Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 44
وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِیْنَۙ
وَمَا كُنْتَ : اور آپ نہ تھے بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ : مغربی جانب اِذْ : جب قَضَيْنَآ : ہم نے بھیجا اِلٰى مُوْسَى : موسیٰ کی طرف الْاَمْرَ : حکم (وحی) وَ : اور مَا كُنْتَ : آپ نہ تھے مِنَ : سے الشّٰهِدِيْنَ : دیکھنے والے
اور اے پیغمبر ! آپ اس وقت پہاڑ کے مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا اور نہ آپ ان لوگوں میں تھے جو وہاں موجود تھے
وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْقَضَیْنَـآ اِلٰی مُوْسَی الْاَمْرَ وَمَا کُنْتَ مِنَ الشّٰھِدِیْنَ ۔ (القصص : 44) (اور اے پیغمبر ! آپ اس وقت پہاڑ کے مغربی گوشے میں موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کو یہ فرمانِ شریعت عطا کیا اور نہ آپ ان لوگوں میں تھے جو وہاں موجود تھے۔ ) یہاں سے خاتمہ سورة کی آیات شروع ہورہی ہیں۔ یہ پہلی تین آیتیں آنحضرت ﷺ کی طرف التفات کی نوعیت کی ہیں جن میں آپ ﷺ کی نبوت کے ایسے دلائل دیئے گئے ہیں جو نہایت سادہ لیکن فطرت کے دروازے پر دستک دینے والے ہیں۔ یہ چونکہ مکی سورة ہے اس لیے اس میں براہ راست کلام کا رخ قریش کی طرف ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہود کو بھی سنایا جارہا ہے کیونکہ وہ بھی بہت حد تک حق و باطل کی کشمکش میں شریک ہوچکے اور قریش کو اعتراضات کا مواد فراہم کرنے میں شامل ہوچکے تھے۔ دونوں کو توجہ دلانے اور انکار کی صورت میں اتمامِ حجت کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اے پیغمبر ﷺ ! کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو احکامِ شریعت دینے کے لیے جبلِ طور پر بلایا گیا تھا اور جبلِ طور چونکہ علاقہ حجاز کے مغربی جانب واقع ہے اس لیے اسے مغربی گوشہ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ تو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ اور اسی طرح بنی اسرائیل کے ان ستر نمائندوں کو جن کو شریعت کی پابندی کا عہد لینے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بلایا گیا تھا، آپ ﷺ تو ان میں بھی موجود نہیں تھے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ کو حضرت موسیٰ اور ان پر نازل کی جانے والی کتاب، اور کتاب کے اترنے کی جگہ اور بنی اسرائیل کے تذبذب کے نتیجے میں ان کے نمائندوں کی جبلِ طور پر حاضری اور پھر وہاں پر پیش آنے والے واقعات، نیز تورات کی تفصیلات جن کا جابجا آپ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، کس ذریعے سے آپ تک پہنچیں جبکہ عرب کا گوشہ گوشہ ہمیشہ ان تفصیلات سے بیخبر رہا۔ آپ کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے آپ کی رسائی ان معلومات تک ہوسکتی ہے۔ آپ امی ہونے کی وجہ سے اہل کتاب کے علمی ذخیرہ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جو شخص بھی غیرجانبداری سے اس بات پر غور کرے گا، اسے یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ صدیوں پہلے پیش آنے والے واقعات کی حتمی اور قطعی خبر وحی الٰہی کے سوا اور کسی ذریعے سے نہیں مل سکتی۔
Top