Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 78
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ١ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ
قَالَ : کہنے لگا اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دیا گیا ہے عَلٰي عِلْمٍ : ایک علم (ہنر) سے عِنْدِيْ : میرے پاس اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمْ : وہ نہیں جانتا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ قَدْ اَهْلَكَ : بلاشبہ ہلاک کردیا مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنَ : سے (کتنی) الْقُرُوْنِ : جماعتیں مَنْ : جو هُوَ اَشَدُّ : وہ زیادہ سخت مِنْهُ : اس سے جو قُوَّةً : قوت میں وَّاَكْثَرُ : اور زیادہ جَمْعًا : جمعیت وَلَا يُسْئَلُ : اور نہ سوال کیا جائے گا عَنْ : سے (بابت) ذُنُوْبِهِمُ : ان کے گناہ الْمُجْرِمُوْنَ : (جمع) مجرم
قارون نے کہا ! یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بناء پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے، کیا اس نے یہ نہیں جانا کہ اللہ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت میں اس سے بڑھ کر اور جمعیت میں اس سے زیادہ تھی اور مجرموں سے ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے
قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّمِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا ط وَلاَ یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوَنَ ۔ (القصص : 78) (قارون نے کہا ! یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بناء پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے، کیا اس نے یہ نہیں جانا کہ اللہ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکا ہے جو قوت میں اس سے بڑھ کر اور جمعیت میں اس سے زیادہ تھی اور مجرموں سے ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے۔ ) قارون کا جواب قارون نے نصیحت کے جواب میں یہ کہا کہ یہ مال و متاع مجھے جو حاصل ہے یہ سب میرے حُسنِ تدبیر اور کمال علم کا نتیجہ ہے۔ میں نے خود اپنی محنت اور دماغ سوزی سے کمایا ہے، اس کا اللہ تعالیٰ سے کیا تعلق۔ چونکہ اس نے مجھے میری محنت اور حُسنِ تدبیر سے ہٹ کر براہ راست اسباب سے ماورا کوئی چیز عطا نہیں کی، تو اس کے حقوق مجھ پر کیسے عائد ہوگئے۔ اور جب اس کے مجھ پر کوئی حقوق نہیں تو اس کی مخلوق کے حقوق بھی مجھ پر عائد ہونے کا کوئی معنی نہیں۔ یہ دولت میری ہے اور میری محنت اور دماغ سوزی کا نتیجہ ہے، اس لیے اس میں مجھے بجاطور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ میں اس میں مکمل آزادی کے ساتھ اپنی مرضی بجا لائوں اور کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ اُوْتِیْتُہٗ کے لفظ سے یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید اس آیت کا یہ مفہوم ہو کہ یہ دولت مجھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دی گئی ہے لیکن ان اوصاف اور اس علم کی وجہ سے دی گئی ہے جو مجھے حاصل ہے۔ یقینا وہ اوصاف اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں گے۔ اس لحاظ سے میں اس کا پسندیدہ بندہ ہوں۔ اگر میں اس کی نگاہ میں پسندیدہ نہ ہوتا تو وہ نعمتوں کی بارش اس طرح مجھ پر نہ کرتا۔ بنابریں میں جس طرح اپنی دولت کو خرچ کررہا ہوں یہی وہ صحیح طریقہ ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ اَوَلَمْ یَعْلَمْ … قارون کے قول پر یہ اللہ تعالیٰ کا تبصرہ ہے۔ یہ بدنصیب شخص یہ سمجھتا ہے کہ مجھے دولت کا ملنا گویا میرے پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے اور میں نے یہ سب کچھ اپنے علم اور اپنی صلاحیت سے پیدا کیا ہے۔ اس لیے اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو بہت عالم و فاضل اور دانا و بینا سمجھتا ہے۔ لیکن اس بیوقوف نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس سے پہلے کتنے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جو قوت و جمعیت میں اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے چشم زدن میں ان کو تباہ کردیا۔ اور اگر قارون کی تباہی کا یہ واقعہ فرعون کی تباہی کے بعد پیش آیا ہے تو پھر کس قدر حماقت کی بات ہے کہ فرعون اس سے کہیں بڑھ کر وسائل کا مالک اور اسلحہ و قوت رکھنے والا اور مصر جیسی مضبوط حکومت کا مطلق العنان حکمران تھا۔ اور افرادی قوت کی بھی اس کے پاس کوئی کمی نہ تھی۔ باایں ہمہ جب قدرت نے اسے پکڑا تو کوئی اس کی مدد کو نہ پہنچ سکا۔ تو قارون خدا جانے کس خواب و خیال میں ہے ؟ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے سامنے بڑے سے بڑے مجرموں کی بےبسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب مجرموں کو پکڑنے کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اسے اسباب کی فراہمی کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور نہ وہ مجرموں کو سنبھلنے کا موقع دیتا ہے۔ اور اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی مجرم سے اس کے جرم کے بارے میں سوال کرے۔ وہ خالق ومالک ہے، وہ جرائم کی تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کا علم محیط خود اس کی سب سے بڑی سند ہے۔ اور قیامت کے دن ہر مجرم کی پیشانی، اس کے ہاتھ پائوں اور اس کے اعضاء وجوارح خود اس کیخلاف گواہی دیں گے۔
Top