهٖ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ
اَمَّنْ : بھلا کون يَّهْدِيْكُمْ : تمہیں راہ دکھاتا ہے فِيْ ظُلُمٰتِ : اندھیروں میں الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور سمندر وَ : اور مَنْ : کون يُّرْسِلُ : چلاتا ہے الرِّيٰحَ : ہوائیں بُشْرًۢا : خوشخبری دینے والی بَيْنَ يَدَيْ : پہلے رَحْمَتِهٖ : اس کی رحمت ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ تَعٰلَى اللّٰهُ : برتر ہے اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور وہ کون ہے جو ہَوائوں کو اپنے بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، بہت بالا اور برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں
اَمَّنْ یَّھْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّوَالْبَحْرِ وَمَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرً ما بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ط ئَ اِلٰـہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ (النمل : 63) (بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور وہ کون ہے جو ہَوائوں کو اپنے بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، بہت بالا اور برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ) اس میں دو سوالات کیے گئے ہیں، پہلا سوال خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں ہدایت دینے یعنی راستہ دکھانے کا ہے۔ اور دوسرا سوال موسمی ہَوائوں کو اپنے ابر رحمت کی بشارت بنا کر بھیجنے سے متعلق ہے۔ دونوں سوالوں کا مفہوم بہت سادہ بھی ہے اور گہرا بھی۔ پہلے سوال کا سیدھا سا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں راستہ دکھانے کے لیے نشانات گاڑ رکھے ہیں۔ زمین کی مختلف علامتیں اور آفتاب کے طلوع و غروب کی سمتیں راستہ معلوم کرنے میں مدد کرتی ہیں اور آسمان میں ستاروں کے قمقمے لگا دیئے ہیں جو خشکی اور تری دونوں کی تاریکیوں میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن اس کا گہرا مفہوم تفصیل کا طالب ہے۔ ہدایت کا وسیع مفہوم اور اس کے مدارج حقیقت یہ ہے کہ تکوین وجود اور تکمیل وجود کے چار مراحل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو پیدا فرمایا پھر اس کا تسویہ کیا، پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کردی اور پھر اسے اس کی تقدیر کے مطابق زندگی اور معیشت کی راہ پر چلنے کا طریقہ سکھایا۔ یعنی ہدایت عطا فرمائی۔ اس ہدایت پر اگر غور کیا جائے تو اس کے چار طریقے معلوم ہوتے ہیں۔ نباتات میں یہ ہدایت فطری رہنمائی کا درجہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں بیلیں زمین پر پھیلتی، پودے سر اٹھاتے اور درخت تن کر کھڑے ہوتے ہیں پھر ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی ہدایت کے مطابق برگ وبار لاتا اور پھل اور پھول دیتا ہے۔ لیکن حیوانات میں ہم اس فطری ہدایت کو اندرونی الہام کی شکل میں دیکھتے ہیں کہ ہر حیوان کا بچہ ادھر پیدا ہوتا ہے ادھر کوئی الہام کرنے والا اسے یہ الہام کرتا ہے کہ تیری غذا ماں کے سینے میں یا تیرے قریب ہی رکھ دی گئی ہے وہاں سے تجھے اس طرح حاصل کرنی ہے۔ چناچہ ہم بلی کے بچے کو دیکھتے ہیں کہ ابھی اس نے آنکھیں کھولی نہیں اور خارج کے مؤثرات نے اسے چھوا تک نہیں مگر وہ اپنی ماں کی چھاتی کو ٹٹولتا ہے اس پر منہ مارتا ہے اور پستان کو منہ میں لے کر چوسنے لگتا ہے اور بلی فرط محبت سے اسے چاٹ رہی ہے۔ آپ نے بلی کو دیکھا ہوگا جسے اس سے پہلے بچے کو جننے کا کوئی تجربہ نہیں ہے مگر جیسے ہی اس کے وضع حمل کے دن قریب آتے ہیں وہ الگ تھلگ کونے کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے اور پھر کسی الگ کونے کو عافیت کی جگہ سمجھتے ہوئے بیٹھ جاتی اور بچے جن دیتی ہے اور پھر وہ جس طرح اپنے بچوں کی نگہداشت کرتی اور ایک موہوم خطرہ محسوس کرتے ہوئے مختلف جگہیں بدلتی ہے یہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ کوئی اندرونی الہام ہے جو اسے ہر معاملہ کی ہدایت دے رہا ہے۔ خود انسان کا بچہ جو جانوروں کے بچوں سے بھی زیادہ بےبس ہوتا ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ : ھُوَالَّذِیْ اَخْرَ جَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ شَیْئًا (وہ ذات ہے جس نے تمہیں تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے) ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بچے کے پید اہوتے ہی ماں کی مامتابے تاب ہو کر اسے سینے سے لگاتی ہے اور وہ ماں کی چھاتی کے ساتھ منہ مارتا اور پستان منہ میں لے کر چوسنے لگتا ہے تاکہ اپنی غذا حاصل کرے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس بچے کو یہ کون سکھاتا ہے کہ تیری غذا ماں کی چھاتی میں ہے اور تجھے اس طرح اسے چوسنا ہے یہ وہ اندرونی الہام ہے جس کے ذریعے انسان کو سب سے پہلی ہدایت دی جاتی ہے۔ ہدایت کا دوسرا مرتبہ ہدایت کا دوسر امرتبہ حواس اور مدرکاتِ ذہنی کی ہدایت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہرِدماغ سے محروم ہیں جسے عقل و فکر سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم فطرت نے انھیں ادراک و احساس کی کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی ومعیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، توالد وتناسل اور ہدایت و نگرانی کے تمام فرائض حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس وادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی طرح کی نہیں بلکہ ہر وجود کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداددی گئی ہے جیسی استعداد اس کے احوال کے لیے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دوررس ہوتی ہے اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کرتی ہے، چیل اور عقاب کی نگاہ تیزہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اڑتے ہوئے اپنا شکار نہ دیکھ سکیں یہی وہ ہدایت ہے جس کی طرف حضرت مو سیٰ (علیہ السلام) کی زبانی ارشاد کیا گیا ہے فرعون نے جب پوچھا : فَمَنْ رَّبُّکُمَایَاموسٰی ( اے موسیٰ تمہارا پروردگار کون ہے ؟ ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : رَبُّنَاالَّذِی اعطٰی کُلَّ شَیٍٔ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ پھر اسے ہدایت دی، یعنی اس پر زندگی اور معیشت کی راہ کھول دی ) ۔ پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ راہ عمل آسان کردینے سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ فرمایا : مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ مِنْ نُطْفَۃٍ خَلَقَہٗ فَقَدَّ رَہٗ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ (اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا۔ نطفہ سے پیدا کیا پھر اس کی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کے لیے ایک اندازہ ٹھہرادیا پھر اس پر زندگی اور عمل کی راہ آسان کردی۔ ) ہدایت کے یہ دو مرتبے ہوئے جنھیں ہم ہدایتِ الہام اور ہدایتِ حواس کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ دونوں مرتبے انسان اور حیوان سب کے لیے ہیں۔ الہام کی ہدایت انسان اور حیوان میں سعی و طلب کا ولولہ پیدا کرتی ہے۔ حواس کی ہدایت کا مرتبہ اس سے بلند تر ہے۔ یہ ہمیں دیکھنے، سننے، چکھنے، چھونے اور سونگھنے کی قوتیں بخشتے ہیں اور انہی کے ذریعے ہم خارج کا علم حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ ہدایت ہمارے لیے معلومات بہم پہنچاتی ہے۔ حیوان کے لیے تو ہدایت کے یہ دونوں مرتبے کافی ہیں۔ کیونکہ اسے زندگی کا جو طریقہ اور جو نصب العین سکھایا گیا ہے اس کے لیے کسی تیسرے مرتبہ ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہدایت کا تیسرا مرتبہ انسان کے لیے ایک تیسرے مرتبہ ہدایت کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کے لیے مجرد احساس کافی نہیں اور نہ صرف محسوسات کا علم اس کے لیے کفایت کرتا ہے۔ انسان کو تو استنباط اور استنتاج کی بھی ضرورت ہے۔ احکام کی بھی ضرورت ہے اور کلیات کی بھی ضرورت ہے۔ اور یہ کام صرف حواس کی ہدایت سے ممکن نہیں۔ اس لیے انسان کو ایک تیسرے مرتبہ ہدایت سے نوازا گیا۔ یہ وہ ہے جسے جوہرِ عقل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جوہرِ عقل دراصل اسی قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں الہام ووجدان اور حواس کی روشنی پید اکردی ہے۔ جس طرح انسان کا جسم اجسام ِ ارضی کی سب سے اعلیٰ کڑی ہے اسی طرح اس کی معنوی قوت بھی تمام معنوی قوتوں کا برترین جوہر ہے۔ روح حیوانی کا وہ جو ہرِادراک جو نباتات میں مخفی اور حیوانات کے وجدان و مشاعر میں نمایاں تھا انسان کے مرتبہ میں پہنچ کردرجہء کمال تک پہنچ گیا اور جوہر ِعقل کے نام سے پکارا گیا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہدایتِ فطرت کے ان تینوں مرتبوں میں سے ہر مرتبہ اپنی قوت و عمل کا ایک خاص دائرہ رکھتا ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر اس مرتبہ سے ایک بلند تر مرتبہ موجود نہ ہوتا تو ہماری معنوی قوتیں اس حد تک ترقی نہ کرسکتیں جس حد تک فطرت کی رہنمائی سے ترقی کررہی ہیں۔ الہام کی ہدایت ہم میں طلب و سعی کا جوش پیدا کرتی ہے۔ مطلوبات زندگی کی راہ پر لگاتی ہے۔ لیکن ہمارے وجود سے باہر جو کچھ موجود ہے اس کا ادراک حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ کام حواس کی ہدایت کا ہے۔ وجدان کی راہنمائی جب درماندہ ہوجاتی ہے تو حواس کی دستگیری نمایاں ہوتی ہے۔ آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، زبان چکھتی ہے، ہاتھ چھوتا ہے، ناک سونگھتی ہے۔ اور اس طرح ہم اپنے وجود کے باہر کی تمام محسوس اشیاء کا ادراک حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد تک ہی کام دے سکتی ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ آنکھ دیکھتی ہے مگر صرف اسی حالت میں جبکہ دیکھنے کی تمام شرطیں موجود ہوں اور اگر کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے۔ مثلاً روشنی نہ ہو یا فاصلہ زیادہ ہو تو ہم آنکھ رکھتے ہوئے بھی ایک موجودچیز کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ علاوہ بریں حواس کی ہدایت صرف اتنا ہی کرسکتی ہے کہ اشیاء کا احساس پیدا کردے لیکن مجرد احساس کافی نہیں ہے ہمیں استنباط واستتناح کی بھی ضرورت ہے۔ جس کے نتیجے میں ہم کلیات وضع کرتے ہیں اور کلیات سے احکام نکالتے ہیں۔ اور یہ کام عقل کی ہدایت کا ہے۔ اسے مثال سے یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ حواس تعمیر کے کام میں مزدوروں کی طرح ہیں۔ جن کا کام خام مواد مہیا کرنا، بکھری ہوئی چیزیں فراہم کرنا اور مسالہ بہم پہنچانا ہے اور عقل کی حیثیت ایک معمار کی ہے جس کا کام بکھرے ہوئے مواد کو جوڑ کر ایک عمارت کی تشکیل دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حواس کے بعد عقل کا جوہر عطا نہ کیا جاتاتو ہماری بکھری ہوئی معلومات، ہمارے منتشر محسوسات، ہماری زندگی کے کسی شعبہ کے لیے معاون ثابت نہ ہوتے کیونکہ ان سے کام لینا، انھیں ترتیب دینا اور ان سے کلیات وضع کرنا اور پھر ان سے احکام استنباط کرنا عقل کا کام ہے اور عقل کی عدم موجودگی میں ظاہر ہے یہ کام نہیں ہوسکتا تھا اور ہم زندگی کے میدان میں ناکام ہوجاتے۔ پھر ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وجدان اور فطری الہام کی نگرانی کے لیے حواس کی راہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ وجدان اور الہام غلطیوں سے مبرا نہیں۔ ان کی تصحیح و نگرانی کے لیے ہمیں حواس کی راہنمائی کی ضروت ہے اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حواس کی راہنمائی بھی نارسائی کا شکار ہوتی ہے اور غلطیوں سے محفوظ بھی نہیں۔ مثلاً ہم دور سے ایک چیز دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ایک سیاہ نقطے سے زیادہ حجم نہیں رکھتی۔ حالانکہ وہ ایک عظیم الشان گنبد ہوتی ہے۔ ہم بیماری کی حالت میں شہد جیسی میٹھی چیز چکھتے ہیں لیکن ہماری قوت ذائقہ ہمیں یقین دلاتی ہے کہ اس کا مزاکڑوا ہے۔ ہم تالاب میں لکڑی کا عکس دیکھتے ہیں لکڑی بالکل سیدھی ہوتی ہے۔ لیکن عکس میں ٹیڑھی دکھائی دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی عارضے کی وجہ سے کان بجنے لگتے ہیں اور ہمیں ایسی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں اب اگر مرتبہ حواس سے ایک بلند تر مرتبہ ہدایت کا وجود نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ ہم حواس کی درماندگیوں میں حقیقت کا سراغ پاسکتے لیکن ان تمام حالتوں میں عقل کی ہدایت نمودار ہوتی ہے۔ وہ حواس کی درماندگیوں میں ہماری راہنمائی کرتی ہے وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ سورج ایک عظیم الشان کرہ ہے۔ اگرچہ ہماری آنکھ اسے ایک سنہری تھال سے زیادہ محسوس نہیں کرتی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہے کہ شہد کا مزاہر حال میں میٹھا ہے اور اگر ہمیں کڑوا محسوس ہوتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ ہمارے منہ کا مزا بگڑ گیا ہے۔ وہ ہمیں بتلاتی ہے کہ بعض اوقات خشکی بڑھ جانے سے کان بجنے لگتے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جو صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ خارج کی صدائیں نہیں خود ہمارے دماغ کی گونج ہوتی ہے۔ گذشتہ معروضات میں آپ نے دیکھا کہ وجدان اور الہام کی ہدایت کے بعد حواس کی ہدایت نمودار ہوئی۔ کیونکہ وجدان کی ہدایت ایک خاص حد سے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اور پھر حواس کے بعد عقل کی ہدایت نمودار ہوئی۔ کیونکہ حواس کی ہدایت بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اور اس کے ساتھ یہ بات بھی کہ وہ غلطیوں اور نارسائیوں سے محفوظ بھی نہیں تھی۔ ٹھیک اسی طرح ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ دونوں کمزوریاں عقل کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں۔ کیونکہ عقل زندگی کے ہر شعبہ میں نہ تو مکمل رہنما ہے اور نہ بالکل صحیح راہنما ہے۔ اس کا بھی ایک محدود دائرئہ عمل ہے جس سے یہ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اور اس کی کارفرمائی بھی غلطیوں سے مبرانھیں۔ کیونکہ اس کا دائرہ عمل جیسا کچھ بھی ہے وہ محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ یعنی وہ صرف اس حد تک کام دے سکتا ہے۔ جس حدتک ہمارے حواس خمسہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ لیکن محسوسات کی سرحد سے آگے کیا ہے ؟ اس پردے کے پیچھے کیا ہے ؟ جس سے آگے ہماری چشم حواس نہیں بڑھ سکتی۔ یہاں پہنچ کر عقل ایک قلم درماندہ ہوجاتی ہے اس کی ہدایت ہمیں کوئی روشنی نہیں دے سکتی۔ بقول اقبال :؎ خرد سے راہ رو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہگذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے یوں کہنا چاہیے کہ عقل ایک صحیح راہنما ہے۔ لیکن مکمل نہیں۔ غلطی ہماری ہے کہ ہم اسے ایک مکمل راہنما سمجھ کر زندگی کے ہر دائرہ عمل میں اس سے راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی آدمی نے کسی صراف سے یہ پوچھا کہ صراف میاں تمہارا ترازو کیسا ہے ؟ اس نے کہا بالکل صحیح ہے۔ بالکل صحیح تولتا ہے۔ ذرہ بھر کمی بیشی نہیں ہونے دیتا۔ اس نے کہا اگر تمہاری بات صحیح ہے تو پھر اس میں اپنی دکان تول کر دکھائو۔ اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا بھلے آدمی یہ دکانیں تولنے کے لیے تھوڑی بنایا گیا ہے۔ اس میں تو سونا چاندی تولتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا ترازو صحیح ہے۔ اس نے کہا میں نے صحیح کہا تھا۔ یہ غلطی میزان کی نہیں تمہاری ہے کہ تم اس میں وہ چیز تلوانا چاہتے ہو جو اس کے دائرہ ٔ کار سے باہر ہے۔ ہم بھی عقل سے وہ کام لینا چاہتے ہیں جو اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس کا دائرئہ کار محسوسات تک محدود ہے۔ طبیعات تک محدود ہے رہی یہ بات کہ محسوسات کے دائرہ کے پیچھے کیا ہے اور مابعد الطبعیات کیا ہے عالم لاہوت اور عالم الٰہیات کیا ہے، عالم ملکوت کا کیا حال ہے ؟ عالم برزخ میں کیا ہو رہا ہے ؟ عالم آخرت میں کیا ہوگا ؟ موت اور زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ روح کس چیز کا نام ہے کائنات کی ابتدا کیا ہے اور انتہا کیا ہے ؟ اللہ کی صفات کیا ہیں ؟ اخلاقی مسلمات کی حقیقت کیا ہے ؟ قوموں کے عروج وزوال کے اصل اسباب کیا ہیں ؟ وہ اخلاقی نقطہ کیا ہے جس سے انسانیت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر انسانیت پروان چڑھتی ہے ؟ انسانیت کے مسلّمہ مسائل کا اجتماعی حل کیا ہے ؟ انسان کے اندر بیٹھا ہوا انسان کس چیز سے مرتا اور کس چیز سے جیتا ہے ؟ یہ وہ زندگی اور کائنات کے حقائق ہیں جس سے پردہ اٹھانا عقل کی بساط سے باہر ہے۔ لیکن جب ہم انہی چیزوں کا جواب عقل سے مانگتے ہیں تو ہم اس پر ایک ایسابوجھ لاد دیتے ہیں جس کا تحمل اس میں نہیں ہے۔ بلکہ بعض دفعہ ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے بالکل پیش پا افتادہ حقائق بھی انسانی عقل کی گرفت سے باہر معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ غور فرمایئے کہ نفس انسانی طرح طرح کی خواہشوں اور جذبوں میں کچھ اس طرح گھرا ہوا، بلکہ اس طرح مقہور واقع ہوا ہے کہ جب بھی عقل اور جذبات میں کشمکش ہوتی ہے تو اکثر حالتوں میں فتح جذبات ہی کی ہوتی ہے۔ بسا اوقات عقل ہمیں یقین دلاتی ہے کہ فلاں فعل مضر اور مہلک ہے لیکن جذبات ہمیں ترغیب دیتے ہیں اور ہم اس کے ارتکاب سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتے۔ عقل کی بڑی سے بڑی دلیل بھی ہمیں ایسا نہیں بنا دے سکتی کہ غصے کی حالت میں بےقابو نہ ہوجائیں اور بھوک کی حالت میں مضر غذ ا کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں۔ جذبات تو پھر بھی ایک زور دار شے ہے۔ وہم تو انسانی احساسات میں سے ایک کمزورحس کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات وہم جیسا کمزور جذبہ بھی عقل انسانی پر غالب آجاتا ہے۔ عقل جانتی ہے کہ ایک انسان کو گذرنے کے لیے ایک فٹ یا زیادہ سے زیادہ دو تین فٹ چوڑی گزرگاہ کافی ہے۔ اگر کسی عقل کے پرستار سے یہ پوچھا جائے کہ دریا کے اوپر گزرگاہ بنانے کے لیے کتنا چوڑا پل ہونا چاہیے تو وہ عقل کے مطابق اتنی ہی چوڑائی تجویز کرے گا۔ لیکن اگر کسی عقل کے پرستار سے کسی ایسے پل پر سے گزرنے کو کہا جائے جو تین فٹ چوڑا ہو لیکن اس کے نیچے سے گزرنے والادریا طغیانی پر آیا ہوا ہو جس کی موجیں اچھل کر دریا کے پل کو چھو رہی ہوں تو یہی عقل کا پرستار کبھی اس پل پر سے گزرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ بلکہ اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہوکرگذرنے سے صاف انکار کردے گا۔ غور فرمائیے کہ جس عقل کو جذبات اپنا اسیر بنالیں اور وہم اسے شکست دے دے وہ زندگی کے معامالات حل کرنے میں کہاں تک مئو ثر ہوسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جیسا کہ پہلے بھی کہا جاچکا ہے کہ عقل کے میز ان ہونے اور موثر رہنما ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب اس کے دائرہ کار سے باہر اس کو استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے ایک مکمل رہنما سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کی کمزوری کا عالم بھی آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو جذبات اور وہم کی زنجیروں سے آزاد کرنے سے بھی عاجز ہے۔ یہاں تک تو معاملہ پھر بھی عقل کے موثر نہ ہونے کا ہے لیکن اس وقت تو معاملہ بہت خطرناک ہوجاتا ہے جب عقل نہ صرف یہ کہ مؤثر نہیں رہتی بلکہ بعض دفعہ اپنی رہنمائی میں وہ غلط نتائج پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں اخلاقی زندگی تباہ و برباد ہوکررہ جاتی ہے۔ یہ موقع وہ ہے جب عقل کو خواہشات کا غلام بنادیا جاتا ہے انسان عجیب واقع ہوا ہے کہ وہ اصلاً ان خواہشات کی پیروی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے بروئے کارلاتے ہوئے نام عقل کا رکھتا ہے۔ حالانکہ اگر دیانت داری سے غور کیا جائے تو وہاں عمل دخل عقل کا نہیں بلکہ سراسر خواہشات کا ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کریم نے ایک جگہ ارشاد فرمائی : وَلَوِ اتَّبَعَ الحَقَّ اَھَوَآئُ ھُمْ لَفَسَدَاتِ السَّمٰوٰاتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ (کہ اگر حق ہوائے نفس کی پیروی کرنے لگے تو زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے وہ تباہ ہوجائے۔ ) اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ فلسفہ قانون میں فلاسفہ کا ایک گروہ پایا جاتا ہے جن کا نمایاں نمائندہ مشہور ماہر قانون ڈاکٹر فرائیڈ میں ہے۔ انھوں نے اپنے نظریہ کی وضاحت کے لیے ” دی لیگل تھیوری “ کے نام سے ایک کتاب لکھی اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ” عقل صرف انسانی جذبات و خواہشات کی غلام ہے اور اس کو انہی کا غلام ہونا بھی چاہیے۔ عقل کا اس کے سوا اور کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ان جذبات کی بندگی اور ان کی اطاعت کرے۔ “ پھر اس نظریے سے جو نتیجہ نکلنا چاہیے وہ ڈاکٹر فرائیڈ میں کے الفاظ میں یہ ہے کہ : ” اس کے سوا ہر چیز یہاں تک کہ اچھے برے کے تصورات اور یہ الفاظ کہ فلاں کام ہونا چاہیے اور فلاں کام ہونے کے لائق ہے کلی طور پر جذباتی باتیں ہیں اور دنیا میں اخلاق نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ “ ممکن ہے کہ آپ اسے محض ایک فلسفی کی بڑسمجھیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں عقل کی برتری کا دعویٰ کیا جاتا ہے بلکہ عقل کی غلامی کی جارہی ہے وہاں عملی زندگی میں یہی فلسفہ ہمیں حاکم دکھائی دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاق کی ہر قدر رفتہ رفتہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ رحم اتنی بڑی اخلاقی قدر ہے کہ شائد کوئی اس کا انکار نہ کرسکے۔ ہیرو شیما اور ناگاسا کی پر گرائے جانے والے بموں سے انسانیت پر جو ظلم ہوا انسانیت کی پیشانی آج بھی اس سے عرق آلود ہے۔ لیکن اندازہ فرمائیے کہ جب اس واقعہ کو خالصتاً عقل کی نگاہ سے دیکھا گیا تو اسے ظلم کی بجائے رحم بنادیا گیا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جیسی علمی اور عالمی کتاب میں ان تباہ کاریوں کا ذکر بعد میں کیا گیا جو ایٹم بم کی بدولت ہیرو شیما اور ناگاسا کی میں برپا ہوئیں لیکن ایٹم بم کے تعارف میں یہ جملہ سب سے پہلے لکھا گیا ہے : ” سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ایٹم بم نے جنگ کو مختصر کرکے دس لاکھ امریکی سپاہیوں اور اڑھائی لاکھ برطانوی سپاہیوں کی جانیں بچائیں۔ “ انداہ فرمائیے کہ اس قسم کی منطق میں کون سے ظلم وستم اور کون سی سفاکی ایسی ہے جسے عقل کے خلاف کہا جاسکے۔ اسی طرح شرم وحیاء انسان کا سب سے بڑا جوہر ہے لیکن خالص عقل کے پیروکاروں نے جس طرح اس کی مٹی پلید کی ہے اور اس بنیادی قدر کو جس طرح انسانی زندگی سے خارج کردیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے میں شرم وحیاء سے معذرت کے ساتھ آٹھ سو سالہ پرانی ایک مثال پیش کررہا ہوں۔ ” تاریخ اسلام میں ایک فرقہ ” باطنیہ “ کے نام سے گزرا ہے۔ اس کا ایک مشہور لیڈر عبیداللہ القیروانی اپنے ایک مکتوب میں لکھتا ہے : وما العجب من شئی کالعجب من رجل یدعی العقل ثم یکون لہ اخت او بنت حسناء ولیست لہ زوجۃ فی حسنھا فیحرمھاعلی نفس وینکحھا من اجنبی ولو عقل الجاھل لعلم انہ احق باختہ وبنتہ من الاجنبی وماوجہ ذلک الاان صاحبھم حرم علیھما الطیبات۔ (الفرق بین الفرق لعبدالقاہر البغدادی) ” اس سے زیادہ تعجب کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ایک شخص عقل کا دعویدار ہونے کے باوجودایسی حماقتیں کرتا ہے کہ اس کے پاس نہایت خوبصورت بہن یا بیٹی موجود ہوتی ہے اور خود اس کی بیوی اتنی حسین نہیں ہوتی مگر وہ اس خوبصورت بہن یا بیٹی کو اپنے اوپر حرام قرار دے کر اسے کسی اجنبی سے بیاہ دیتا ہے۔ حالانکہ ان جاہلوں کو اگر عقل ہوتی تو وہ یہ سمجھتے کہ ایک اجنبی شخص کے مقابلے میں اپنی بہن اور بیٹی کے وہ خود زیادہ حق دار ہیں۔ اس بےعقلی کی وجہ دراصل صرف یہ ہے ان کے آقانے ان پر عمدہ چیزوں کو حرام کردیا ہے۔ “ آپ ممکن ہے کہ اسے آٹھ سو سالہ پرانی غیر ترقی یافتہ حالت کی عکاس سمجھ کر نظر انداز کردیں۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ دور میں جس طرح عقل خالص کی پیروی میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح اس کے نتیجے میں اخلاقی اقدار کی پامالی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کے دور میں بہن سے نکاح باقاعدہ ایک نعرہ بن چکا ہے اور امریکہ کی بعض ریاستوں میں باقاعدہ اس کے حق میں جلوس نکالے گئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اس بداخلاقی کو روکنے کے لیے میڈیکل سائنس کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی رہی ہے کہ استلذاذ بالاقارب سے طبی نقصانات ہوتے ہیں۔ لیکن آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آرہی ہیں انھوں نے نہ صرف ان طبی نقصانات کی توجیہ کو غلط ثابت کردیا ہے بلکہ استلذاذ بالاقارب کو انھوں نے انسان کی فطری خواہش یعنی ہیومن ارج قرار دے کر انسان کا بنیادی حق تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے اور اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی جارہیں۔ اور اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ ہم جنس پرستی کے جواز کابل تالیوں کی گونج میں منظور کرچکی ہے اور یہ اخلاقی اعتبار سے انتہائی قابل نفرت خصلت جس کیوجہ سے قوم لوط پر اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ نہ صرف کوئی برائی نہیں رہی بلکہ اسے باقاعدہ ایک علم بنادیا گیا ہے۔ آپ امریکہ کی لائبریریوں میں جائیں تو وہاں آپ کو اس برائی کے حق میں لکھی ہوئی کتابوں پر مشتمل علیحدہ سیکشن ملے گا جس کا عنوان ہوگا ” گے اسٹائل آف لائف “ چند سال پیشتر امریکی رسالے ٹائم نے لکھا کہ خلیج کی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں میں سے تقریباً ایک ہزار افراد کو صرف اس لیے فوج سے نکال دیا گیا کہ وہ ہم جنس پرست تھے۔ لیکن اس اقدام کے خلاف امریکہ میں شور مچ رہا ہے۔ مظاہرے ہورہے ہیں اور چاروں طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ آپ نے جن لوگوں کو ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے فوج کے عہدوں سے برخاست کیا ہے یہ آپ نے ایک خلاف ِعقل حرکت کی ہے۔ اس لیے ان کو دوبارہ بحال ہونا چاہیے اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جارہی ہے کہ یہ ایک ہیومن ارج ہے اور ہیومین ارج کو دبایا نہیں جاسکتا اور یہ سب کچھ عقل کی بنیاد پر ہورہا ہے اور اب تو یہ معاملہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ بات صرف جنس انسانی کی نہیں رہی بلکہ اب تو جانوروں کتوں، گدھوں اور گھوڑوں تک نوبت پہنچ گئی ہے اور اس کو بھی باقاعدہ فخریہ بیان کیا جارہا ہے۔ حاصلِ بحث اس تمام بحث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان اور حیوان کی زندگی کے تحفظ اور اس کو معیشت کی راہ پر لگانے کے لیے سب سے پہلے فطری رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ ایک خاص حد تک اپنا کام کرتی ہے۔ اس کے بعد باہر کی زندگی کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے حواس خمسہ کی راہنمائی مہیا فرمائی۔ حواس خمسہ نے محسوسات کے دائرے میں رہ کر انسانی زندگی کو آگے بڑھایا۔ پھر جب انسان کے قدم محسوسات سے آگے بڑھے تو اسے عقل کی راہنمائی عطا فرمائی گئی۔ اب ہم نے تفصیل سے دیکھا کہ عقل انسان کی راہنمائی کے لیے بہت مؤثر رہنماہونے کے باوجود اعمال کی درستگی اور انضباط کے لیے کافی نہیں۔ وہ قدم قدم پر جذبات کی اسیر ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ قوت واہمہ سے شکست کھاجاتی ہے اور اگر یہ جذبات ہوائے نفس کی لپیٹ میں آجائیں تو پھر عقل نہ صرف اس کے سامنے بےدست و پا ہوجاتی ہے۔ بلکہ عموماً وہ ہوائے نفس کی وکالت کرنے لگتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اخلاقی قدریں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ عقلی مسلمات شکست وریخت کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اب جس پروردگار نے قدم قدم پر حیوان اور انسان کی راہنمائی فرمائی کیا یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کو غلطان وپیچان چھوڑدے کہ وہ ہوائے نفس کا شکار ہو کر اپنی زندگی اور آخرت تباہ کرلے۔ قرآن کہتا ہے کہ اس پروردگار کی رحمت سے یہ بات یقینا بعید ہے کہ وہ عقل کے بعد انسان کو کسی اور راہنمائی سے محروم فرمادے۔ بلکہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس طرح وجدان کے بعد حواس کی رہنمائی پروردگار نے عطا فرمائی اور حواس کے بعد عقل کی، اسی طرح اس نے اپنے ذمہ یہ بات لے رکھی ہے کہ عقل کے بعد زندگی کو رہنما سے محروم نہیں رکھے گا۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے جابجا ان مراتب ہدایت کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد فرمایا : اِنَّاخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ تَبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًابَصِیْرًا اِنَّاھَدَیْنَاہُ لََسَبِیْلَ اماشاکراً وَّاِمَّاکَفُوْرًا (ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا جسے ایک کے بعد ایک، مختلف حالتوں میں پلٹتے ہیں۔ پھر اسے ایسا بنادیا کہ سننے والا، دیکھنے والا وجود ہوگیا۔ ہم نے اس پر راہ عمل کھول دی۔ اب یہ اس کا کام ہے کہ یا تو شکر کرنے والاہو یا ناشکرا۔ یعنی یا تو اللہ کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک ٹھیک کام میں لائے اور فلاح وسعادت کی راہ اختیار کرے یا ان سے کام نہ لے اور گمراہ ہوجائے۔ ) أَ لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ وَلِسَانًاوَّشَفَتَیْنٍ وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ (کیا ہم نے اسے ایک چھوڑ دو دو آنکھیں نہیں دے دی ہیں (جن سے وہ دیکھتا ہے) اور زبان اور ہونٹ نہیں دیئے ہیں (جو گویائی کا ذریعہ ہیں) اور کیا اس کو ہم نے (سعادت و شقاوت کی) دونوں راہیں نہیں دکھادیں ؟ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ قَلِیْلًامَّاتَشْکُرُوْنَ (اور اللہ نے تمہارے لیے سننے اور دیکھنے کے حواس پیدا کردیئے اور سوچنے کے لیے دل ( عقل) تاکہ تم شکر گذار رہو (یعنی اللہ کی دی ہوئی قوتیں ٹھیک طریقہ پر کام میں لائو۔ ) ان آیات اور ان کے ہم معنی آیات میں حواس اور مشاعر اور عقل و فکر کی ہدایت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں، لیکن وہ تمام مقامات جہاں انسان کی روحانی سعادت و شقاوت کا ذکر کیا گیا ہے وحی ونبوت کی ہدایت سے متعلق ہیں۔ مثلاً اِنَّ عَلَیْنَالَلْھُدٰی وَاِنَّ لَنَالَلْاٰخِرَۃَوَالْاُوْلٰی (بلاشبہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم راہنمائی کریں اور یقیناآخرت اور دنیادونوں ہمارے ہی لیے ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت کی ضرورتوں کے لیے رہنمائی ہماری ذمہ داری ہے ) وَاَمَّاثَمُوْدُ فَھَدْیَنٰھُمْ فَاسْتَحَبُّوا لْعَمٰی عَلٰی الْھُدٰی (اور باقی رہی قوم ثمود، تو اسے بھی ہم نے راہ حق دکھلادی تھی۔ لیکن اس نے ہدایت کی راہ چھوڑکر اندھے پن کاشیوہ اختیار کیا۔ ) وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَالَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاوَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ (اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جانفشانی کی تو ضروری ہے کہ ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیں اور بلاشبہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو نیک عمل ہیں۔ ) انسانی زندگی کی ضرورتیں جہاں کھانا پینا، اوڑھنا پہننا، لوگوں سے میل جول رکھنا، عناصر قدرت اور عناصر فطرت سے مستفید ہونا ہیں وہاں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ یہ جانے کہ باہمی میل جول کے آداب کیا ہیں، خود میری زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ میری زندگی کے کیا فرائض اور کیا حقوق ہیں ؟ شائستگی اور دل بستگی کیا ہے ؟ ان کے آداب کیا ہیں ؟ دوسروں کے مجھ پر حقوق کیا ہیں ؟ ہمسائیگی کیا ہے ؟ اخوت و محبت کسے کہتے ہیں ؟ ماں باپ کا احترام کیا ہے ؟ علم کس چیز کا نام ہے اور اس کی حدود کیا ہیں ؟ عورت اور مرد کا رشتہ کیا ہے اور اس کی نزاکتیں کیا ہیں ؟ محرم کسے کہتے ہیں اور نامحرم کون ہے ؟ عبادات کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ دنیا ہمیشہ رہے گی یا ختم ہوجائیگی ؟ اس کا انجام فنا ہے یا بقاء ہے ؟ کیا کوئی دوسری دنیا بھی ہے ؟ تو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا میں مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاؤں گا ؟ یہ عالم برزخ کیا ہے ؟ اور عالم آخرت کیا ہے ؟ اللہ کی صفات کیسی ہیں ؟ وہ اگر ہمارا مالک ہے تو وہ کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے ؟ قربانیوں کی حقیقت کیا ہے ؟ آدمی ایک دوسرے کے لیے ایثار کرتا ہے تو اس کا صلہ کیا ہوگا ؟ اخلاقی مسلمات کیا ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے ؟ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب کیا ہیں ؟ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کن کاموں سے زندہ ہوتی ہے اور کن کاموں سے مرجاتی ہے ؟ اور اسی طرح کے بیشمار سوالات ہیں جن کا جواب انسان کو ملنا چاہیے۔ مگر یہ امر واقعہ ہے کہ ان کا جواب نہ حواس کے پاس ہے اور نہ عقل کے پاس۔ اب اگر ہمیں اپنے محسوسات کی دنیا میں جوابات دینے کے لیے حواس و عقل کی راہنمائی دی گئی ہے تو کیا عالم ناسوت اور عالم ملکوت کی حقیقتوں کے لیے اور اپنی دنیا میں سرفرازی اور آخرت میں سرخروئی کے لیے اور اس آنکھ کے پردے کے پیچھے کے حقائق کو جاننے کے لیے ہمیں کوئی راہنمائی نہیں دی جائے گی ؟ اور ہم بیخبر ی میں غلط سلط فیصلے کرتے رہیں گے۔ یقیناوہ ذات جس نے چیونٹی تک کی ضرورتیں پوری کی ہیں وہ انسان کو اس سے بیخبر نہیں رکھ سکتی۔ چناچہ اس نے حواس و عقل کے ذریعے کے بعد ہمیں ایک اور ذریعہ علم بھی بخشا جس کا نام وحی اور رسالت ہے اور اس وحی کے حاملین کو پیغمبر نبی یا رسول کہتے ہیں۔ اس ذریعہ سے انسانوں کو وہ سب کچھ بتایا گیا جو اس کی دنیوی، اخروی اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورت تھی بلکہ اس ذریعہ علم کے ذریعے انسانوں کی دنیا بھی اور آخرت بھی تباہ ہونے سے بچالی گئی۔ تاریخی حقائق ہمارے سامنے ہیں کتنی قومیں اس صفحہ ہستی پر قوت کانشان بن کر اٹھیں لیکن اپنی اخلاقی بےراہ روی اور غلط فیصلوں کے نتیجے میں اللہ کے عذاب کانشانہ بنیں۔ آسمانی کتابوں نے جابجا اس تاریخ کو بیان کیا ہے تاکہ انسان اس بات کو سمجھے کہ انسانی بقاء کا دارومدار اس کی اخلاقی زندگی اور توانائی پر ہے کیونکہ اخلاقی زندگی میں گراوٹ انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ بلکہ انسانیت سے تہی دامن کردیتی ہے۔ وہ شرم وحیاء سے عاری ہوکرکتوں، بلیوں کی سطح پر آجاتا ہے۔ رحم و مروت سے بےبہرہ ہوکردرندوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ حرام و حلال سے بےگانہ ہو کر حشرات الارض کی جگہ نشے کی حالت میں گلی کوچوں میں پڑا دکھائی دیتا ہے۔ آخرت کی محبت سے محروم ہو کر اور حب دنیا کا اسیر بن کر بندہ درہم و دینار بن جاتا ہے۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اس ذریعہ علم کو پہچانیں جسے وحی الہٰی کہا جاتا ہے اور ان کے حاملین کا راستہ اختیار کریں جنھیں پیغمبر اور رسول کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور بگڑ گیا ہے مگر پھر بھی آپ کو جہاں تہاں بھی کوئی روشنی دکھائی دیتی ہے اور انسانیت کی نمود ملتی ہے وہ سراسر ان انبیاء ک اور ثہ ہے کیونکہ اگر یہ نہ ہوتے تو ہم اس رہنمائی سے یکسر محروم رہ جاتے۔ (ماخوذ از خطباتِ مؤلف) آیت میں دوسرے سوال کا جواب جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق اپنی مخلوقات پر اس قدر مہربان اور قریب ہے کہ جس طرح وہ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اپنی مخلوقات کو راستہ دکھاتا ہے۔ اسی طرح جب زمین سورج کی تپش اور دھوپ کی شدت سے جلنے لگتی ہے اور کہیں دور دور تک بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دیتا تو وہ زمین کے خشک ہوجانے کے بعد موسمی ہَوائوں کو اپنے ابررحمت کی بشارت بنا کر بھیجتا ہے اور پھر اس کا ابرکرم اس کی رحمت کو اس طرح چھم چھم برساتا ہے کہ جل تھل ایک ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ تم صرف ابررحمت سے برسنے والی رحمت کے مزے لوٹتے ہو لیکن یہ کبھی نہیں دیکھتے کہ بشارت بن کر آنے والی ہَوائیں کس طرح بادلوں کے ٹکڑوں کو جمع کرتی ہیں، پھر ان کو کس طرح تہ بہ تہ گہرا کردیتی ہیں۔ پھر وہ کون ہے جو ان دبیز بادلوں کو جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے اور برسا دیتا ہے۔ اندازہ کیجیے آسمان، زمین، ابر، ہوا باہمی تخالف کی نسبت رکھتے ہیں، لیکن ان ہی عناصرِمختلفہ کو توافق اور ہم آہنگی کی زنجیر میں کون باندھتا ہے۔ کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آسمان کا خدا الگ ہے اور زمین کا الگ۔ ابر کے دیوتا اور ہیں اور ہَوائوں کے اور۔ اگر ایسا ہوتا تو ان اجزائے مختلفہ کو رحمت کا ذریعہ بننے پر کون مجبور کرسکتا۔ دیوتا آپس میں لڑتے، خدائوں کے ارادے باہم متصادم ہوتے تو بجائے ابر رحمت برسنے کے اہل زمین پر آگ برستی۔ جو شخص بھی اس صورتحال پر غور کرے گا وہ یقینا اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اس کائنات کا ایک ہی معبود ہے۔ اور کائنات کی ہر چیز اس کے تصرف میں ہے۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ مشرکین نہ جانے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو کیسے اِلٰہ مانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار نے ٹھیک فرمایا کہ تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے اور بہت کم غور و فکر کرتے ہو۔
Top