Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف (کو) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يُؤْمِنُوْنَ : وہ مانتے ہیں بِالْجِبْتِ : بت (جمع) وَالطَّاغُوْتِ : اور سرکش (شیطان) وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ اَهْدٰى : راہ راست پر مِنَ : سے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) سَبِيْلًا : راہ
(کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ؟ یہ جِبْت اور طَاغُوْت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پرتو یہ ہیں
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْـکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓـؤُلَآئِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَـہٗ نَصِیْرًا ط (کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ؟ یہ جِبْت اور طَاغُوْت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پرتو یہ ہیں یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے تو تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاسکتے) (النسآء : 51 تا 52) جِبْت اور طاغُوْت کا مفہوم آیتِ کریمہ کی تشریح سے پہلے جِبْت اور طَاغُوْت کی تشریح کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اہل علم کی ایک رائے یہ ہے کہ جِبْت کے اصل معنی ” بےحقیقت، بےاصل اور بےفائدہ چیز “ کے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون، مہورت اور تمام دوسری وہمی اور خیالی باتوں کو جِبْت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے : اَلنِّیَاقَـۃُ وَالطَّرْقُ وَالطَّیْرُمِنَ الْجِبْتِ (جانوروں کی آوازوں سے فال لینا، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب جِبْت کے قبیل سے ہیں) طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنی جائز حدود سے تجاوز کرگیا ہو قرآن کریم کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خودآقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ پھر طاغوت قرآن کریم میں طواغیت کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ طاغوت کی صرف ایک ہی قسم نہیں ہے۔ طاغوت ایک تو شیطان ہے جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار باغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنانفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں میں کھنیچے کھینچے لیے پھرتا ہے اور بیشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مختصر یہ کہ جو قوت بھی اللہ کے مقابلے میں اپنی اطاعت کراتی ہے چاہے طاقت وجبر سے، چاہے خواشات کو اپیل کرکے۔ اسے قرآن کریم طاغوت کے معنی میں استعمال کرتا ہے۔ بعض دیگراہلِ علم کا خیال ہے کہ جِبْت سے مراد اعمالِ سفلیہ مثلاً سحر، شعبدہ، ٹونے ٹوٹکے، رمل جفر، فال گیری، نجوم، آگ پر چلنا اور اس قسم کی دوسری خرافات ہیں۔ ہاتھ کی لکیروں کا علم بھی اسی میں شامل ہے۔ اعمالِ سفلیہ کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا تعلق بیشتر شیطانی قوتوں اور ارواحِ خبیثہ سے ہوتا ہے۔ اس طرح کے اعمال کا ارتکاب کرنے والوں کو شیطانی قوتوں اور ارواحِ خبیثہ سے مدد مانگنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ وہ اپنے معمول کو بھی ایسے وظائف بتاتے ہیں جس میں ان قوتوں سے مدد مانگنا شامل ہوتا ہے۔ اس وضاحت کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ اس آیت کریمہ میں انہی قوتوں کو طاغوت کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس بارے میں متعدد اقوال ذکر کیے ہیں۔ حضرت ابن عباس ( رض) ، ابن جبیر ( رض) اور ابوالعالیہ ( رض) فرماتے ہیں کہ جِبْت حبشی لغت میں ” ساحر “ کو کہتے ہیں اور طاغوت سے مراد ” کاہن “ ہیں۔ حضرت عمر ( رض) فرماتے ہیں کہ جِبْت سے مراد ” سحر “ ہے اور طَاغُوْت سے مراد ” شیطان “۔ حضرت مالک ابن انس ( رض) سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے، ان چیزوں کو ” طَاغُوْت “ کہتے ہیں۔ امامِ قرطبی کی رائے یہ ہے کہ اصل میں جبت تو بت ہی کا نام تھا لیکن بعد میں اس کے استعمال میں وسعت آگئی اور اللہ کے سوا دوسری عبادت کی جانے والی چیزوں پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا۔ یہ جتنی آرا آپ نے دیکھی ہیں بظاہر ان میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ شرک کبھی ارواحِ خبیثہ اور شیطانی قوتوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے اور کبھی شرک بت پرستی کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور کبھی انسان اللہ کی بندگی کی طرح دوسری قوتوں کی بندگی کرنے لگتا ہے۔ جن سے وہ بےدیکھے ڈرتا ہے یا جن سے مفادات کا رشتہ ہے یا جن کے جبر اور اقتدار نے اسے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہ تمام صورتیں شرک کی ہیں۔ ان تمام صورتوں کو سمیٹتے ہوئے جِبْت اور طَاغُوْت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہود کی اصل بیماری اس آیت کریمہ میں یہود کے دو مشرکانہ رویوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی اصل بیماری جس کی طرف اشارہ سابقہ آیت میں کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ توحید کو چھوڑ چکے اور مختلف طریقوں سے مشرکانہ اعمال کا ارتکاب کرکے اپنی دینی حیثیت کو برباد کرچکے ہیں۔ لیکن ان مشرکانہ اعمال کا ذکر کرنے سے پہلے اظہارِ تعجب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ذرا یہود کو پہچاننے کی کوشش کرو یہ وہ لوگ ہیں جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ عنایت کیا گیا تھا ان پر احکامِ شریعت اتارے گئے تھے یہ لوگ مذہب کے بنیادی عقائد اور اساسی روایات سے بہت حد تک باخبر تھے۔ ان سے اس بات کی تو توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ احکام کی اطاعت میں سستی کا ثبوت دیں، معصیت کا راستہ اختیار کریں یا ان کے کچھ طبقات میں انحراف تک نوبت پہنچ جائے لیکن یہ جانتے بوجھتے کہ توحید مذہب کی بنیاد ہے اور شرک ایک ایسی بدترین لعنت ہے جو انسان کی دنیا کو بھی اور آخرت کو بھی تباہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ باایں ہمہ ! وہ اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں یا مشرکوں کو موحدوں کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں تو یہ ایک ایسی انہونی ہے جس کا تصور مذہب کے علمبرداروں اور توحید کے پرستاروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہود نے مشرکانہ اعمال بھی کیے، مسلمان اور اسلام دشمنی میں بتوں کو سجدہ بھی کیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ محبت کی پینگیں بھی بڑھائیں۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے : ( حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ یہود کے سردار حییّ بن اخطب اور کعب بن اشرف جنگ احد کے بعد ایک جماعت کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ میں قریش سے ملنے گئے۔ کعب بن اشرف ابو سفیان کے پاس آیا اور اس نے نبی کریم ﷺ کے خلاف ان کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ کیا۔ مشرکینِ مکہ اپنی تمام گمراہیوں کے باوجود مردم شناس تو تھے۔ انھوں نے کہا کہ تم ایک دھوکہ دینے والی قوم ہو اگر تم واقعی اپنے قول میں سچے ہو تو ہمارے ان دو بتوں جبت اور طاغوت کے سامنے سجدہ کرو۔ چناچہ کعب بن اشرف نے قریش کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد کعب نے قریش سے کہا کہ تیس آدمی تم میں اور تیس ہم میں سے سامنے آئیں تاکہ رب کعبہ کے ساتھ اس چیز کا عہد کریں کہ ہم سب مل کر محمد ﷺ کے خلاف جنگ کریں گے۔ کعب کی اس تجویز کو قریش نے پسند کیا اور اس طرح سے انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرلیا۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کعب سے کہا کہ تم اہل علم ہو تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے ہم تو بالکل جاہل ہیں اس لیے آپ ہمارے متعلق بتائیں کہ ہم حق پر چلنے والے ہیں یا محمد ﷺ ؟ کعب نے پوچھا کہ تمہارا دین کیا ہے ؟ ابوسفیان نے کہ ہم حاجیوں کے لیے اپنے اونٹوں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا دودھ پلاتے ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں، اپنے خویش واقربا کے تعلقات کو قائم رکھتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف محمد ﷺ نے اپنے آبائی دین کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنوں سے علیحدہ ہوچکا ہے اور اس نے ہمارے قدیم دین کے خلاف اپنا ایک نیا دین پیش کیا ہے۔ ان باتوں کو سن کر کعب بن اشرف نے کہا : تم لوگ حق پر ہو۔ محمد ﷺ (معاذاللہ) گمراہ ہوچکا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرماکران کے دجل و فریب کی مذمت کی۔ “ یہود کی اسلام اور مسلمان دشمنی اندازہ فرمائیے ! یہود اہل کتاب میں سے ہیں۔ توحید کی تعلیم اور شرک کی مذمت سے تورات اب بھی معمور ہے۔ وہ مشرکینِ مکہ کی بت پرستی اور ان کے مشرکانہ عقائد کی ہمیشہ مذمت کرتے رہے ہیں۔ مذہب اور وحی الٰہی سے بالکل جاہل اور بیخبر ہونے کی وجہ سے انھیں امی کہہ کر ہمیشہ نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ لیکن اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت نے انھیں یہاں تک پہنچایا کہ بتوں کو سجدہ کرنا ان کے نزدیک حرام ہونے کے باوجود اس لیے جائز ٹھہرا کہ اس کے بغیر اسلام دشمنی پر مبنی متحدہ محاذ قائم نہیں ہوسکتا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام توحید کا دین ہے، وہ شرک سے انتہائی نفرت کرنا سکھاتا ہے اس کے پیغمبر کی بنیادی تعلیم ہی یہ ہے۔ اس کے باوجود سیاسی ضرورت کے تحت جب مشرکینِ مکہ نے ان سے پوچھا کہ ہم ہدایت پر ہیں یا محمد ﷺ ؟ اور جو کچھ انھوں نے اپنے مذہب کے بارے میں بتایا یہودخوب جانتے تھے کہ یہ چنداخلاق کی باتیں ہیں جس کا مذہب کے بنیادی عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن انھوں نے کھل کرمشرکینِ مکہ کو آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ قرار دیا اور آنحضرت ﷺ کو گمراہ ٹھہرایا۔ ان کے اس رویہ سے یہ بات سمجھنا نہایت آسان ہوجاتا ہے کہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت یہود کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ وہ دنیا کے بدترین لوگوں سے اسلام دشمنی کے لیے سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کا ہر مذہب اسلام سے بہتر ہے اور یہ دشمنی ان کے دل و دماغ میں اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ انھوں نے اس کو اپنے مذہب اور اپنی خارجہ پالیسی کی اس وقت بھی بنیاد بنایا تھا اور آج تک بھی یہی بنیاد ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال میں ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انھیں کے زیر اثر عیسائیوں نے بھی اسی پالیسی کو آج تک اپنائے رکھاکیون کہ میں اس سے پہلے اس بات کو واضح کرچکا ہوں کہ عیسائیت پر یہودیت کے اتنے گہرے اثرات ہیں کہ وہ یہودیت کا دوسرا ایڈیشن معلوم ہوتا ہے۔ ان کی دشمنی میں تو کوئی فرق واقع نہیں ہوا البتہ مسلمانوں میں یہ فرق ضرور پیدا ہوا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلمان بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک مسلمان ان کی اسلام دشمنی کو کبھی نہیں بھولے وہ ان کے چہروں کو ہزار پردوں میں بھی پہچان لیتے تھے۔ وہ قرآن کریم کی عطا کردہ اس روشنی سے اچھی طرح بہرہ ور تھے۔ لتجدن اشدالناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا (تم مسلمانوں کی عداوت میں یہود اور مشرکوں کو سب سے شدید پائو گے ) اور بیسیوں جگہ اس بات کا حکم دیا : یا ایھا الذین امنوالاتتخذوا الیھود والنصاریٰ اولیاء بعض اولیاء بعض (مسلمانو ! یہود اور نصاریٰ کو کبھی اپنا ہمدرد اور خیرخواہ نہ سمجھنا اور انھیں کبھی دوست نہ بناناوہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہیں لیکن تمہارے بدترین دشمن ہیں) لیکن آج کے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد بری طرح اس بصیرت سے محروم ہوچکی ہے۔ یہودونصاریٰ کی دشمنی اپنی جگہ قائم ہے، لیکن ہم ان کی دشمنی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انھوں نے زندگی کے ہر مرحلے پر مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اب تو وہ مسلمانوں کے دو ملکوں پر قبضہ بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ہمارے بےبصیرتی کا عالم یہ ہے کہ ہم ان کی دشمنی کو بھی خیرخواہی سمجھتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر دھوکہ دیتے ہیں لیکن ہمارے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ہمارا حال تو یہ ہے : ؎ بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں آج تو انھوں نے پورے عالم اسلام کو لہو میں نہلا دیا ہے۔ ان کی عظمتیں خاک آلود کردی ہیں۔ ان کے ادب و احترام کے مراکز ان کی بمباری کی زد میں ہیں۔ ان کے دین، تہذیب اور ثقافت کی ایک ایک بات انھیں کھٹکتی ہے اور وہ اسے مٹادینے پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے دانشور اور ہمارے سیاستدان ان سے اب بھی وفا کی امید رکھتے ہیں ؎ تم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے قرآن کریم نے یہود و نصاریٰ دونوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ دونوں مسلمانوں سے کبھی خوش نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر ان کا دین اختیار نہ کرلیں۔ قرآن کے نزول کے وقت یقینا یہود و نصاریٰ کا یہی حال تھا۔ لیکن ہمارے قومی شاعر اقبال نے جس طرح آزادی سے پہلے یورپ کے مرکز میں رہ کر ان استعماری قوتوں کو دیکھا اور پہچاناتو وہ اس نتیجے پر پہنچا ؎ کرے قبول اگر دین مصطفیٰ انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام یہود و نصاریٰ کا اصل چہرہ پہچاننے کی ضرورت آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہود و نصاریٰ کا اصل چہرہ پہچانیں۔ قرآن کی دی ہوئی فکر کے مطابق ان کی دشمنی سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کریں۔ لیکن اس بدنصیبی کا تو کوئی علاج نہیں ہے کہ تدابیراختیار کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم تو یہ سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ یہود و نصاریٰ واقعی ہمارے دشمن ہیں۔ جب تک ہماری فکر، ہماری سوچ، ہمارا ذہنی رویہ اور ہماری قوت فیصلہ ان کے طلسم سے آزاد نہیں ہوتی، اس وقت تک ہم اپنی قسمت سنوارنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ تاریخ کا طالب علم جب یہود و نصاریٰ کی تاریخ پڑھتا ہے اور پھر ان کے موجودہ رویے کو دیکھتا ہے تو اسے مسلمانوں کے خلاف ان کی پالیسیوں کو سمجھنے میں نہایت دشواری پیش آتی ہے۔ وہ اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کرسکتا کہ قومیں اور ان کے افراد کوئی پتھر کے بنے ہوئے مجسمے تو نہیں ہوتے کہ حالات کے ساتھ ان میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ وہ تو ہر دور میں سوچنے سمجھنے کے مراحل سے گزرتے رہتے ہیں اور اسی سے ان کے بنیادی فیصلوں میں تبدیلی بھی آتی ہے۔ یہود و نصاریٰ آخر مسلمانوں کے معاملے میں پتھر کے ہو کر کیوں رہ گئے ؟ قرآن کریم نے اس عقدہ کو کھولتے ہوئے فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے “ اور جن لوگوں پر اللہ لعنت فرمادیتے ہیں ان کی ہدایت کے لیے کوئی کوشش کبھی سود مند نہیں ہوتی۔ تبلیغ و دعوت کی ہر کاوش ان کے سامنے بےبسی محسوس کرتی ہے۔ یہی حال ان دونوں قوموں کا بھی ہے۔ البتہ ! آخری جملے میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ مسلمان اگر اپنے عہد رفتہ کو تازہ کرلیں اور وہ حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں اور اسلام کے سرچشموں سے صحیح معنی میں سیرابی کا انتظام کرلیں اور پھر اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے ان معاند قوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں تو تم دیکھوگے کہ ان قوتوں کو دنیا میں اپنا کوئی مددگار نہیں ملے گا۔ ان کی یہ ساری طلسم آرائی فرعون کے جادو گروں کی رسیوں کے سانپ بن جانے کی طرح ہے۔ وہ اس وقت تک لہراتی رہیں جب تک عصائے موسیٰ اژدھا بن کر ان کے سامنے نہیں آیا۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کی زندگی دم توڑ گئی۔ غیرمسلم قوتیں اس لیے طاقتور ہیں کہ مسلمان کمزور ہیں۔ جس دن مسلمانوں نے اپنے حقیقی سرچشمے سے تعلق پیدا کرلیا اس دن صورتحال بدل جائے گی۔ اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْـکِ فَاِذًا لَّایُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا لا ( کیا ان کا کوئی حصہ ہے سلطنت میں ؟ پھر تو یہ نہ دیں گے لوگوں کو ایک تل برابر) (النسآء : 53) نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْـکِ کا مفہوم اس آیت کریمہ کے مختلف مطالب اہل علم نے بیان کیے ہیں۔ اور ان میں سے ہر مطلب کے لیے اس آیت میں گنجائش موجود ہے۔ سیاق کلام پر اگر آپ کی نظر ہے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہود کی اسلام اور مسلمان دشمنی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور وہ اٹھتے بیٹھے اسلام اور مسلمانوں کے عروج پر اپنی جلن کا اظہار کرتے رہتے تھے اور جس کا لاوہ ان کے سینوں میں سلگتا تھا۔ اس کا تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قرآن کریم نے اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بغض اور نفرت ان کی زبانوں سے عیاں ہے۔ لیکن جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے اس بغض اور دشمنی کو دیکھتے ہوئے اور ان کے رویے کو سب کے سامنے رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے : کہ کیا اللہ کی حکومت اور سلطنت میں کوئی حصہ ان کے قبضہ میں ہے ؟ کہ یہ فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کون برسر ہدایت ہے اور کون نہیں ہے۔ حالانکہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسا کوئی اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن ان کی طبیعت کی خست اور ان کے بخل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا کوئی اختیار ان کے پاس ہوتا تو بھلائی کی کوئی بات اورا للہ کی کوئی نعمت کبھی کسی کے نصیب میں نہ ہوتی اور وہ پھوٹی کوڑی بھی کسی کو نہ دیتے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ان کے پاس کسی ملک کی حکومت ہے ؟ کہ دوسرے لوگ اس میں حصہ بٹانا چاہتے ہیں حالانکہ ان سے حکومت چھنے ہوئے صدیاں گزر گئیں۔ لیکن یہ اس طرح نفرت اور بغض کا اظہار کررہے ہیں جیسے مسلمان قدم قدم جو آگے بڑھ رہے ہیں تو وہ ان سے حکومت چھین لینا چاہتے ہیں اور یہ اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلمانوں سے برسر پیکار ہیں۔ حالانکہ سوال صرف یہ ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے ؟ اور اللہ نے دین کی عظمت سے کسے مالامال کیا ہے ؟ لیکن ان کی حق دشمنی دیکھئے کہ یہ اعترافِ حق کے لیے بھی تیار نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ المُلْـکِ سے مراد ” اللہ کی حکومت اور سلطنت “ ہے۔ وہ اپنی حاکمانہ حیثیت سے جسے چاہتا ہے نبوت عطا کرتا ہے، جس قوم کو چاہتا ہے اس نبوت کی پیروکار بنا کرحاملِ دعوت امت کے منصب پر فائز کردیتا ہے۔ چناچہ اس نے اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے آج آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو اپنے اس فضل سے نوازا ہے۔ لیکن یہود کو ایسی آگ لگی ہے کہ وہ یوں سمجھتے ہیں گویا کہ ان کے اقتدار کو چیلنج کردیا گیا ہے۔ اگر ان کے پاس واقعی ایسا کوئی اختیار ہوتا تو وہ یقینا اپنی قومی خست کی وجہ سے کسی کے یہاں خیر کا سایہ بھی نہ پڑنے دیتے۔ لیکن وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسا کوئی اختیاران کے پاس نہیں۔ تو پھر جس طرح انھوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور بغض سے بھرپور ایک لڑائی شروع کررکھی ہے اس کا ہدف مسلمان نہیں اللہ کی ذات کو ہونا چاہیے کیونکہ مسلمانوں نے اپنے طور سے تو کوئی دعویٰ نہیں کیا ان میں پیغمبر تشریف لائے کتاب نازل ہوئی یہ سب اللہ کے فضل سے ہوا۔ یہود کو اگر لڑائی لڑنی ہے تو اللہ سے لڑنی چاہیے اور یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ سے لڑائی کرکے کبھی کوئی نہیں جیت سکتا تو پھر آخر وہ اپنی ان حرکتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ اور ایک ایسی کوشش پر جس کا کبھی کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا وہ کیوں اپنی صلاحیتیں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟ کیا اتنی بات کو ان کی عقلیں سمجھنے سے قاصر ہیں ؟ اس کا جواب اگلی آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔
Top