بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگ اتَّقُوْا : ڈرو رَبَّكُمُ : اپنا رب الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے نَّفْسٍ : جان وَّاحِدَةٍ : ایک وَّخَلَقَ : اور پیدا کیا مِنْھَا : اس سے زَوْجَهَا : جوڑا اس کا وَبَثَّ : اور پھیلائے مِنْهُمَا : دونوں سے رِجَالًا : مرد (جمع) كَثِيْرًا : بہت وَّنِسَآءً : اور عورتیں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو تَسَآءَلُوْنَ : آپس میں مانگتے ہو بِهٖ : اس سے (اس کے نام پر) وَالْاَرْحَامَ : اور رشتے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلَيْكُمْ : تم پر رَقِيْبًا : نگہبان
(اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلا دیئے بہت سے مرد اور عورتیں اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطہ سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور قرابتوں کے باب میں بھی اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَـکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْـکُمْ رَقِیْبًا (اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلا دیئے بہت سے مرد اور عورتیں اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطہ سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور قرابتوں کے باب میں بھی اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے) (النسآء : 1) اسلوبِ قرآن کا ایک انداز قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جب وہ اسلام کے اساسی اصولوں کی طرف دعوت دیتا ہے اور یا ایسی بنیادی حقیقت کی طرف بلاتا ہے جس پر مسلم اور غیر مسلم کی زندگی کی کامیابی اور بقا کا دارومدار ہے تو وہ خطاب صرف مسلمانوں سے نہیں کرتا بلکہیٰٓاَیُّھَا النَّاسْ کہہ کر تمام نوع انسانی کو مخاطب کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی اصول کے تحتیٰٓاَیُّھَا النَّاسْکہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں جن حقائق کی طرف نوع انسانی کو بلایا گیا ہے وہ انسانوں کی زندگی اور بقا کے لیے اس حد تک لازمی ہیں کہ ان کے بغیر انسانی زندگی کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ لوگو ! اپنے اس رب سے ڈروجس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ انسانی فطرت جب تک سلامت ہے اور انسانی عقل صحیح نہج پر کام کرتی ہے اس وقت تک انسان کے لیے اس بات کا انکار کرنا کہ میں ایک مخلوق ہوں اور اللہ ہی میرا خالق ہے کسی طرح ممکن نہیں۔ جدید اور قدیم فلسفے ہزار سر ماریں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں اور اس پر مزید دلیل یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اگر تمہارا خالق کوئی اور ہوتا تو وہ تمہاری ربوبیت کا سامان بھی کرتا۔ تم لحد سے لے کر مہد تک دیکھتے ہو کہ ایک ہی ذات گرامی ہے جو اگرچہ تمہیں نظر نہیں آتی لیکن تم اس کی ربوبیت کے آئینے میں ہر وقت اسے اپنے دائیں بائیں محسوس کرتے ہو۔ ہر کہ بینیم در جہاں غیرے تو نیست یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ تمام مخلوقات کے بچوں میں سب سے زیادہ بےبس اور محتاج ہوتا ہے۔ مرغی کا بچہ بھی کچھ ہی دیر بعد ماں کی آواز کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے، بلی کے بچے آنکھیں کھولتے ہی ماں کے پستان چوسنے لگتے ہیں، لیکن انسان کا بچہ پیدا ہونے کے بعد بالکل نہیں جانتا کہ اس کی ماں کون ہے اور باپ کون ہے۔ اس کے اندرونی احساسات میں سے صرف اس کا وہی احساس زندہ ہے جو اسے رلا سکتا ہے۔ اس کے سوا وہ ہر احساس سے عاری ہوتا ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ اس کے حواس خمسہ میں سے سوائے ایک حس کے کوئی حس کام نہیں کرتی۔ ماں اسے جب تک اٹھا کر سینے سے نہیں لگاتی اسے نہیں معلوم اس کی غذا کا سرچشمہ کہاں ہے۔ ایسا بےحس، بےعلم، بےدانش بچہ کسی طرح بھی اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ کی ربوبیت کے قربان جائیے کہ اس کا فیضان جب وہ ماں کے پیٹ میں ہے تب بھی جاری رہتا ہے اور جب وہ دنیا میں آنے والا ہوتا ہے تب بھی کام کرتا ہے اور جب وہ دنیا میں آجاتا ہے تو پھر اس کی نمود میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے تو گویا موت اور زندگی کی کشمکش سے گزرتی ہے، لیکن وہ اس کشمکش کو زندگی کی سب راحتوں سے عزیز سمجھتی ہے۔ بچہ ابھی اس کی گود میں نہیں آتا کہ مامتا اس کے سینے میں پہلے سے مچلنے لگتی ہے۔ اور جب وہ اس بےبس بچے کو اٹھاتی ہے تو کس محبت اور دیوانگی سے اسے اپنے سینے سے لگاتی ہے اور دودھ کی صورت میں اپنا خون جگر اس کے منہ میں ٹپکا کر نہال ہوتی جاتی ہے۔ بچہ کسی بات کو نہیں جانتا لیکن جیسے ہی ماں اسے سینے سے لگاتی ہے تو وہ دودھ کی تلاش میں منہ مارنے لگتا ہے اور پھر پستان کو منہ میں لے کر اس طرح چوستا ہے کہ غذا کا یہ چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بےبس بچہ جو کچھ نہیں جانتا اسے چوس چوس کر دودھ نکالنا اور گھونٹ گھونٹ پینا کس نے سکھایا ہے۔ یہ وہ ربوبیت کا فیضان ہے جو مسلسل اپنا کام کررہا ہے۔ باپ کے سینے میں اٹھنے والی شفقت ننھیالی اور ددھیالی رشتوں کی صورت میں پہچانی جانے والی محبت یہ سب اسی ربوبیت کے کرشمے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ بڑھتا جاتا ہے ربوبیت کا فیضان ساتھ ساتھ اس کی ضروتیں پوری کرتا چلا جاتا ہے۔ جب تک اس کا معدہ کسی چیز کو قبول کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو دودھ میں دھنیت کم اور مائیت زیادہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے معدہ توانا ہوتا جاتا ہے مائیت کم اور دھنیت بڑھتی جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ بچہ دوسری غذائیں کھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زندگی کے تمام مراحل میں اللہ کی ربوبیت کو دیکھتے ہیں وہ انسان کو انگلی پکڑ کر چلاتی ہے اور پھر کبھی احساس کا چراغ بن جاتی ہے اور کبھی شعور اور دانش کا نوربن کر روشن ہوتی ہے۔ خوشیاں آتی ہیں تو خوشیوں کا احساس بن جاتی ہے، غم آتے ہیں تو استقلال میں ڈھل جاتی ہے۔ مشکلات پیش آتی ہیں تو محنت، قوت اور پامردی کی صورت اختیار کرجاتی ہے، ناکامیاں ہوتی ہیں تو برداشت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس میں ربوبیت کا فیضان اپنی نمود نہیں دکھاتا اور کوئی ایسا راستہ نہیں جو اس کے نور سے روشن نہیں ہوتا۔ آدمی اور کچھ نہ سمجھے تو ربوبیت کا یہ عمل اسے یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ تیرا کوئی خالق ومالک بھی ہے۔ جس نے تمہیں پوری زندگی ضروریات سے بہرہ ور کیا ہے اور کہیں بھی بےدست وپا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اگر آپ تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوسکتی کہ جس طرح انسان کی جسم و جان کی ضرورتیں ہیں اور پروردگار کی ربوبیت نے اس کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی ہے اسی طرح اس کی روح، اس کی انسانیت، اس کے اخلاق، کائنات سے اس کے تعلق اور خالق ومالک سے اس کے تعلق اور انسانوں کے آپس کے تعلقات کے حوالے سے بھی انسان کی ضرورتیں ہیں۔ جس پروردگار نے اس کی تمام جسمانی ضرورتوں کو پورا کیا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرنے سے انکار کردے اور یا وہ انسان کو اختیار دے دے کہ تم ان ضرورتوں کے لیے اپنا راستہ خود طے کرو اور پنے ہی راستے سے ان ضرورتوں کو حل کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ کی ربوبیت نے جس طرح پہلے مرحلے میں انسان کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑا اسی طرح دوسرے مرحلے میں بھی اس نے انسان کی دستگیری کی۔ اس کے اندر خیر و شر کی شناخت کا جذبہ رکھا پھر اس کو عقل سلیم سے نوازا تاکہ وہ حق و باطل میں فرق کرسکے اور مزید رہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجے اور اپنی کتابیں اتاریں۔ لیکن انسان کی غفلت کا عجیب حال ہے کہ وہ تمام جسمانی اور مادی ضرورتیں تو اللہ کی ربوبیت سے حاصل کرتا ہے لیکن معنوی اور روحانی ضرورتوں کے لیے وہ خود کفیل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ کبھی کسی ایک کی دریوزہ گری کرتا ہے اور کبھی کسی دوسرے کی۔ اس لیے سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ لوگو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ربوبیت کی معرفت اپنے رب کو پہچانو اور پھر جس طرح مادی اور جسمانی ضرورتوں میں تم اس کی مدد سے آگے بڑھتے ہو اسی طرح زندگی کی باقی ضرورتوں میں بھی اسی کی نازل کردہ روشنی سے فائدہ اٹھائو۔ کیونکہ تمہار ارب ایک ہی رب ہے یہ کسی طرح مناسب نہیں جسمانی غذائوں کے لیے تو تم اس کے سامنے دست سوال دراز کرو لیکن باقی پوری زندگی کسی اور کے آستانے پر ڈھیر کردو۔ اس گمراہی کے انجام سے ڈرو اور ربوبیت کے آستانے ایک سے زیادہ بنانے اور باربار بدلنے سے احتراز کرو۔ اِنّ رَبَّـکُمْ وَاحِدٌ وَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ دوسری حقیقت جو اس آیت میں منکشف کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح تمہارا رب ایک ہے اسی طرح تمہارا اب یعنی باپ بھی ایک ہے۔ تمہاری یہی دو بنیادیں ہیں جس پر قائم رہنے سے تمہیں وحدت آدمیت نصیب ہوسکتی ہے۔ اسی کو آنحضرت ﷺ نے دوسرے موقعہ پر فرمایا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَّاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ” تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے “۔ جس طرح تم زندگی کی رہنمائی میں اس ایک رب کے سوا کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اسی طرح تم اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنا انتساب بھی نہیں کرسکتے تمہیں اللہ نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تم ابوالبشر حضرت آدم کی اولاد ہو۔ وہی سب کے جدِ امجد ہیں۔ ہر گورا اور ہر کالاہر وحشی اور ہر مہذب، ہر ہندی اور ہر چینی اور ہر حبشی اور ہر فرنگی کے جدِ امجد وہی ہیں۔ کسی نسل کو یہ حق نہیں کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور کو اپنا مورث اعلیٰ سمجھے۔ کوئی برہمن برہما جی کے منہ سے پیدا نہیں ہوا، کوئی کھشتری برہما جی کے سینہ سے نہیں نکلا، اور کوئی ویش برہما کے پیٹ سے اور کوئی شودر اس کی ٹانگوں سے پیدانھیں ہوا۔ یہ سب انسان ہیں اور ایک باپ ہونے کی وجہ سے سب برابر ہیں۔ اس سے نسل انسانی کے سب سے بڑے روگ کا علاج کردیاجس نے انسانیت کے گھر میں بیشمار دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں اس نے تمام انتسابات اور تمام طبقات کو زمین بوس کردیا۔ انسانوں میں یہ اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم انسانوں کی بیشمار بیماریوں کا سبب ہیں اسی سے انسان انسان کو غلام بناتا ہے، اسی سے قوموں میں برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور جنگوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی سے انسان کی عزت نفس کا جنازہ نکلتا ہے۔ یہی تصور تقدس کا لبادہ اوڑھ کر غلط مذہب کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہاری کامیابی اور بقا کا راز اس میں ہے کہ تم اپنے خالق کو ایک رب مانو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا تقویٰ اختیار کرو۔ اور تمام انسانوں کو ابوالبشر حضرت آدم کی اولاد سمجھو۔ اس سے تمہارے یہ سارے بکھیڑے ختم ہوجائیں گے اور تمہارے لیے ایک بنیاد فراہم ہوجائے گی۔ عورت کی عزت و حرمت تیسری بات یہ فرمائی کہ انسانیت کے گھر کو جن آندھیوں نے مسمار کیا ہے ان میں یہ تصور بھی شامل رہا ہے کہ عورت کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ یہ دنیا پر اللہ کا عذاب ہے، کبھی اس کو نحوست کی علامت سمجھا گیا، کبھی انسان کے بگاڑ کا ذریعہ، اس کی توہین اور ذلت کے لیے عجیب و غریب باتیں کہی گئیں، یہاں فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح تمہارا باپ ایک ہے اسی طرح تمہاری ماں بھی ایک ہے۔ پوری نوع انسانی کی پیدائش اسی جوڑے سے ہوئی ہے، جس طرح اللہ نے تمہارے لیے تمہارے باپ کو محترم ٹھہرایا ہے اسی طرح اس نے تمہاری ماں کو بھی عزت و رفعت بخشی ہے۔ صرف ماں ہی کو نہیں بلکہ عورت کو عزت عطا فرمائی، وہ ماں کی صورت میں ہو تو اس کے پائوں تلے جنت ہے اور اگر وہ بیٹی کی شکل میں ہو تو باپ کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اور بہن کی شکل میں ہو تو بھائی کی غیرت ہے اور اگر بیوی کی صورت میں ہو تو وہ زندگی کی خوبصورتی کا نام ہے۔ وہ ہر صورت میں قابل عزت و وقعت ہے۔ آج شائد اس کا صحیح اندازہ نہ ہوسکے لیکن جب اللہ کی کتاب نے صدیوں پہلے عورت کو عزت بخشی تھی تو یہ دنیا کے لیے ایک رعدآسا آواز تھی۔ جس نے نہ جانے کس کس گھر میں تہلکہ مچایا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ انسان نے اسلامی تعلیمات کے باعث عورت کی عزت کو پہچانا، لیکن بدنصیبی کا کیا کہئے کہ جاہلیت جدیدہ نے تہذیبِ مغرب کی شکل میں عورت کو پھر بازار کی جنس بنادیا ہے۔ اس کی ایسی برین واشنگ کی ہے کہ اس کے لیے گھر کا چولھاجلانا شوہر اور بچوں کی خدمت کرنا تو عار بن گیا ہے۔ لیکن ائیر ہوسٹس بن کر غیروں کے لیے مسکراہٹیں لٹانا اور بھوکی نگاہوں کا سامنا کرنا اور ہوٹلوں میں ویٹرس بن کر بستروں کی چادریں بدلنا اور واش بیسن صاف کرنا اور مینا اور جام کے شور میں ہر طرح کی خدمت بجا لانا عزت اور شرافت کی علامت بنا لیا گیا ہے۔ وہ عورت جس کی گود میں پیغمبر کھیلے ہیں اسے اشتہاروں کی صورت چوراہوں میں لٹکادیا گیا ہے۔ اور چند پیسوں کی چیز بیچنے کے لیے بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے جس کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے کبھی جغرافیے بدل جاتے تھے۔ آج وہ محض خریدنے بیچنے کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ آدمی اپنی ہوس رانی کے لیے اسے برہنہ کرتاچلا جارہا ہے اور وہ اسے آزادی سمجھ کر پالتو جانور کی طرح اشاروں پر رقص کرتی چلی جارہی ہے۔ اس نئی تہذیب نے پوری دنیا کو ایک سرکس بنادیا ہے، جس میں کردار کی کوئی عظمت نہیں، ادا کاری کی ایک قیمت ہے، جسے عورت نے اپنی عزت سمجھ لیا ہے۔ بعض لوگوں نے عورت کی قدروقیمت گرانے کے لیے یہ تصور دیا ہے کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی تائید میں اس آیت کریمہ کے ایک ٹکڑے خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کو پیش کیا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اللہ نے حضرت حوا کو حضرت آدم سے پیدا کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے حضرت حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت کو بالکل بیان نہیں فرمایا۔ حدیث بھی اس بارے میں خاموش ہے۔ البتہ جس مشہور حدیث سے حضرت حوا کا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں نہ حضرت آدم کا ذکر ہے نہ حضرت حوا کا بلکہ محض عورت کی پیدائش اور اس کی کج سرشتی کا بیان ہے۔ آثار میں جو روایت ملتی ہے وہ تورات کی آواز بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ تورات میں بیان کیا گیا ہے۔” خداوند خدا نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سوگیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک صورت بنا کر آدم کے پاس بھیجی (پیدائش : 2، 22 و 23) “۔ قرآن وسنت میں تورات کے اس مضمون کی تائید کہیں بھی نہیں کی گئی بلکہ بخاری کی ایک حدیث میں تو بالکل صاف ہے کہ عورت مثل پسلی کے ہے۔ امام مسلم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا پسلی سے پیدا ہونا محض بطور تشبیہ کے ہے اور مقصود اس سے یہ بتانا ہے کہ عورت کی طبیعت میں تلون کا غلبہ ہے اور یہی اس کی طبیعت کا حسن بھی ہے اور خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کا ترجمہ اکثر اہل علم نے یہ کیا ہے کہ اللہ نے اس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔ اس کی تفصیل کیا ہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ قرآن وسنت نے اسے کھولا نہیں ہمیں بھی اسے اسی طرح مجمل رکھنا چاہیے اور اسی پر یقین رکھنا چاہیے۔ صلہ رحمی کی تاکید مزید ایک بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جس طرح تمہاری زندگی کی کامیابی اور بقا کا راز اس میں ہے کہ زندگی گزارتے ہوئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اسی طرح اس بات میں بھی ہے کہ تم رحمی رشتوں کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے چونکہ ذریعہ قرابت یہی رحم ہی ہے اس لیے اس سلسلے کے تعلقات وابستہ رکھنے کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے اور رشتہ داری کی بنیاد پر جو فطری طور پر تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں ان کی طرف سے بےتوجہی اور بےالتفاقی برتنے کو قطع رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں اسی صلہ رحمی تا کید کی گئی ہے کیونکہ معاشرتی استواری کی بنیاد اس کے سوا کسی اور چیز پر نہیں۔ احادیث مبارکہ میں بھی صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشادِ نبوی ہے :۔ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُّـبْسَطَ لَـہٗ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأْ لُـہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحْمَہٗ ۔ (یعنی جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں اکشادگی پیداہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے) (مشکوٰۃ، ص 419) اس حدیث سے صلہ رحمی کے دو بڑے اہم فائدے معلوم ہوئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی، دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ عبداللہ بن سلام ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں پڑے یہ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :۔ یٰٓااَیُّھَاالنَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوالْاَرْحَامَ وَصَلُّوا بِاللَّیلِ وَالنَّاسُ یَنَامُ تَدْخُلُوا الْجَنَّـۃَ بِسَلَامٍ (لوگو ! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرواللہ کی رضا جوئی کے لیے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو جبکہ عام لوگ نیند کے مزے میں ہوں۔ یاد رکھو ! ان امور پر عمل کرکے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے ) (مشکوٰۃ، ص 108) اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْـکُمْ رَقِیْبًا اللہ کے ساتھ اپنا تعلق نبھاتے ہوئے اور بندوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اور صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ مت بھولنا کہ اللہ تمہارے چھپے ہوئے ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ وہ تمہارے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور کاموں کے محرکات سے بھی واقف ہے۔ تمہاری جلی یا خفی کوئی بات اس سے مخفی نہیں۔ اس لیے ہر کام کرتے ہوئے یہ یقین رکھنا کہ اس کی بارگاہ میں وہی عمل قابل قبول ٹھہرے گا جو انتہائی نیک نیت، نیک ارادے، اللہ کے خوف اور اس کے اخلاص سے کیا گیا ہو۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسانی زندگی کی مضبوطی اور استواری ہمیشہ مضبوط تصورات، احساسات اور عقائد کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس آیت کریمہ میں دو ایسے تصورات یا عقائد دئیے گئے جو انسانی زندگی کی مضبوط بنیاد بن سکتے ہیں جنھیں ہم نے وحدت رب اور وحدت اب سے ذکر کیا ہے۔ ایک خدا اور ایک رب کے ماننے والے بندگی اور اطاعت کے رشتے میں منسلک ہو کر ایک صالح گروہ اور ایک مضبوط امت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور ایک اصل اور ایک جڑ کے تصور سے نسل انسانی کی وحدت کا وہ تصور پیدا ہوتا ہے جس سے انسانی رشتے اس طرح پھوٹتے ہیں جس طرح ایک درخت سے شگوفے پھوٹتے شاخیں جنم لیتیں اور تنے وجود میں آکر ایک سایہ داردرخت لہلہانے لگتا ہے اور پھر اس کی ایک ایک شاخ ایک ایک تنا اور ایک ایک شگوفہ اس اطمینان سے برگ وبار پیدا کرتا ہے کہ میرا تعلق یکساں طور پر اس درخت کے ساتھ ہے۔ کوئی شاخ نیچے ہے یا اوپر لیکن وہ برابر طور پر اس درخت کا حصہ اور اس سے وابستہ ہے۔ اس طرح اونچ نیچ، کہین و مہین، عزیز و ذلیل اور مختلف طبقات کے تصور ات اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔ آقائی اور غلامی کے رشتے خود اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوجاتے ہیں ہر انسان شرفِ انسانیت سے بہرہ ور ہوتا اور سراٹھاکر چلنا سیکھ جاتا ہے اور پھر ان رشتوں میں احساسات کی گرمی پیدا کرنے کے لیے صلہ رحمی کی اہمیت کا احساس دلاکر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت فراہم کی گئی کہ اس رشتے کو جوڑنے والوں کو میں جوڑوں گا اور اسے توڑنے والوں کو میں توڑ ڈالوں گا۔ ان تصورات سے ایک مضبوط فرد، مضبوط امت، مضبوط خاندان اور مضبوط معاشرے کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ پھر اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے یتامیٰ کے حقوق کا ذکر کیا کیونکہ خاندان کسی بھی معاشرے کی اساس ہے۔ خاندان کی شکست وریخت معاشرے کی اور آخر کار پوری قوم کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ خاندان کے ارکان اربعہ والدین اولاد زوجین اور اہل قرابت ہیں اور یتیم اگر خاندان ہی کا حصہ ہے یعنی بیٹا مرجانے کی صورت میں یتیم بچہ دادا کا پوتا ہے اور بھائی کی موت کی شکل میں یہ یتیم مرحوم کے بھائی کا بھتیجا ہے، اب اگر ایسے یتیم کے ساتھ بد سلوکی ہوتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خاندان میں کتنی دراڑیں پڑسکتی ہیں۔ جب تک یتیم بچہ ظلم کی تصویر بن کر زندگی گزارتا ہے تو دوسرے اہل قرابت چاہے لفظی ہمدردی کے سوا کچھ نہ کریں لیکن اس یتیم کے ساتھ ہونے والے سلوک کو نہ صرف محسوس کریں گے بلکہ خاندانی تقریبات میں موضوعِ سخن بھی بنائیں گے۔ اور کبھی کبھی زیب داستاں کے طور پر بھی ذکر کریں گے۔ ایسی صورت میں خاندانی روابط اور ان کے استحکام پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ یہ تو وہ اثرات ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر خاندان پر اثر انداز ہوں گے لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ یتیم بچہ اگر بےمروتی اور بد سلوکی کے سائے میں پروان چڑھتا ہے وہ دادا کی بےمروتی کو دیکھتا ہے تو خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے کہ یہی میرے وہ دادا ہیں کہ میرے باپ کی زندگی میں سراپا محبت اور شفقت تھے وہ اپنے چچا اور تایا کے بدلے ہوئے رویہ کو دیکھتا ہے تو نجانے کیسے کیسے تاریک رجحانات اس کے رگ وپے میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ بچپنے کی وہ عمر جسے پیار اور محبت کی ٹھنڈک میں بسر ہونا چاہیے جب بےالتفاتی، بدسلوکی اور بےنیازی کی تیز دھوپ میں جلنے لگتی ہے تو اس نوخیز بچے کی محرومیاں خاندان سے نفرت، بزرگوں سے بدگمانی اور انسانی جذبات سے مایوسی میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ محرومیاں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح دہکنے لگتی ہیں جو آخرکار بغاوت اور انتقام کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور معاشرہ جن سے بالواسطہ متاثر ہوتا ہے اور اگر اس یتیم بچے کی کفالت کرنے والے اپنے نہیں پرائے ہیں تو پھر یہ بچہ بڑا ہو کر براہ راست معاشرے سے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتا ہے۔ شائد اسی بات کی طرف قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ” اے مخاطب تو نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو یا جزا کے قانون کو جھٹلاتا ہے “ یعنی اسے اس بات سے انکار ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اعمال کی جزا اور سزا سے گزرنا پڑے گا اور وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ دنیا میں جزا اور سزا کا قانون جاری ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھروگے یہاں کی ریت ہے۔ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۔ وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ” اس شخص کے ایسے ہی خیالات کا نتیجہ ہے کہ یہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور یتیم کو کھانا دینے پر آمادہ نہیں کرتا “۔ اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ محبت اور مروت اور ایثاروہمدردی سے محروم یہ طبقہ وقت آنے پر معاشرے سے انتقام لیتا ہے۔ جب یتیم کو چچا کے مظالم اور چچا زاد بھائیوں کی بےاعتنائیاں یاد آتی ہیں تو وہ بڑا ہو کر چچا زاد بھائیوں بلکہ تمام اہل قرابت سے اپنے زخموں کا حساب لیتا ہے۔ اگر خاندان سے باہر معاشرہ بھی اس کی محرومیوں کا سبب بنتا رہا ہے تو وہ معاشرہ کے افراد کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنا کر سکون حاصل کرتا ہے یہ جو ہم نوجوانوں کو بنک لوٹتے، ڈاکے ڈالتے، عفتوں کے فانوس توڑتے اور عظمتوں کے چراغ بجھاتے دیکھتے ہیں، یہ دراصل اپنی محرومیوں کا انتقام ہے۔ پھر اس میں صرف یتامیٰ اور مساکین ہی شریک نہیں بلکہ بڑے اور خوشحال لیکن تہذیب خوردہ اور مغرب زدہ خاندانوں کے چشم وچراغ بھی ہیں جنھیں ان کی مائوں نے اپنی سوشل مصروفیات اور بیگمات کی تفریحات کے باعث پیار نہیں دیا۔ بچے ان کے پیار کو ترستے رہے لیکن وہ صنف نازک کے حقوق حاصل کرنے اور عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے دن بھرمختلف تقریبات میں شرکت اور اس کے لیے دن میں کئی کئی دفعہ لباس بدلنے کی مصروفیت کے باعث بچوں کے لیے وقت نہ نکال سکیں اور باپ جلبِ زر کی دوڑ اور کلبوں کی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے سکے۔ آج یہ بچے انسانی احساسات سے تہی دامن انسانی معاشرے کو ادھیڑنے کھدیڑنے میں لگ گئے۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جو قومیں اپنے خاندان کے اجزا کو نہیں سمیٹتیں ان کے شیرازہ کو بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جو قومیں معاشرہ کے گرے ہوئے اور پسماندہ افراد کو سہارا نہیں دیتیں یہی افراد معاشرہ کے خلاف بغاوت کردیتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو کر قومی استحکام سے محروم ہوجاتا ہے، پھر اس کو گرانے کے لیے چند حوادث ہی کافی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں قرآن کریم نے سب سے پہلے یتامیٰ ہی کے حقوق کا ذکر کیا اور جہاں جہاں سے اس تعلق کو نقصان پہنچتا ہے اس کی تلافی کی کوشش فرمائی ہے۔ اس کے لیے تذکیر و ترغیب سے بھی کام لیا اور ترہیب سے بھی۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ تذکیر و ترغیب صرف صالح طبیعتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کو زندگی کی حقیقت بنانے اور اسے محفوظ حیثیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ سے قانونی تحفظات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ دور جاہلیت میں یتیموں پر جو مظالم کیئے جاتے تھے اور جو زیادتیاں ہوتی تھیں ان میں سے پہلے زیادتی یہ تھی کہ مرنے والا باپ اپنے بچوں کے لیے جو مال واسباب چھوڑ جاتا تھا یا جو حصہ بچوں کو اپنے باپ کی میراث سے ملنا چاہیے تھا انھیں دینے سے یکسر انکار کردیا جاتا تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یتیموں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا اور ہر طرح کی کمی بیشی سے روک دیا۔
Top