Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 123
وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ نَصَرَكُمُ : مدد کرچکا تمہاری اللّٰهُ : اللہ بِبَدْرٍ : بدر میں وَّاَنْتُمْ : جب کہ تم اَذِلَّةٌ : کمزور فَاتَّقُوا : تو ڈروا اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : شکر گزار ہو
اور اللہ نے تمہاری مدد بدر میں بھی کی جبکہ تم نہایت کمزور تھے۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اس کے شکر گزار رہ سکو
وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍوَّاَنْتُمْ اَذِلَّـۃٌ ج فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ (اور اللہ نے تمہاری مدد بدر میں بھی کی جب کہ تم نہایت کمزور تھے۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اس کے شکر گزار رہ سکو) (123) غزوہ بدر سے استدلال گزشتہ آیت کریمہ میں آخر میں فرمایا کہ صاحب ایمان لوگوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اس بھروسے کے نتیجے میں کیا ملتا ہے ؟ اور کیسے کچھ انعامات اللہ کی جانب سے اترتے ہیں ؟ اس کے لیے جنگ بدر کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی اَذِلَّـۃٌ کا لفظ بول کر اس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی وہ بھی مسلمانوں کے سامنے رکھ دی۔ اَذِلَّـۃٌ ذلیل کی بھی جمع ہے اور ذلول کی بھی۔ یہ لفظ عزیز کے مقابل استعمال ہوتا ہے۔ عزیز کے معنی ہیں، غالب، زور آور اور دوسروں کی دسترس سے باہر۔ اس کے متضاد کے طور پر ذلیل کے معنی ہیں کمزور، ناتواں اور دوسروں کے لیے لقمہ تر۔ جس معنی میں ہم ذلیل کا لفظ اردو میں بولتے ہیں عربی میں جب یہ عزیز کے متضاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو پھر اس کا وہ معنی نہیں ہوتا یعنی اسے اخلاقی طور پر کمزور اور کمینے آدمی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس آدمی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو یا تو کمزور ہو یا نہایت نرم خو اور سہل الحصول ہو۔ سورة مائدہ میں مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا : اَذِلَّـۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْـکَافِرِیْنَ (وہ مسلمانوں کے لیے نہایت نرم اور کافروں کے لیے نہایت سخت ہیں) اگر کافر انھیں اپنی خواہشات کے لیے استعمال کرنا چاہیں تو وہ پتھر کی چٹان ہیں، لیکن مسلمانوں کے لیے وہ ریشم سے بھی زیادہ نرم اور پھول کی پتی سے زیادہ نازک ہیں۔ تو آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدر میں اس وقت تمہاری مدد کی جب تم انتہائی کمزور تھے۔ تعداد بھی کم تھی اسلحہ جنگ نہ ہونے کے برابر تھا اور تمہارا مقابل ہر اعتبار سے ایسا تھا کہ اس کے شکست کھا جانے کی کوئی شخص بھی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ ایسے ناموافق حالات میں اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرچکا ہے تو اب کیوں نہیں کرے گا۔ اس لیے تمہیں منافقین کے الگ ہوجانے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ پر تمہارا توکل اور بڑھ جانا چاہیے۔
Top