Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف (کو)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوْا
: دیا گیا
نَصِيْبًا
: ایک حصہ
مِّنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
يُؤْمِنُوْنَ
: وہ مانتے ہیں
بِالْجِبْتِ
: بت (جمع)
وَالطَّاغُوْتِ
: اور سرکش (شیطان)
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر)
هٰٓؤُلَآءِ
: یہ لوگ
اَهْدٰى
: راہ راست پر
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
سَبِيْلًا
: راہ
(کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ؟ یہ جِبْت اور طَاغُوْت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پرتو یہ ہیں
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓـؤُلَآئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَـہٗ نَصِیْرًا ط (کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ؟ یہ جِبْت اور طَاغُوْت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پرتو یہ ہیں یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے تو تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاسکتے) (النسآء : 51 تا 52) جِبْت اور طاغُوْت کا مفہوم آیتِ کریمہ کی تشریح سے پہلے جِبْت اور طَاغُوْت کی تشریح کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اہل علم کی ایک رائے یہ ہے کہ جِبْت کے اصل معنی ” بےحقیقت، بےاصل اور بےفائدہ چیز “ کے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون، مہورت اور تمام دوسری وہمی اور خیالی باتوں کو جِبْت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے : اَلنِّیَاقَـۃُ وَالطَّرْقُ وَالطَّیْرُمِنَ الْجِبْتِ (جانوروں کی آوازوں سے فال لینا، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب جِبْت کے قبیل سے ہیں) طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی جائز حدود سے تجاوز کرگیا ہو قرآن کریم کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خودآقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ پھر طاغوت قرآن کریم میں طواغیت کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ طاغوت کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے۔ طاغوت ایک تو شیطان ہے جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار باغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنانفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھنیچے کھینچے لیے پھرتا ہے اور بیشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ جو قوت بھی اللہ کے مقابلے میں اپنی اطاعت کراتی ہے چاہے طاقت وجبر سے، چاہے خواشات کو اپیل کرکے۔ اسے قرآن کریم طاغوت کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ بعض دیگراہلِ علم کا خیال ہے کہ جِبْت سے مراد اعمالِ سفلیہ مثلاً سحر، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔ ہاتھ کی لکیروں کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔ اعمالِ سفلیہ کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا تعلق بیشتر شیطانی قوتوں اور ارواحِ خبیثہ سے ہوتا ہے۔ اس طرح کے اعمال کا ارتکاب کرنے والوں کو شیطانی قوتوں اور ارواحِ خبیثہ سے مدد مانگنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ وہ اپنے معمول کو بھی ایسے وظائف بتاتے ہیں جس میں ان قوتوں سے مدد مانگنا شامل ہوتا ہے۔ اس وضاحت کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ اس آیت کریمہ میں انہی قوتوں کو طاغوت کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس بارے میں متعدد اقوال ذکر کیے ہیں۔ حضرت ابن عباس ( رض) ، ابن جبیر ( رض) اور ابوالعالیہ ( رض) فرماتے ہیں کہ جِبْت حبشی لغت میں ” ساحر “ کو کہتے ہیں اور طاغوت سے مراد ” کاہن “ ہیں۔ حضرت عمر ( رض) فرماتے ہیں کہ جِبْت سے مراد ” سحر “ ہے اور طَاغُوْت سے مراد ” شیطان “۔ حضرت مالک ابن انس ( رض) سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے، ان چیزوں کو ” طَاغُوْت “ کہتے ہیں۔ امامِ قرطبی کی رائے یہ ہے کہ اصل میں جبت تو بت ہی کا نام تھا لیکن بعد میں اس کے استعمال میں وسعت آگئی اور اللہ کے سوا دوسری عبادت کی جانے والی چیزوں پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا۔ یہ جتنی آرا آپ نے دیکھی ہیں بظاہر ان میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ شرک کبھی ارواحِ خبیثہ اور شیطانی قوتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور کبھی شرک بت پرستی کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور کبھی انسان اللہ کی بندگی کی طرح دوسری قوتوں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ جن سے وہ بےدیکھے ڈرتا ہے یا جن سے مفادات کا رشتہ ہے یا جن کے جبر اور اقتدار نے اسے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تمام صورتیں شرک کی ہیں۔ ان تمام صورتوں کو سمیٹتے ہوئے جِبْت اور طَاغُوْت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہود کی اصل بیماری اس آیت کریمہ میں یہود کے دو مشرکانہ رویوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل بیماری جس کی طرف اشارہ سابقہ آیت میں کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ توحید کو چھوڑ چکے اور مختلف طریقوں سے مشرکانہ اعمال کا ارتکاب کرکے اپنی دینی حیثیت کو برباد کرچکے ہیں۔ لیکن ان مشرکانہ اعمال کا ذکر کرنے سے پہلے اظہارِ تعجب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ذرا یہود کو پہچاننے کی کوشش کرو یہ وہ لوگ ہیں جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ عنایت کیا گیا تھا ان پر احکامِ شریعت اتارے گئے تھے یہ لوگ مذہب کے بنیادی عقائد اور اساسی روایات سے بہت حد تک باخبر تھے۔ ان سے اس بات کی تو توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ احکام کی اطاعت میں سستی کا ثبوت دیں، معصیت کا راستہ اختیار کریں یا ان کے کچھ طبقات میں انحراف تک نوبت پہنچ جائے لیکن یہ جانتے بوجھتے کہ توحید مذہب کی بنیاد ہے اور شرک ایک ایسی بدترین لعنت ہے جو انسان کی دنیا کو بھی اور آخرت کو بھی تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ باایں ہمہ ! وہ اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں یا مشرکوں کو موحدوں کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں تو یہ ایک ایسی انہونی ہے جس کا تصور مذہب کے علمبرداروں اور توحید کے پرستاروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہود نے مشرکانہ اعمال بھی کیے، مسلمان اور اسلام دشمنی میں بتوں کو سجدہ بھی کیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ محبت کی پینگیں بھی بڑھائیں۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے : ( حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ یہود کے سردار حییّ بن اخطب اور کعب بن اشرف جنگ احد کے بعد ایک جماعت کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ میں قریش سے ملنے گئے۔ کعب بن اشرف ابو سفیان کے پاس آیا اور اس نے نبی کریم ﷺ کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔ مشرکینِ مکہ اپنی تمام گمراہیوں کے باوجود مردم شناس تو تھے۔ انھوں نے کہا کہ تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دو بتوں جبت اور طاغوت کے سامنے سجدہ کرو۔ چناچہ کعب بن اشرف نے قریش کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد ﷺ کے خلاف جنگ کریں گے۔ کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا اور اس طرح سے انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرلیا۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے ہم تو بالکل جاہل ہیں اس لیے آپ ہمارے متعلق بتائیں کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد ﷺ ؟ کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے ؟ ابوسفیان نے کہ ہم حاجیوں کے لیے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا دودھ پلاتے ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، اپنے خویش واقربا کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف محمد ﷺ نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے اور اس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے۔ ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا : تم لوگ حق پر ہو۔ محمد ﷺ (معاذاللہ) گمراہ ہوچکا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرماکران کے دجل و فریب کی مذمت کی۔ “ یہود کی اسلام اور مسلمان دشمنی اندازہ فرمائیے ! یہود اہل کتاب میں سے ہیں۔ توحید کی تعلیم اور شرک کی مذمت سے تورات اب بھی معمور ہے۔ وہ مشرکینِ مکہ کی بت پرستی اور ان کے مشرکانہ عقائد کی ہمیشہ مذمت کرتے رہے ہیں۔ مذہب اور وحی الٰہی سے بالکل جاہل اور بیخبر ہونے کی وجہ سے انھیں امی کہہ کر ہمیشہ نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت نے انھیں یہاں تک پہنچایا کہ بتوں کو سجدہ کرنا ان کے نزدیک حرام ہونے کے باوجود اس لیے جائز ٹھہرا کہ اس کے بغیر اسلام دشمنی پر مبنی متحدہ محاذ قائم نہیں ہوسکتا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام توحید کا دین ہے، وہ شرک سے انتہائی نفرت کرنا سکھاتا ہے اس کے پیغمبر کی بنیادی تعلیم ہی یہ ہے۔ اس کے باوجود سیاسی ضرورت کے تحت جب مشرکینِ مکہ نے ان سے پوچھا کہ ہم ہدایت پر ہیں یا محمد ﷺ ؟ اور جو کچھ انھوں نے اپنے مذہب کے بارے میں بتایا یہودخوب جانتے تھے کہ یہ چنداخلاق کی باتیں ہیں جس کا مذہب کے بنیادی عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن انھوں نے کھل کرمشرکینِ مکہ کو آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیا اور آنحضرت ﷺ کو گمراہ ٹھہرایا۔ ان کے اس رویہ سے یہ بات سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے کہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت یہود کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ وہ دنیا کے بدترین لوگوں سے اسلام دشمنی کے لیے سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کا ہر مذہب اسلام سے بہتر ہے اور یہ دشمنی ان کے دل و دماغ میں اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ انھوں نے اس کو اپنے مذہب اور اپنی خارجہ پالیسی کی اس وقت بھی بنیاد بنایا تھا اور آج تک بھی یہی بنیاد ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال میں ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انھیں کے زیر اثر عیسائیوں نے بھی اسی پالیسی کو آج تک اپنائے رکھاکیون کہ میں اس سے پہلے اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ عیسائیت پر یہودیت کے اتنے گہرے اثرات ہیں کہ وہ یہودیت کا دوسرا ایڈیشن معلوم ہوتا ہے۔ ان کی دشمنی میں تو کوئی فرق واقع نہیں ہوا البتہ مسلمانوں میں یہ فرق ضرور پیدا ہوا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک مسلمان ان کی اسلام دشمنی کو کبھی نہیں بھولے وہ ان کے چہروں کو ہزار پردوں میں بھی پہچان لیتے تھے۔ وہ قرآن کریم کی عطا کردہ اس روشنی سے اچھی طرح بہرہ ور تھے۔ لتجدن اشدالناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا (تم مسلمانوں کی عداوت میں یہود اور مشرکوں کو سب سے شدید پائو گے ) اور بیسیوں جگہ اس بات کا حکم دیا : یا ایھا الذین امنوالاتتخذوا الیھود والنصاریٰ اولیاء بعض اولیاء بعض (مسلمانو ! یہود اور نصاریٰ کو کبھی اپنا ہمدرد اور خیرخواہ نہ سمجھنا اور انھیں کبھی دوست نہ بناناوہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہیں لیکن تمہارے بدترین دشمن ہیں) لیکن آج کے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد بری طرح اس بصیرت سے محروم ہوچکی ہے۔ یہودونصاریٰ کی دشمنی اپنی جگہ قائم ہے، لیکن ہم ان کی دشمنی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے زندگی کے ہر مرحلے پر مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اب تو وہ مسلمانوں کے دو ملکوں پر قبضہ بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ہمارے بےبصیرتی کا عالم یہ ہے کہ ہم ان کی دشمنی کو بھی خیرخواہی سمجھتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر دھوکہ دیتے ہیں لیکن ہمارے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ہمارا حال تو یہ ہے : ؎ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں آج تو انھوں نے پورے عالم اسلام کو لہو میں نہلا دیا ہے۔ ان کی عظمتیں خاک آلود کردی ہیں۔ ان کے ادب و احترام کے مراکز ان کی بمباری کی زد میں ہیں۔ ان کے دین، تہذیب اور ثقافت کی ایک ایک بات انھیں کھٹکتی ہے اور وہ اسے مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے دانشور اور ہمارے سیاستدان ان سے اب بھی وفا کی امید رکھتے ہیں ؎ تم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے قرآن کریم نے یہود و نصاریٰ دونوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ دونوں مسلمانوں سے کبھی خوش نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر ان کا دین اختیار نہ کرلیں۔ قرآن کے نزول کے وقت یقینا یہود و نصاریٰ کا یہی حال تھا۔ لیکن ہمارے قومی شاعر اقبال نے جس طرح آزادی سے پہلے یورپ کے مرکز میں رہ کر ان استعماری قوتوں کو دیکھا اور پہچاناتو وہ اس نتیجے پر پہنچا ؎ کرے قبول اگر دین مصطفیٰ انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام یہود و نصاریٰ کا اصل چہرہ پہچاننے کی ضرورت آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کا اصل چہرہ پہچانیں۔ قرآن کی دی ہوئی فکر کے مطابق ان کی دشمنی سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں۔ لیکن اس بدنصیبی کا تو کوئی علاج نہیں ہے کہ تدابیراختیار کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم تو یہ سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ یہود و نصاریٰ واقعی ہمارے دشمن ہیں۔ جب تک ہماری فکر، ہماری سوچ، ہمارا ذہنی رویہ اور ہماری قوت فیصلہ ان کے طلسم سے آزاد نہیں ہوتی، اس وقت تک ہم اپنی قسمت سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ تاریخ کا طالب علم جب یہود و نصاریٰ کی تاریخ پڑھتا ہے اور پھر ان کے موجودہ رویے کو دیکھتا ہے تو اسے مسلمانوں کے خلاف ان کی پالیسیوں کو سمجھنے میں نہایت دشواری پیش آتی ہے۔ وہ اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کرسکتا کہ قومیں اور ان کے افراد کوئی پتھر کے بنے ہوئے مجسمے تو نہیں ہوتے کہ حالات کے ساتھ ان میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ وہ تو ہر دور میں سوچنے سمجھنے کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں اور اسی سے ان کے بنیادی فیصلوں میں تبدیلی بھی آتی ہے۔ یہود و نصاریٰ آخر مسلمانوں کے معاملے میں پتھر کے ہو کر کیوں رہ گئے ؟ قرآن کریم نے اس عقدہ کو کھولتے ہوئے فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے “ اور جن لوگوں پر اللہ لعنت فرمادیتے ہیں ان کی ہدایت کے لیے کوئی کوشش کبھی سود مند نہیں ہوتی۔ تبلیغ و دعوت کی ہر کاوش ان کے سامنے بےبسی محسوس کرتی ہے۔ یہی حال ان دونوں قوموں کا بھی ہے۔ البتہ ! آخری جملے میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ مسلمان اگر اپنے عہد رفتہ کو تازہ کرلیں اور وہ حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں اور اسلام کے سرچشموں سے صحیح معنی میں سیرابی کا انتظام کرلیں اور پھر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان معاند قوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں تو تم دیکھوگے کہ ان قوتوں کو دنیا میں اپنا کوئی مددگار نہیں ملے گا۔ ان کی یہ ساری طلسم آرائی فرعون کے جادو گروں کی رسیوں کے سانپ بن جانے کی طرح ہے۔ وہ اس وقت تک لہراتی رہیں جب تک عصائے موسیٰ اژدھا بن کر ان کے سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کی زندگی دم توڑ گئی۔ غیرمسلم قوتیں اس لیے طاقتور ہیں کہ مسلمان کمزور ہیں۔ جس دن مسلمانوں نے اپنے حقیقی سرچشمے سے تعلق پیدا کرلیا اس دن صورتحال بدل جائے گی۔ اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْـکِ فَاِذًا لَّایُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا لا ( کیا ان کا کوئی حصہ ہے سلطنت میں ؟ پھر تو یہ نہ دیں گے لوگوں کو ایک تل برابر) (النسآء : 53) نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْـکِ کا مفہوم اس آیت کریمہ کے مختلف مطالب اہل علم نے بیان کیے ہیں۔ اور ان میں سے ہر مطلب کے لیے اس آیت میں گنجائش موجود ہے۔ سیاق کلام پر اگر آپ کی نظر ہے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہود کی اسلام اور مسلمان دشمنی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور وہ اٹھتے بیٹھے اسلام اور مسلمانوں کے عروج پر اپنی جلن کا اظہار کرتے رہتے تھے اور جس کا لاوہ ان کے سینوں میں سلگتا تھا۔ اس کا تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بغض اور نفرت ان کی زبانوں سے عیاں ہے۔ لیکن جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے اس بغض اور دشمنی کو دیکھتے ہوئے اور ان کے رویے کو سب کے سامنے رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے : کہ کیا اللہ کی حکومت اور سلطنت میں کوئی حصہ ان کے قبضہ میں ہے ؟ کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسر ہدایت ہے اور کون نہیں ہے۔ حالانکہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسا کوئی اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن ان کی طبیعت کی خست اور ان کے بخل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا کوئی اختیار ان کے پاس ہوتا تو بھلائی کی کوئی بات اورا للہ کی کوئی نعمت کبھی کسی کے نصیب میں نہ ہوتی اور وہ پھوٹی کوڑی بھی کسی کو نہ دیتے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے ؟ کہ دوسرے لوگ اس میں حصہ بٹانا چاہتے ہیں حالانکہ ان سے حکومت چھنے ہوئے صدیاں گزر گئیں۔ لیکن یہ اس طرح نفرت اور بغض کا اظہار کررہے ہیں جیسے مسلمان قدم قدم جو آگے بڑھ رہے ہیں تو وہ ان سے حکومت چھین لینا چاہتے ہیں اور یہ اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں۔ حالانکہ سوال صرف یہ ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے ؟ اور اللہ نے دین کی عظمت سے کسے مالامال کیا ہے ؟ لیکن ان کی حق دشمنی دیکھئے کہ یہ اعترافِ حق کے لیے بھی تیار نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ المُلْـکِ سے مراد ” اللہ کی حکومت اور سلطنت “ ہے۔ وہ اپنی حاکمانہ حیثیت سے جسے چاہتا ہے نبوت عطا کرتا ہے، جس قوم کو چاہتا ہے اس نبوت کی پیروکار بنا کرحاملِ دعوت امت کے منصب پر فائز کردیتا ہے۔ چناچہ اس نے اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے آج آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو اپنے اس فضل سے نوازا ہے۔ لیکن یہود کو ایسی آگ لگی ہے کہ وہ یوں سمجھتے ہیں گویا کہ ان کے اقتدار کو چیلنج کردیا گیا ہے۔ اگر ان کے پاس واقعی ایسا کوئی اختیار ہوتا تو وہ یقینا اپنی قومی خست کی وجہ سے کسی کے یہاں خیر کا سایہ بھی نہ پڑنے دیتے۔ لیکن وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کوئی اختیاران کے پاس نہیں۔ تو پھر جس طرح انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بغض سے بھرپور ایک لڑائی شروع کررکھی ہے اس کا ہدف مسلمان نہیں اللہ کی ذات کو ہونا چاہیے کیونکہ مسلمانوں نے اپنے طور سے تو کوئی دعویٰ نہیں کیا ان میں پیغمبر تشریف لائے کتاب نازل ہوئی یہ سب اللہ کے فضل سے ہوا۔ یہود کو اگر لڑائی لڑنی ہے تو اللہ سے لڑنی چاہیے اور یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ سے لڑائی کرکے کبھی کوئی نہیں جیت سکتا تو پھر آخر وہ اپنی ان حرکتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ اور ایک ایسی کوشش پر جس کا کبھی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا وہ کیوں اپنی صلاحیتیں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟ کیا اتنی بات کو ان کی عقلیں سمجھنے سے قاصر ہیں ؟ اس کا جواب اگلی آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔
Top