Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 11
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ
قُلْ : فرما دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کروں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
اے نبی کہہ دیجیے ! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ ہی کی بندگی کروں، اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے
قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰہَ مُخْلِصًا لَّـہُ الدِّیْنَ ۔ وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ (الزمر : 11، 12) (اے نبی کہہ دیجیے ! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ ہی کی بندگی کروں، اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں۔ ) مخالفین سے بےنیازی مسلمانوں کے لیے کلماتِ تحسین اور ان کے لیے بےحد و حساب اجروثواب کی بشارت دینے کے بعد آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جارہا ہے کہ حالات چاہے کیسے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں آپ مخالفین کو صاف صاف بتادیں کہ افہام و تفہیم اور ابلاغ و تبلیغ میری ذمہ داری ہے اس کے لیے میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی اور آئندہ بھی اسے جاری رکھوں گا۔ لیکن تمہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ دین اپنی فلاح و کامرانی کے لیے تمہارا محتاج نہیں۔ تم اسے مانو یا نہ مانو، اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو یا نہ کرو مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی کروں، اس کے لیے دین یعنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ تم نے اللہ تعالیٰ کی بندگی میں نہ جانے کس کس کو شریک کر رکھا ہے۔ اور جہاں تک اطاعت کا تعلق ہے وہ تم صرف اپنی خواہشاتِ نفس کی کرتے ہو۔ لیکن میرا طریقہ بالکل واضح ہے۔ میں نہ تو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں کسی کو شریک کرنے کے لیے تیار ہوں اور نہ میں عبادت و اطاعت میں فرق کرنے کا مجاز ہوں۔ میری وہ عبادت اور بندگی بالکل بےمعنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی غیرمشروط اطاعت شامل نہیں۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وہ اطاعت بھی اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتی جہاں اس کی عبادت خالص اس کے لیے اور ہر آلودگی سے پاک اور صاف نہ ہو۔ اسی طرح مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بنوں، یعنی میں سب سے پہلے اسلام کا قلادہ اپنے گلے میں ڈالوں۔ ان دونوں آیتوں میں دو حکم دیئے گئے ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی بندگی کا، اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اور اسی کے لیے اسلام لانے کا۔ گویا دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ ہی پر ایمان رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا دین جسے اسلام کہا گیا ہے اسی کا قلادہ اپنے گلے میں ڈالتا ہوں۔ میں جس طرح اپنے رب کا بندہ ہوں اور اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرتا، اسی طرح میں مسلم ہوں کسی اور مذہب اور نظام زندگی کو میں قبول نہیں کرتا۔ اسلام کا معنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح میرا دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے آباد اور میرے اعضاء وجوارح اسی کی اطاعت میں متحرک اور خمیدہ ہیں، اسی طرح میں اپنا سب کچھ اس کے سپرد کرچکا ہوں، میری ذات بھی اسی کے حوالے ہے اور میرا مال بھی اسی کا ہے اور مجھے ان دونوں باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔
Top