Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 30
وَ لَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ وَّ اِنَّا بِهٖ كٰفِرُوْنَ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَهُمُ الْحَقُّ : آگیا ان کے پاس حق قَالُوْا : انہوں نے کہا ھٰذَا سِحْرٌ : یہ جادو ہے وَّاِنَّا : اور بیشک ہم بِهٖ كٰفِرُوْنَ : اس کا انکار کرنے والے ہیں
اور جب حق ان کے پاس آگیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے اور ہم اس کے ماننے سے انکار کرتے ہیں
وَلَمَّا جَـآئَ ھُمُ الْحَقُّ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ وَّاِنَّا بِہٖ کٰفِرُوْنَ ۔ (الزخرف : 30) (اور جب حق ان کے پاس آگیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے اور ہم اس کے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ) عوام کو ایک بہلاوا جب قرآن کی صورت میں ان کے پاس حق آگیا اور حق کی روشنی نے ماحول کو روشن کرنا شروع کردیا اور وہ لوگ جنھیں مفادپرستی یا سیادت کے نشے نے اندھا نہیں کیا تھا انھوں نے قرآن پاک سے متأثر ہونا شروع کردیا، تو اشرافِ قریش نے اس صورتحال کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے سوچنا شروع کیا کہ قرآن کی دعوت اور نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے اثر کو کس طرح بےاثر کیا جائے۔ وہ اگر نبی کریم ﷺ کی شخصیت کے حوالے سے کوئی خوردہ گیری یا عیب جوئی کرتے ہیں تو لوگ ان کی بات ماننے سے انکا کردیں گے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی چالیس سالہ زندگی ان کے سامنے ہے۔ مکہ کا ایک ایک باشندہ آپ کے سیرت و کردار کی بلندی، آپ کی معاملہ فہمی، آپ کی راست بازی اور دیانتداری کا گواہ ہے اور اگر وہ قرآن کریم کو ایک لغو اور بےمعنی کتاب قرار دیتے ہیں تو لوگ اسے بھی کبھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کا معجزانہ اسلوب، اس کی بےمثال فصاحت و بلاغت، اس کا محیرالعقول نظام زندگی، اور اس کی کہی ہوئی ہر بات کی صحت اور سچائی ایسی چیزیں ہیں جس کی مثال لانا ناممکن ہے۔ اور یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہر سننے والا اس کی تاثیر سے بچ کے نہیں جاسکتا۔ چناچہ ان لوگوں نے نہایت عیاری کے ساتھ اسی کو دلیل بناتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی غیرمعمولی تاثیر اور اس کا معجزانہ اسلوب درحقیقت اس کے منزل من اللہ ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ محض الفاظ کی جادوگری ہے۔ اس کا پیش کرنے والا ہمارے شاعروں اور خطیبوں کی طرح اس پر غیرمعمولی قدرت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اب اس سحر پر ایمان لانے سے تو رہے اور ایسے سحرزدہ آدمی کا اتباع بھی کوئی عقل کی بات نہیں۔
Top