Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں، بیشک اللہ نہایت ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے
وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۔ (الاحزاب : 34) (یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں، بیشک اللہ نہایت ہی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے۔ ) وَاذْکُرْنَ … یہ جمع مونث حاضر امر کا صیغہ ہے، جس کے دو معنی ہوسکتے ہیں 1 یاد کرو یا یاد رکھو۔ 2 بیان کرو۔ ازواجِ مطہرات کا مقصدزندگی ناچیز کی رائے میں دونوں ہی معنی مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے رسول، معلم، مربی اور مزکی بنا کے بھیجا تھا۔ آپ ﷺ جس طرح مردوں کی رہنمائی کرتے تھے اسی طرح عورتوں کی بھی رہنمائی فرماتے تھے۔ آپ گھر سے باہر مردوں کو تعلیم دیتے تھے اور گھر کے اندر عورتوں کو تعلیم دیتے تھے۔ وحی باہر بھی آپ پر اترتی تھی اور گھر کے اندر بھی اترتی تھی۔ جس طرح آپ کا ہر قول لوگوں کے لیے تعلیم و ہدایت تھا، اسی طرح آپ کا ہر عمل بھی لوگوں کے لیے اسوہ و نمونہ تھا۔ آپ کی زندگی ایک اکائی تھی جس میں پرائیویٹ اور پبلک کی تقسیم نہ تھی۔ آپ کی حیات مبارکہ کا ہر لمحہ امت کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ جس طرح باہر کی زندگی میں آپ کی تعلیم، آپ کے ایک ایک عمل اور آپ کی ایک ایک ادا کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا گیا تھا یعنی صحابہ کرام شب و روز اسی دھن میں لگے رہتے تھے اور اصحابِ صفہ کو تو اس کام کے سوا کوئی کام ہی نہ تھا۔ اسی طرح آپ کے گھر کے اندر کی زندگی کو بھی محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ آپ کو چار سے زیادہ شادیوں کا حکم دیا گیا اور ازواجِ مطہرات کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ آپ کی تعلیم و تربیت اور آپ کے قول و عمل اور ہر ادا کو یاد بھی کریں اور دوسروں تک پہنچانے کا انتظام بھی کریں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا علم و عمل جتنا آپ کی ازواجِ مطہرات کے ذریعے سے محفوظ اور عام ہوا اس کی مقدار صحابہ کے ذریعے پھیلے ہوئے علم سے کسی طرح کم نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کی تعلیم و تربیت کے ضروری مسائل مردوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچے اور عورتوں کے مسائل اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے ضروری ہدایات ازواجِ مطہرات کے ذریعے امت تک پہنچیں۔ اور پھر اس تعلیم و تربیت میں صرف وہی وحی شامل نہیں جو قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوئی بلکہ وہ وحی غیرمتلو بھی شامل ہے جسے حدیث اور سنت اور حکمت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ آیت کریمہ میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور حکمت سے مراد حدیث اور سنت اور آپ کا وہ طرز عمل ہے جس کی کیفیات کو ازواجِ مطہرات نے امت تک پہنچایا۔ بعض لوگوں نے مَایُتْلٰی کے لفظ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکمت سے مراد بھی قرآن کریم ہی ہے۔ کیونکہ تلاوت صرف قرآن کریم کی ہوتی ہے اور کسی چیز کی نہیں۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ تلاوت کا لفظ قرآن کریم کے لیے مخصوص کرنا بعد کی اصطلاح ہے جو علمی آسانی کے لیے پیدا کی گئی۔ ورنہ قرآن کریم نے اس کو دوسری چیزوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ کی آیت 102 میں ارشاد فرمایا گیا ہے وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیَاطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمَانَ ” انھوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کرکے۔ “ اس آیت کریمہ میں تلاوت کے لفظ کو قرآن کریم کے لیے نہیں، جادو کے ان منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمان کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو سناتے تھے۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ لطیف اور خبیر ہے۔ یعنی ازواجِ مطہرات جو عظیم ذمہ داری اپنے گھروں میں بیٹھ کر انجام دیں گی وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہے گی، کیونکہ وہ بہت باریک بین اور بہت باخبر ہے۔ وہ ان کے ہر عمل اور ہر ضرورت سے اچھی طرح باخبر ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ قرآن و حکمت کی حفاظت اور اشاعت میں وہ جس طرح ہمت سے بڑھ کر محنت کررہی ہیں تاریخ میں اس کے نتائج کیا نکلیں گے اور امت کی تعلیم و تربیت میں اس کا کتنا بڑا حصہ ہوگا۔ اس لیے انھیں چاہیے کہ اس کے بھروسے پر اپنا فرض انجام دیتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں انھیں بیش بہا اجروثواب دینے والا ہے۔
Top