Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم مسلسل بھیجتے رہے ان کی طرف اپنا کلام تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَہُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ ۔ (القصص : 51) (اور ہم مسلسل بھیجتے رہے ان کی طرف اپنا کلام تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔ ) ہدایت کی تعلیم و تذکیر کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا سابقہ آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کے راہ ِ راست پر چلنے اور صحیح رویہ کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہَوائے نفس کی پیروی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو راستے سے بھٹکاتی، حق کا دشمن بناتی اور عقل کو اپنا صحیح رول ادا کرنے سے روکنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کا علاج اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے جو ہدایت کا راستہ روشن کیا ہے اس کا اتباع کیا جائے اور ہرحال میں حق اور اہل حق کو رہنما بنایا جائے۔ اسی کے نتیجے میں انسانیت کی بقاء اور انسانی اقدار کی جلا کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن کریم ہدایت سے تعبیر کرتا ہے۔ تو انسان کے بہتر مستقبل کی ضمانت بلکہ انسان کی فلاح و کامرانی کا دارومدار چونکہ اسی ہدایت کو قبول کرنے پر ہے اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ ہم نے ہدایت کی تعلیم و تذکیر کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہونے دیا بلکہ اس کے تسلسل کو برابر قائم رکھا۔ ہر رسول کی تعلیمات کے گم ہوجانے یا بےاثر ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیا رسول، نئی کتاب اور نئی شریعت لے کے آجاتا۔ اس طرح اس سلسلے میں کبھی انقطاع ہونے میں نہیں آیا۔ چناچہ اسی تسلسل کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کردہ کتاب کو اس کے حاملوں نے پس پشت ڈال دیا اور جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حکمت شریعت کو نظرانداز کردیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے محمد کریم ﷺ کو اس نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اور جو ہدایت پہلی کتابوں میں انسانوں کو عطا کی گئی تھی اسی کو قرآن کریم کی شکل میں نئے اسلوب سے جامعیت اور کاملیت کے ساتھ نازل فرمایا۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں، وہی جانے پہچانے حقائق ہیں۔ البتہ انسانوں کے ذہنی افق میں ارتقاء کے باعث جو تبدیلی آرہی ہے قرآن کریم ان تمام تبدیلیوں کا جواب اور تمام امراض کا شافی علاج بن کر نازل ہوا ہے۔ اہل کتاب چونکہ دین کے بنیادی حقائق سے آگاہ ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ پیش قدمی کریں اور اس نعمت کو دوسروں سے آگے بڑھ کر قبول کریں جو انھیں پہلے ناتمام شکل میں مل چکی ہے، اور اب وہ کامل شکل میں جلوہ گر ہوئی ہے۔ اور بنی اسماعیل کو اس لیے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ براہ راست ان کو اپنی اس عظیم نعمت کا مورد بنایا ہے جبکہ وہ آج تک براہ راست اس نعمت سے کبھی مشرف نہیں ہوئے۔
Top