Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 87
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى یُؤْفَكُوْنَۙ
وَلَئِنْ : اور البتہ اگر سَاَلْتَهُمْ : پوچھو تم ان سے مَّنْ خَلَقَهُمْ : کس نے پیدا کیا ان کو لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ : البتہ ضرور کہیں گے اللہ تعالیٰ نے فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ : تو کہاں سے وہ دھوکہ کھا رہے ہیں۔ پھرائے جاتے ہیں
اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے، تو پھر کہاں بھٹک جاتے ہیں
وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ ۔ (الزخرف : 87) (اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے، تو پھر کہاں بھٹک جاتے ہیں۔ ) مشرکین کے فکروعمل میں تضاد گزشتہ مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کے فکری تضاد اور عملی نارسائیوں کو ملاحظہ کیجیے کہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انھیں کس نے پیدا کیا ہے تو وہ بےتأمل جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔ تو پھر نہ جانے وہ کہاں بھٹکے جاتے ہیں اور ان کی مت کہاں ماری جاتی ہے کہ جب وہ تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سمجھتے ہیں تو مخلوق اور خالق میں برابری کیسی ؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مخلوق کو خالق کے یہاں وہ تقرب حاصل ہوجائے کہ وہ جس کو چاہے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچالے اور جسے چاہے اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبہ دلوادے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مخلوق کو خالق پر برتری حاصل ہے اور وہ ایسی حیثیت کی مالک ہے کہ وہ خالق سے اپنی مرضی کی بات اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی منوا سکتی ہے، اس سے بڑی فکری تضاد کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔
Top