Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 60
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ یَرْزُقُهَا وَ اِیَّاكُمْ١ۖ٘ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ دَآبَّةٍ : جانور جو لَّا تَحْمِلُ : نہیں اٹھاتے رِزْقَهَا : اپنی روزی اَللّٰهُ : اللہ يَرْزُقُهَا : انہیں روزی دیتا ہے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو بھی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی، اور وہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے
وَکَاَیِّنْ مِّنْ دَآبَّۃٍ لاَّ تَحْمِلُ رِزْقَھَا صلے ق اَللّٰہُ یَرْزُقُھَا وَاِیَّاکُمْ صلے ز وَھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (العنکبوت : 60) (اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ان کو بھی رزق دیتا ہے اور تم کو بھی، اور وہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ) اللہ تعالیٰ کی زمین کی طرح اس کا خوان کرم بھی وسیع ہے ہجرت کرنے والے کے لیے دو پریشانیاں مستقل تشویش کا باعث ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اپنا وطن، گھر بار اور اپنی قوم چھوڑنے کے بعد نجانے کہیں کوئی مستقر مل سکے گا یا نہیں۔ کوئی ٹھکانہ ہاتھ آئے گا تو کیسا ہوگا، کیسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ گزشتہ آیت کریمہ میں اس کا اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ میری راہ میں ہجرت کرنے والے میرے بندے ہیں، انھیں اطمینان ہونا چاہیے کہ میری زمین ان کے لیے بڑی وسیع ہے۔ جب وہ مجھ پر بھروسا کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوں گے تو میری زمین ان کے لیے اپنی آغوش کھول دے گی۔ انھیں ایسے ٹھکانے میسر آئیں گے جن کا انھیں سان گمان بھی نہیں ہوگا۔ اور ایسے مسافر نواز ملیں گے جو کافر قوم سے ہزار درجہ بہتر ہوں گے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں دوسری پریشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اطمینان دلایا ہے کہ تم روزگار کی فکر کرتے ہو اور تمہیں اندیشہ ہے کہ نئے شہر اور نئے وطن میں کھائیں پئیں گے کہاں سے۔ یہاں سے تو ہم خالی ہاتھ نکلیں گے تو وہاں ہماری معاش کی فکر کون کرے گا۔ اس فکر کے علاج کے لیے فرمایا کہ تم دیکھتے ہو کہ بیشمار چرند و پرند، آبی حیوانات اور مختلف قسم کے جانور تمہارے سامنے ہَوا، خشکی اور پانی میں پھر رہے ہیں۔ ان کے معاش کا انتظام کون کرتا ہے۔ ان میں سے کون ایسا ہے جس کی کمر پر اس کا رزق لدا ہوا ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اپنے گھونسلوں، اپنی کچھاروں اور اپنے بھٹوں سے نکلتے ہیں اور کسی کو اس میں شبہ نہیں ہوتا کہ ہم خالی پیٹ واپس آئیں گے۔ شام کو جب یہ لوٹتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ آخر انھیں کون رزق دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے، اسی طرح اس کا خوان کرم بھی بہت کشادہ ہے۔ کتنے بڑے تن و توش کے جانور ہیں جن کی غذا کئی انسانوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور سمندر میں کتنی ایسی مخلوقات ہیں جن کی غذا سینکڑے لوگوں سے زیادہ ہوگی۔ لیکن ان میں سے کسی کو کبھی بھوکا نہیں دیکھا گیا۔ اور نہ یہ نظر آتا ہے کہ ان کے لیے رزق کے گودام الگ بھر کے رکھے گئے ہوں اور انھیں اطمینان ہو کہ ہم یہاں سے اپنا رزق حاصل کرلیں گے۔ بس انھیں صرف ایک اطمینان ہے کہ جس پروردگار نے پیدا کیا ہے وہ ہمیں روزی بھی دے گا۔ اسی اطمینان سے وہ اچھلتے کودتے، خوشیاں مناتے زندگی گزار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی ہدایت کے لیے جانے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے عرض کیا کہ الٰہی ! تعمیلِ ارشاد سے انکار نہیں، لیکن میں پیچھے پہاڑوں میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں میں آگ کی تلاش میں آیا تھا تاکہ سردی سے بچائو کا ان کے لیے کوئی انتظام کردوں۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں کوئی ٹھکانہ تلاش کرکے ان کو وہاں ٹھہرا دوں اور پھر اطمینان سے فرعون کے پاس جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم جس چٹان پر کھڑے ہو اس پر عصا مارو۔ چٹان پھٹی تو نیچے ایک چھوٹی چٹان نظر آئی۔ حکم ہوا اس پر بھی عصا مارو۔ وہ بھی پھٹی۔ اس کے نیچے ایک پتھر دکھائی دیا۔ حکم ہوا کہ اس پر بھی ضرب لگائو۔ پتھر ٹوٹا تو اس کے نیچے سے ایک جانور نکلا جو تازہ گھاس کھا رہا تھا۔ پروردگار نے فرمایا کہ میں اگر تین پتھروں کے نیچے ایک جانور کو غذا دے سکتا ہوں تو کیا تمہارے بیوی بچوں کو غذا نہیں دوں گا۔ یہی وہ سہارا ہے جو بےسہارا انسان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ بشرطیکہ انسان اس بات پر یقین پیدا کرلے کہ میں جس اللہ کے بھروسے پر نکلا ہوں وہ جس طرح حیوانوں کو رزق دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی دے گا۔ میں جب بھی اسے پکاروں گا، وہ میری پکار سنے گا۔ اور میری حالت جو بھی ہوگی وہ کبھی اس سے بیخبر نہیں ہوگا۔
Top