Ruh-ul-Quran - An-Naml : 64
اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمَّنْ : بھلا کون يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر وہ اسے دوبارہ (زندہ) کریگا وَمَنْ : اور کون يَّرْزُقُكُمْ : ت میں رزق دیتا ہے مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے وَالْاَرْضِ : اور زمین ءَاِلٰهٌ : کیا کوئی معبود مَّعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ قُلْ : فرما دیں هَاتُوْا : لے آؤ تم بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
بھلا کون ہے جو خلق کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرے گا، اور کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، کہہ دیجیے کہ تم اپنی دلیل لائو اگر تم سچے ہو
اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَمَنْ یَّرْزُقُـکُمْ مِّنَ السَّمَـآئِ وَالْاَرْضِ ط ئَ اِلٰـہٌ مَّعَ اللّٰہِ ط قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (النمل : 46) (بھلا کون ہے جو خلق کی ابتداء کرتا ہے اور پھر اس کا اعادہ کرے گا، اور کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، کہہ دیجیے کہ تم اپنی دلیل لائو اگر تم سچے ہو۔ ) اللہ تعالیٰ کی صفت ابتداء خلق اور اعادہ خلق کی وضاحت یہ سادہ سی بات جس کو ایک جملے میں بیان کردیا گیا ہے اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجودِاِلٰہ اور وحدت اِلٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے۔ انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے۔ اس وقت تک مسلّم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بےجان مادے کی محض ترکیب سے خودبخود جان پیدا نہیں ہوسکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیرعلمی مفروضہ تو ضرور ہے لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق (Lawof Chance) کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں (Laboratories) میں بےجان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی کوششیں بھی کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود وہ سب قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز پیدا کی جاسکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں (D.N.A) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جوہرِحیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں ہے۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جاسکی کہ یہ ایک خالق کے امروارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد آگے دیکھیے۔ زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں بلکہ بیشمار متنوع صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریباً 10 لاکھ اور نباتات کی 2 لاکھ انواع کا پتہ چلا ہے۔ یہ لکھوکھا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں، اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آرہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے (Design) کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کردینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہو۔ متحجرات (Fossils) کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثیٰ مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے، اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے، اور ہر وہ افسانہ جو کسی مفقود کڑی کے بہم پہنچ جانے کا وقتاً فوقتاً سنا دیا جاتا ہے، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت تک یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع حکیم، ایک خالق الباریٔ المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوع صورتیں عطا کی ہیں۔ یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ۔ اب ذرا عادہ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل (Mechanism) رکھ دیا ہے جو اس کے بیشمار افراد میں سے بےحد و حساب نسل ٹھیک اسی کی صورت نوعیہ اور مزاج و خصوصیات کے ساتھ نکالتا چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانہ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے۔ جدید علم تناسل (Genetics) کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کا ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے (Cell) کے ایک حصہ میں ہوتا ہے جسے بمشکل انتہائی طاقتور خوردبین سے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینئر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشو و نما کو حتما ًاسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانہ سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں انھوں نے گیہوں ہی پیدا کیا ہے، کسی آب و ہوا اور کسی ماحول میں یہ حادثہ کبھی رونما نہیں ہوا کہ دانہ ٔ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانہ ٔ جو پیدا ہوجاتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ ناقابلِ تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادہ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے، اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بےانتہا لطیف و پرپیچ عملیات (Progresses) کو دیکھیے جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخم تناسل اسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خودبخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتداء کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک ناظم و مدبر اور ایک حیی وقیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و رہنمائی سے غافل نہ ہو۔ یہ حقائق ایک دہریئے کے انکارِخدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی۔ کون احمق یہ گمان کرسکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے۔ اور کون صاحب عقل آدمی تعصب سے پاک ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانہ خلق و اعادہ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاً شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جارہا ہے۔ (تفہیم القرآن) اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقی کی وضاحت اس آیت کریمہ میں دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ تمہیں آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے ؟ یہ سوال بظاہر بہت سادہ سا ہے لیکن حقیقت میں اس کا جواب نہایت مشکل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا دسترخوانِ ربوبیت صرف زمین پر ہی بچھا ہوا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت سمندروں اور آسمانوں تک دراز ہے۔ اور پھر اس دسترخوان سے فیض یاب ہونے والی مخلوقات میں صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات کی لاکھوں انواع اور نباتات کی لاکھوں اجناس شامل ہیں۔ ان غذائوں سے بہرہ ور ہونے والے حیوانات اور دیگر مخلوقات کے افراد اربوں سے بھی فزوں تر ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ الگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ تمام کی غذائی ضروریات کا اندازہ کرسکے اور ان میں باہمی جو فرق پایا جاتا ہے اس کا تعین ہوسکے۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر مخلوق کو اس کی ضرورت اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نہ صرف غذا ملتی ہے بلکہ اس کی حفاظت کا سامان بھی ہوتا ہے۔ اور اس سے بھی مزید حیران کن بات یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے غذائی انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل کر کام کرتی ہیں کہ جن کا شمار مشکل ہے۔ اور ان قوتوں میں بظاہر تخالف کی نسبت پائی جاتی ہے لیکن یہ اپنا فرض انجام دینے میں کامل ہم آہنگی رکھتی ہیں۔ اگر کہیں ان کے توافق میں کمی آجائے یا کہیں تناسب کمزور پڑجائے تو غذا کا ایک ذرہ بھی وجود میں نہیں آسکتا۔ اسرائیلی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر جب نبوت کی ذمہ داریاں تفویض کی جارہی تھیں اور فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا جارہا تھا تو آپ ( علیہ السلام) نے عرض کیا کہ پروردگار ! میں پیچھے درے میں اپنے اہل خانہ کو چھوڑ آیا ہوں۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کی غذا اور سکونت کا کوئی انتظام کرلوں تو پھر عازم مصر ہوں گا۔ پروردگار نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم تمہارے اہل خانہ کی ضرورتوں سے غافل ہیں۔ حکم دیا کہ جس چٹان پر کھڑے ہو اس پر اپنا عصاء مارو۔ چٹان ٹوٹی تو اس کے نیچے ایک چھوٹی چٹان نظر آئی۔ فرمایا کہ اس پر بھی ضرب لگائو۔ اس کے نیچے ایک بڑا پتھر دکھائی دیا۔ فرمایا اسے بھی توڑو۔ جب وہ پتھر ٹوٹا تو اس کے اندر ایک جانور نظر آیا جس کے منہ میں تازہ کھ اس کی پتی تھی اور وہ کھا رہا تھا۔ پروردگار نے فرمایا، موسیٰ یہ بھی ہماری مخلوق ہے، ہم تین پتھروں کے نیچے اسے دیکھتے اور اسے غذا مہیا کرتے ہیں۔ تو کیا تیرے اہل خانہ کی ضروریات کی ہم کفالت نہیں کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ رزق کا ایسا وسیع انتظام پروردگارِ عالم کی قدرت و حکمت کے سوا کسی اور کے بس میں کہاں۔ تم کس برتے پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود بناتے ہو۔ آخر میں فرمایا کہ یہ چند سوالات ہیں جن کا ہر اس شخص کو جواب دینا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتا ہے۔ اور ان لوگوں کو بھی جواب دینا چاہیے جو ان صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔
Top