Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءً١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
النَّاسُ
: لوگ
اتَّقُوْا
: ڈرو
رَبَّكُمُ
: اپنا رب
الَّذِيْ
: وہ جس نے
خَلَقَكُمْ
: تمہیں پیدا کیا
مِّنْ
: سے
نَّفْسٍ
: جان
وَّاحِدَةٍ
: ایک
وَّخَلَقَ
: اور پیدا کیا
مِنْھَا
: اس سے
زَوْجَهَا
: جوڑا اس کا
وَبَثَّ
: اور پھیلائے
مِنْهُمَا
: دونوں سے
رِجَالًا
: مرد (جمع)
كَثِيْرًا
: بہت
وَّنِسَآءً
: اور عورتیں
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو
تَسَآءَلُوْنَ
: آپس میں مانگتے ہو
بِهٖ
: اس سے (اس کے نام پر)
وَالْاَرْحَامَ
: اور رشتے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
رَقِيْبًا
: نگہبان
(اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلا دیئے بہت سے مرد اور عورتیں اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطہ سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور قرابتوں کے باب میں بھی اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَـکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْـکُمْ رَقِیْبًا (اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے پھیلا دیئے بہت سے مرد اور عورتیں اور اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کے واسطہ سے ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور قرابتوں کے باب میں بھی اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اوپر نگران ہے) (النسآء : 1) اسلوبِ قرآن کا ایک انداز قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ جب وہ اسلام کے اساسی اصولوں کی طرف دعوت دیتا ہے اور یا ایسی بنیادی حقیقت کی طرف بلاتا ہے جس پر مسلم اور غیر مسلم کی زندگی کی کامیابی اور بقا کا دارومدار ہے تو وہ خطاب صرف مسلمانوں سے نہیں کرتا بلکہیٰٓاَیُّھَا النَّاسْ کہہ کر تمام نوع انسانی کو مخاطب کرتا ہے۔ یہاں بھی اسی اصول کے تحتیٰٓاَیُّھَا النَّاسْکہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں جن حقائق کی طرف نوع انسانی کو بلایا گیا ہے وہ انسانوں کی زندگی اور بقا کے لیے اس حد تک لازمی ہیں کہ ان کے بغیر انسانی زندگی کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ لوگو ! اپنے اس رب سے ڈروجس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ انسانی فطرت جب تک سلامت ہے اور انسانی عقل صحیح نہج پر کام کرتی ہے اس وقت تک انسان کے لیے اس بات کا انکار کرنا کہ میں ایک مخلوق ہوں اور اللہ ہی میرا خالق ہے کسی طرح ممکن نہیں۔ جدید اور قدیم فلسفے ہزار سر ماریں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں اور اس پر مزید دلیل یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اگر تمہارا خالق کوئی اور ہوتا تو وہ تمہاری ربوبیت کا سامان بھی کرتا۔ تم لحد سے لے کر مہد تک دیکھتے ہو کہ ایک ہی ذات گرامی ہے جو اگرچہ تمہیں نظر نہیں آتی لیکن تم اس کی ربوبیت کے آئینے میں ہر وقت اسے اپنے دائیں بائیں محسوس کرتے ہو۔ ہر کہ بینیم در جہاں غیرے تو نیست یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ تمام مخلوقات کے بچوں میں سب سے زیادہ بےبس اور محتاج ہوتا ہے۔ مرغی کا بچہ بھی کچھ ہی دیر بعد ماں کی آواز کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے، بلی کے بچے آنکھیں کھولتے ہی ماں کے پستان چوسنے لگتے ہیں، لیکن انسان کا بچہ پیدا ہونے کے بعد بالکل نہیں جانتا کہ اس کی ماں کون ہے اور باپ کون ہے۔ اس کے اندرونی احساسات میں سے صرف اس کا وہی احساس زندہ ہے جو اسے رلا سکتا ہے۔ اس کے سوا وہ ہر احساس سے عاری ہوتا ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ اس کے حواس خمسہ میں سے سوائے ایک حس کے کوئی حس کام نہیں کرتی۔ ماں اسے جب تک اٹھا کر سینے سے نہیں لگاتی اسے نہیں معلوم اس کی غذا کا سرچشمہ کہاں ہے۔ ایسا بےحس، بےعلم، بےدانش بچہ کسی طرح بھی اپنی غذا حاصل نہیں کرسکتا۔ لیکن اللہ کی ربوبیت کے قربان جائیے کہ اس کا فیضان جب وہ ماں کے پیٹ میں ہے تب بھی جاری رہتا ہے اور جب وہ دنیا میں آنے والا ہوتا ہے تب بھی کام کرتا ہے اور جب وہ دنیا میں آجاتا ہے تو پھر اس کی نمود میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ ماں تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے تو گویا موت اور زندگی کی کشمکش سے گزرتی ہے، لیکن وہ اس کشمکش کو زندگی کی سب راحتوں سے عزیز سمجھتی ہے۔ بچہ ابھی اس کی گود میں نہیں آتا کہ مامتا اس کے سینے میں پہلے سے مچلنے لگتی ہے۔ اور جب وہ اس بےبس بچے کو اٹھاتی ہے تو کس محبت اور دیوانگی سے اسے اپنے سینے سے لگاتی ہے اور دودھ کی صورت میں اپنا خون جگر اس کے منہ میں ٹپکا کر نہال ہوتی جاتی ہے۔ بچہ کسی بات کو نہیں جانتا لیکن جیسے ہی ماں اسے سینے سے لگاتی ہے تو وہ دودھ کی تلاش میں منہ مارنے لگتا ہے اور پھر پستان کو منہ میں لے کر اس طرح چوستا ہے کہ غذا کا یہ چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ بےبس بچہ جو کچھ نہیں جانتا اسے چوس چوس کر دودھ نکالنا اور گھونٹ گھونٹ پینا کس نے سکھایا ہے۔ یہ وہ ربوبیت کا فیضان ہے جو مسلسل اپنا کام کررہا ہے۔ باپ کے سینے میں اٹھنے والی شفقت ننھیالی اور ددھیالی رشتوں کی صورت میں پہچانی جانے والی محبت یہ سب اسی ربوبیت کے کرشمے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ بڑھتا جاتا ہے ربوبیت کا فیضان ساتھ ساتھ اس کی ضروتیں پوری کرتا چلا جاتا ہے۔ جب تک اس کا معدہ کسی چیز کو قبول کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو دودھ میں دھنیت کم اور مائیت زیادہ ہوتی ہے اور جیسے جیسے معدہ توانا ہوتا جاتا ہے مائیت کم اور دھنیت بڑھتی جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ بچہ دوسری غذائیں کھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح زندگی کے تمام مراحل میں اللہ کی ربوبیت کو دیکھتے ہیں وہ انسان کو انگلی پکڑ کر چلاتی ہے اور پھر کبھی احساس کا چراغ بن جاتی ہے اور کبھی شعور اور دانش کا نوربن کر روشن ہوتی ہے۔ خوشیاں آتی ہیں تو خوشیوں کا احساس بن جاتی ہے، غم آتے ہیں تو استقلال میں ڈھل جاتی ہے۔ مشکلات پیش آتی ہیں تو محنت، قوت اور پامردی کی صورت اختیار کرجاتی ہے، ناکامیاں ہوتی ہیں تو برداشت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ غرضیکہ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس میں ربوبیت کا فیضان اپنی نمود نہیں دکھاتا اور کوئی ایسا راستہ نہیں جو اس کے نور سے روشن نہیں ہوتا۔ آدمی اور کچھ نہ سمجھے تو ربوبیت کا یہ عمل اسے یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ تیرا کوئی خالق ومالک بھی ہے۔ جس نے تمہیں پوری زندگی ضروریات سے بہرہ ور کیا ہے اور کہیں بھی بےدست وپا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اگر آپ تھوڑا سا ذہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوسکتی کہ جس طرح انسان کی جسم و جان کی ضرورتیں ہیں اور پروردگار کی ربوبیت نے اس کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی ہے اسی طرح اس کی روح، اس کی انسانیت، اس کے اخلاق، کائنات سے اس کے تعلق اور خالق ومالک سے اس کے تعلق اور انسانوں کے آپس کے تعلقات کے حوالے سے بھی انسان کی ضرورتیں ہیں۔ جس پروردگار نے اس کی تمام جسمانی ضرورتوں کو پورا کیا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرنے سے انکار کردے اور یا وہ انسان کو اختیار دے دے کہ تم ان ضرورتوں کے لیے اپنا راستہ خود طے کرو اور پنے ہی راستے سے ان ضرورتوں کو حل کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ کی ربوبیت نے جس طرح پہلے مرحلے میں انسان کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑا اسی طرح دوسرے مرحلے میں بھی اس نے انسان کی دستگیری کی۔ اس کے اندر خیر و شر کی شناخت کا جذبہ رکھا پھر اس کو عقل سلیم سے نوازا تاکہ وہ حق و باطل میں فرق کرسکے اور مزید رہنمائی کے لیے اپنے رسول بھیجے اور اپنی کتابیں اتاریں۔ لیکن انسان کی غفلت کا عجیب حال ہے کہ وہ تمام جسمانی اور مادی ضرورتیں تو اللہ کی ربوبیت سے حاصل کرتا ہے لیکن معنوی اور روحانی ضرورتوں کے لیے وہ خود کفیل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ کبھی کسی ایک کی دریوزہ گری کرتا ہے اور کبھی کسی دوسرے کی۔ اس لیے سب سے پہلی بات یہ فرمائی کہ لوگو ! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ربوبیت کی معرفت اپنے رب کو پہچانو اور پھر جس طرح مادی اور جسمانی ضرورتوں میں تم اس کی مدد سے آگے بڑھتے ہو اسی طرح زندگی کی باقی ضرورتوں میں بھی اسی کی نازل کردہ روشنی سے فائدہ اٹھائو۔ کیونکہ تمہار ارب ایک ہی رب ہے یہ کسی طرح مناسب نہیں جسمانی غذائوں کے لیے تو تم اس کے سامنے دست سوال دراز کرو لیکن باقی پوری زندگی کسی اور کے آستانے پر ڈھیر کردو۔ اس گمراہی کے انجام سے ڈرو اور ربوبیت کے آستانے ایک سے زیادہ بنانے اور باربار بدلنے سے احتراز کرو۔ اِنّ رَبَّـکُمْ وَاحِدٌ وَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ دوسری حقیقت جو اس آیت میں منکشف کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح تمہارا رب ایک ہے اسی طرح تمہارا اب یعنی باپ بھی ایک ہے۔ تمہاری یہی دو بنیادیں ہیں جس پر قائم رہنے سے تمہیں وحدت آدمیت نصیب ہوسکتی ہے۔ اسی کو آنحضرت ﷺ نے دوسرے موقعہ پر فرمایا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَّاِنَّ اَبَاکُمْ وَاحِدٌ” تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے “۔ جس طرح تم زندگی کی رہنمائی میں اس ایک رب کے سوا کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اسی طرح تم اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنا انتساب بھی نہیں کرسکتے تمہیں اللہ نے نفس واحدہ سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تم ابوالبشر حضرت آدم کی اولاد ہو۔ وہی سب کے جدِ امجد ہیں۔ ہر گورا اور ہر کالاہر وحشی اور ہر مہذب، ہر ہندی اور ہر چینی اور ہر حبشی اور ہر فرنگی کے جدِ امجد وہی ہیں۔ کسی نسل کو یہ حق نہیں کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور کو اپنا مورث اعلیٰ سمجھے۔ کوئی برہمن برہما جی کے منہ سے پیدا نہیں ہوا، کوئی کھشتری برہما جی کے سینہ سے نہیں نکلا، اور کوئی ویش برہما کے پیٹ سے اور کوئی شودر اس کی ٹانگوں سے پیدانھیں ہوا۔ یہ سب انسان ہیں اور ایک باپ ہونے کی وجہ سے سب برابر ہیں۔ اس سے نسل انسانی کے سب سے بڑے روگ کا علاج کردیاجس نے انسانیت کے گھر میں بیشمار دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں اس نے تمام انتسابات اور تمام طبقات کو زمین بوس کردیا۔ انسانوں میں یہ اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم انسانوں کی بیشمار بیماریوں کا سبب ہیں اسی سے انسان انسان کو غلام بناتا ہے، اسی سے قوموں میں برتری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور جنگوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی سے انسان کی عزت نفس کا جنازہ نکلتا ہے۔ یہی تصور تقدس کا لبادہ اوڑھ کر غلط مذہب کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہاری کامیابی اور بقا کا راز اس میں ہے کہ تم اپنے خالق کو ایک رب مانو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا تقویٰ اختیار کرو۔ اور تمام انسانوں کو ابوالبشر حضرت آدم کی اولاد سمجھو۔ اس سے تمہارے یہ سارے بکھیڑے ختم ہوجائیں گے اور تمہارے لیے ایک بنیاد فراہم ہوجائے گی۔ عورت کی عزت و حرمت تیسری بات یہ فرمائی کہ انسانیت کے گھر کو جن آندھیوں نے مسمار کیا ہے ان میں یہ تصور بھی شامل رہا ہے کہ عورت کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ یہ دنیا پر اللہ کا عذاب ہے، کبھی اس کو نحوست کی علامت سمجھا گیا، کبھی انسان کے بگاڑ کا ذریعہ، اس کی توہین اور ذلت کے لیے عجیب و غریب باتیں کہی گئیں، یہاں فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح تمہارا باپ ایک ہے اسی طرح تمہاری ماں بھی ایک ہے۔ پوری نوع انسانی کی پیدائش اسی جوڑے سے ہوئی ہے، جس طرح اللہ نے تمہارے لیے تمہارے باپ کو محترم ٹھہرایا ہے اسی طرح اس نے تمہاری ماں کو بھی عزت و رفعت بخشی ہے۔ صرف ماں ہی کو نہیں بلکہ عورت کو عزت عطا فرمائی، وہ ماں کی صورت میں ہو تو اس کے پائوں تلے جنت ہے اور اگر وہ بیٹی کی شکل میں ہو تو باپ کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اور بہن کی شکل میں ہو تو بھائی کی غیرت ہے اور اگر بیوی کی صورت میں ہو تو وہ زندگی کی خوبصورتی کا نام ہے۔ وہ ہر صورت میں قابل عزت و وقعت ہے۔ آج شائد اس کا صحیح اندازہ نہ ہوسکے لیکن جب اللہ کی کتاب نے صدیوں پہلے عورت کو عزت بخشی تھی تو یہ دنیا کے لیے ایک رعدآسا آواز تھی۔ جس نے نہ جانے کس کس گھر میں تہلکہ مچایا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ انسان نے اسلامی تعلیمات کے باعث عورت کی عزت کو پہچانا، لیکن بدنصیبی کا کیا کہئے کہ جاہلیت جدیدہ نے تہذیبِ مغرب کی شکل میں عورت کو پھر بازار کی جنس بنادیا ہے۔ اس کی ایسی برین واشنگ کی ہے کہ اس کے لیے گھر کا چولھاجلانا شوہر اور بچوں کی خدمت کرنا تو عار بن گیا ہے۔ لیکن ائیر ہوسٹس بن کر غیروں کے لیے مسکراہٹیں لٹانا اور بھوکی نگاہوں کا سامنا کرنا اور ہوٹلوں میں ویٹرس بن کر بستروں کی چادریں بدلنا اور واش بیسن صاف کرنا اور مینا اور جام کے شور میں ہر طرح کی خدمت بجا لانا عزت اور شرافت کی علامت بنا لیا گیا ہے۔ وہ عورت جس کی گود میں پیغمبر کھیلے ہیں اسے اشتہاروں کی صورت چوراہوں میں لٹکادیا گیا ہے۔ اور چند پیسوں کی چیز بیچنے کے لیے بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے جس کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے کبھی جغرافیے بدل جاتے تھے۔ آج وہ محض خریدنے بیچنے کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ آدمی اپنی ہوس رانی کے لیے اسے برہنہ کرتاچلا جارہا ہے اور وہ اسے آزادی سمجھ کر پالتو جانور کی طرح اشاروں پر رقص کرتی چلی جارہی ہے۔ اس نئی تہذیب نے پوری دنیا کو ایک سرکس بنادیا ہے، جس میں کردار کی کوئی عظمت نہیں، ادا کاری کی ایک قیمت ہے، جسے عورت نے اپنی عزت سمجھ لیا ہے۔ بعض لوگوں نے عورت کی قدروقیمت گرانے کے لیے یہ تصور دیا ہے کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی تائید میں اس آیت کریمہ کے ایک ٹکڑے خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کو پیش کیا جاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اللہ نے حضرت حوا کو حضرت آدم سے پیدا کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے حضرت حوا کی پیدائش کی تفصیلی کیفیت کو بالکل بیان نہیں فرمایا۔ حدیث بھی اس بارے میں خاموش ہے۔ البتہ جس مشہور حدیث سے حضرت حوا کا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہونا بیان کیا جاتا ہے اس میں نہ حضرت آدم کا ذکر ہے نہ حضرت حوا کا بلکہ محض عورت کی پیدائش اور اس کی کج سرشتی کا بیان ہے۔ آثار میں جو روایت ملتی ہے وہ تورات کی آواز بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ تورات میں بیان کیا گیا ہے۔” خداوند خدا نے آدم پر پیاری نیند بھیجی کہ وہ سوگیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک صورت بنا کر آدم کے پاس بھیجی (پیدائش : 2، 22 و 23) “۔ قرآن وسنت میں تورات کے اس مضمون کی تائید کہیں بھی نہیں کی گئی بلکہ بخاری کی ایک حدیث میں تو بالکل صاف ہے کہ عورت مثل پسلی کے ہے۔ امام مسلم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا پسلی سے پیدا ہونا محض بطور تشبیہ کے ہے اور مقصود اس سے یہ بتانا ہے کہ عورت کی طبیعت میں تلون کا غلبہ ہے اور یہی اس کی طبیعت کا حسن بھی ہے اور خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا کا ترجمہ اکثر اہل علم نے یہ کیا ہے کہ اللہ نے اس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔ اس کی تفصیل کیا ہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ قرآن وسنت نے اسے کھولا نہیں ہمیں بھی اسے اسی طرح مجمل رکھنا چاہیے اور اسی پر یقین رکھنا چاہیے۔ صلہ رحمی کی تاکید مزید ایک بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جس طرح تمہاری زندگی کی کامیابی اور بقا کا راز اس میں ہے کہ زندگی گزارتے ہوئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اسی طرح اس بات میں بھی ہے کہ تم رحمی رشتوں کی نزاکتوں کو ملحوظ رکھو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ رحم بچہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے ماں کے پیٹ میں بچہ رہتا ہے چونکہ ذریعہ قرابت یہی رحم ہی ہے اس لیے اس سلسلے کے تعلقات وابستہ رکھنے کو صلہ رحمی کہا جاتا ہے اور رشتہ داری کی بنیاد پر جو فطری طور پر تعلقات پیدا ہوجاتے ہیں ان کی طرف سے بےتوجہی اور بےالتفاقی برتنے کو قطع رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں اسی صلہ رحمی تا کید کی گئی ہے کیونکہ معاشرتی استواری کی بنیاد اس کے سوا کسی اور چیز پر نہیں۔ احادیث مبارکہ میں بھی صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چناچہ ارشادِ نبوی ہے :۔ مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُّـبْسَطَ لَـہٗ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأْ لُـہٗ فِیْ اَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحْمَہٗ ۔ (یعنی جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں اکشادگی پیداہو اور اس کی عمر دراز ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے) (مشکوٰۃ، ص 419) اس حدیث سے صلہ رحمی کے دو بڑے اہم فائدے معلوم ہوئے کہ آخرت کا ثواب تو ہے ہی، دنیا میں بھی صلہ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ رزق کی تنگی دور ہوتی اور عمر میں برکت ہوتی ہے۔ عبداللہ بن سلام ( رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے اور میں حاضر ہوا تو آپ کے وہ مبارک کلمات جو سب سے پہلے میرے کانوں پڑے یہ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا :۔ یٰٓااَیُّھَاالنَّاسُ اَفْشُوا السَّلَامَ وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوالْاَرْحَامَ وَصَلُّوا بِاللَّیلِ وَالنَّاسُ یَنَامُ تَدْخُلُوا الْجَنَّـۃَ بِسَلَامٍ (لوگو ! ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کرواللہ کی رضا جوئی کے لیے لوگوں کو کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور ایسے وقت میں نماز کی طرف سبقت کیا کرو جبکہ عام لوگ نیند کے مزے میں ہوں۔ یاد رکھو ! ان امور پر عمل کرکے تم حفاظت اور سلامتی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے جنت میں پہنچ جاؤ گے ) (مشکوٰۃ، ص 108) اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْـکُمْ رَقِیْبًا اللہ کے ساتھ اپنا تعلق نبھاتے ہوئے اور بندوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اور صلہ رحمی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ مت بھولنا کہ اللہ تمہارے چھپے ہوئے ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ وہ تمہارے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور کاموں کے محرکات سے بھی واقف ہے۔ تمہاری جلی یا خفی کوئی بات اس سے مخفی نہیں۔ اس لیے ہر کام کرتے ہوئے یہ یقین رکھنا کہ اس کی بارگاہ میں وہی عمل قابل قبول ٹھہرے گا جو انتہائی نیک نیت، نیک ارادے، اللہ کے خوف اور اس کے اخلاص سے کیا گیا ہو۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسانی زندگی کی مضبوطی اور استواری ہمیشہ مضبوط تصورات، احساسات اور عقائد کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اس آیت کریمہ میں دو ایسے تصورات یا عقائد دئیے گئے جو انسانی زندگی کی مضبوط بنیاد بن سکتے ہیں جنھیں ہم نے وحدت رب اور وحدت اب سے ذکر کیا ہے۔ ایک خدا اور ایک رب کے ماننے والے بندگی اور اطاعت کے رشتے میں منسلک ہو کر ایک صالح گروہ اور ایک مضبوط امت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور ایک اصل اور ایک جڑ کے تصور سے نسل انسانی کی وحدت کا وہ تصور پیدا ہوتا ہے جس سے انسانی رشتے اس طرح پھوٹتے ہیں جس طرح ایک درخت سے شگوفے پھوٹتے شاخیں جنم لیتیں اور تنے وجود میں آکر ایک سایہ داردرخت لہلہانے لگتا ہے اور پھر اس کی ایک ایک شاخ ایک ایک تنا اور ایک ایک شگوفہ اس اطمینان سے برگ وبار پیدا کرتا ہے کہ میرا تعلق یکساں طور پر اس درخت کے ساتھ ہے۔ کوئی شاخ نیچے ہے یا اوپر لیکن وہ برابر طور پر اس درخت کا حصہ اور اس سے وابستہ ہے۔ اس طرح اونچ نیچ، کہین و مہین، عزیز و ذلیل اور مختلف طبقات کے تصور ات اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔ آقائی اور غلامی کے رشتے خود اپنی نگاہوں میں ذلیل ہوجاتے ہیں ہر انسان شرفِ انسانیت سے بہرہ ور ہوتا اور سراٹھاکر چلنا سیکھ جاتا ہے اور پھر ان رشتوں میں احساسات کی گرمی پیدا کرنے کے لیے صلہ رحمی کی اہمیت کا احساس دلاکر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت فراہم کی گئی کہ اس رشتے کو جوڑنے والوں کو میں جوڑوں گا اور اسے توڑنے والوں کو میں توڑ ڈالوں گا۔ ان تصورات سے ایک مضبوط فرد، مضبوط امت، مضبوط خاندان اور مضبوط معاشرے کی بنیادیں رکھ دی گئی ہیں۔ پھر اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے یتامیٰ کے حقوق کا ذکر کیا کیونکہ خاندان کسی بھی معاشرے کی اساس ہے۔ خاندان کی شکست وریخت معاشرے کی اور آخر کار پوری قوم کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ خاندان کے ارکان اربعہ والدین اولاد زوجین اور اہل قرابت ہیں اور یتیم اگر خاندان ہی کا حصہ ہے یعنی بیٹا مرجانے کی صورت میں یتیم بچہ دادا کا پوتا ہے اور بھائی کی موت کی شکل میں یہ یتیم مرحوم کے بھائی کا بھتیجا ہے، اب اگر ایسے یتیم کے ساتھ بد سلوکی ہوتی ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خاندان میں کتنی دراڑیں پڑسکتی ہیں۔ جب تک یتیم بچہ ظلم کی تصویر بن کر زندگی گزارتا ہے تو دوسرے اہل قرابت چاہے لفظی ہمدردی کے سوا کچھ نہ کریں لیکن اس یتیم کے ساتھ ہونے والے سلوک کو نہ صرف محسوس کریں گے بلکہ خاندانی تقریبات میں موضوعِ سخن بھی بنائیں گے۔ اور کبھی کبھی زیب داستاں کے طور پر بھی ذکر کریں گے۔ ایسی صورت میں خاندانی روابط اور ان کے استحکام پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔ یہ تو وہ اثرات ہیں جو شعوری اور غیر شعوری طور پر خاندان پر اثر انداز ہوں گے لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے کہ یتیم بچہ اگر بےمروتی اور بد سلوکی کے سائے میں پروان چڑھتا ہے وہ دادا کی بےمروتی کو دیکھتا ہے تو خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے کہ یہی میرے وہ دادا ہیں کہ میرے باپ کی زندگی میں سراپا محبت اور شفقت تھے وہ اپنے چچا اور تایا کے بدلے ہوئے رویہ کو دیکھتا ہے تو نجانے کیسے کیسے تاریک رجحانات اس کے رگ وپے میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ بچپنے کی وہ عمر جسے پیار اور محبت کی ٹھنڈک میں بسر ہونا چاہیے جب بےالتفاتی، بدسلوکی اور بےنیازی کی تیز دھوپ میں جلنے لگتی ہے تو اس نوخیز بچے کی محرومیاں خاندان سے نفرت، بزرگوں سے بدگمانی اور انسانی جذبات سے مایوسی میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ محرومیاں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح دہکنے لگتی ہیں جو آخرکار بغاوت اور انتقام کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور معاشرہ جن سے بالواسطہ متاثر ہوتا ہے اور اگر اس یتیم بچے کی کفالت کرنے والے اپنے نہیں پرائے ہیں تو پھر یہ بچہ بڑا ہو کر براہ راست معاشرے سے اپنی محرومیوں کا انتقام لیتا ہے۔ شائد اسی بات کی طرف قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ ” اے مخاطب تو نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو یا جزا کے قانون کو جھٹلاتا ہے “ یعنی اسے اس بات سے انکار ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اعمال کی جزا اور سزا سے گزرنا پڑے گا اور وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ دنیا میں جزا اور سزا کا قانون جاری ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھروگے یہاں کی ریت ہے۔ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ ۔ وَلاَ یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ” اس شخص کے ایسے ہی خیالات کا نتیجہ ہے کہ یہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور یتیم کو کھانا دینے پر آمادہ نہیں کرتا “۔ اسی صورتحال کا نتیجہ ہے کہ محبت اور مروت اور ایثاروہمدردی سے محروم یہ طبقہ وقت آنے پر معاشرے سے انتقام لیتا ہے۔ جب یتیم کو چچا کے مظالم اور چچا زاد بھائیوں کی بےاعتنائیاں یاد آتی ہیں تو وہ بڑا ہو کر چچا زاد بھائیوں بلکہ تمام اہل قرابت سے اپنے زخموں کا حساب لیتا ہے۔ اگر خاندان سے باہر معاشرہ بھی اس کی محرومیوں کا سبب بنتا رہا ہے تو وہ معاشرہ کے افراد کو بھی زیادتیوں کا نشانہ بنا کر سکون حاصل کرتا ہے یہ جو ہم نوجوانوں کو بنک لوٹتے، ڈاکے ڈالتے، عفتوں کے فانوس توڑتے اور عظمتوں کے چراغ بجھاتے دیکھتے ہیں، یہ دراصل اپنی محرومیوں کا انتقام ہے۔ پھر اس میں صرف یتامیٰ اور مساکین ہی شریک نہیں بلکہ بڑے اور خوشحال لیکن تہذیب خوردہ اور مغرب زدہ خاندانوں کے چشم وچراغ بھی ہیں جنھیں ان کی مائوں نے اپنی سوشل مصروفیات اور بیگمات کی تفریحات کے باعث پیار نہیں دیا۔ بچے ان کے پیار کو ترستے رہے لیکن وہ صنف نازک کے حقوق حاصل کرنے اور عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے دن بھرمختلف تقریبات میں شرکت اور اس کے لیے دن میں کئی کئی دفعہ لباس بدلنے کی مصروفیت کے باعث بچوں کے لیے وقت نہ نکال سکیں اور باپ جلبِ زر کی دوڑ اور کلبوں کی مصروفیت کی وجہ سے بچوں کو وقت نہ دے سکے۔ آج یہ بچے انسانی احساسات سے تہی دامن انسانی معاشرے کو ادھیڑنے کھدیڑنے میں لگ گئے۔ تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ جو قومیں اپنے خاندان کے اجزا کو نہیں سمیٹتیں ان کے شیرازہ کو بکھرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور جو قومیں معاشرہ کے گرے ہوئے اور پسماندہ افراد کو سہارا نہیں دیتیں یہی افراد معاشرہ کے خلاف بغاوت کردیتے ہیں۔ نتیجتاً معاشرہ خانہ جنگی کا شکار ہو کر قومی استحکام سے محروم ہوجاتا ہے، پھر اس کو گرانے کے لیے چند حوادث ہی کافی ہوتے ہیں۔ اس لیے یہاں قرآن کریم نے سب سے پہلے یتامیٰ ہی کے حقوق کا ذکر کیا اور جہاں جہاں سے اس تعلق کو نقصان پہنچتا ہے اس کی تلافی کی کوشش فرمائی ہے۔ اس کے لیے تذکیر و ترغیب سے بھی کام لیا اور ترہیب سے بھی۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ تذکیر و ترغیب صرف صالح طبیعتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کسی بھی چیز کو زندگی کی حقیقت بنانے اور اسے محفوظ حیثیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ سے قانونی تحفظات کا ذکر کیا جارہا ہے۔ دور جاہلیت میں یتیموں پر جو مظالم کیئے جاتے تھے اور جو زیادتیاں ہوتی تھیں ان میں سے پہلے زیادتی یہ تھی کہ مرنے والا باپ اپنے بچوں کے لیے جو مال واسباب چھوڑ جاتا تھا یا جو حصہ بچوں کو اپنے باپ کی میراث سے ملنا چاہیے تھا انھیں دینے سے یکسر انکار کردیا جاتا تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یتیموں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا اور ہر طرح کی کمی بیشی سے روک دیا۔
Top