Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 86
وَ لَا یَمْلِكُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَلَا : اور نہیں يَمْلِكُ الَّذِيْنَ : مالک ہوسکتے۔ اختیار وہ لوگ رکھتے يَدْعُوْنَ : جن کو وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهِ : اس کے سوا سے الشَّفَاعَةَ : شفاعت کے اِلَّا : مگر مَنْ شَهِدَ : جو گواہی دے بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ : اور وہ، وہ جانتے ہوں
اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، بجز ان لوگوں کے جو حق کی گواہی دیں اور وہ علم بھی رکھتے ہوں
وَلاَ یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَۃَ اِلاَّ مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ ۔ (الزخرف : 86) (اللہ کو چھوڑ کر جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، بجز ان لوگوں کے جو حق کی گواہی دیں اور وہ علم بھی رکھتے ہوں۔ ) ایک غلط فہمی کا ازالہ انسان اس بات کو خوب جانتا ہے کہ زمین و آسمان اور ان دونوں کے درمیان کس کی حکومت اور کس کا ارادہ کارفرما ہے۔ باایں ہمہ نہ جانے ان کے ذہنوں میں یہ بات کہاں سے آجاتی ہے کہ مخلوقات میں سے بعض مخلوقات ایسی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا حق دے رکھا ہے۔ اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کا حق نہیں رکھتا۔ بجز ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ خاص طور پر اس کی اجازت دے دیں اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ وہ جس کی شفاعت کرنا چاہتے ہیں کیا اس کے بارے میں انھیں پورا علم ہے۔ اور کیا وہ اس احتیاط کو ملحوظ رکھ سکیں گے کہ شفاعت میں کوئی غلط بات شامل نہ ہونے پائے۔ اس لیے کہ جس کے سامنے یہ سفارش کی جارہی ہے وہ معاملے سے بیخبر نہیں اور پھر اس کا علم یقینا شفاعت کرنے والے سے زیادہ ہے۔ اس کے حضور معمولی کوتاہی بھی برا نتیجہ پیدا کرسکتی ہے۔ اس لیے شفاعت کو ذاتی استحقاق سمجھنے کا تو کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو اس شخص کو ملے گا جسے اللہ تعالیٰ چاہے گا اور جو حق کا پوری طرح پاسدار ہوگا۔
Top