Ruh-ul-Quran - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو پھر تمہیں اپنے کیے پر پشیمانی ہو
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ م بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا م بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ ۔ (الحجرات : 6) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی اہم خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو، مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو پھر تمہیں اپنے کیے پر پشیمانی ہو۔ ) مسلمانوں کی اجتماعیت کو نقصان سے بچانے کے لیے ایک ہدایت مسلمانوں کی اجتماعیت کو ایسے نقصان سے بچانے کے لیے جس سے ان کی شیرازہ بندی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس آیت میں ایک ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مدینہ اس وقت چونکہ اعدائے دین سے گھرا ہوا ہے، قرب و جوار کے قبائل سے ہر وقت کوئی نہ کوئی خطرہ رہتا ہے اور پھر جب تک اسلام کو اللہ تعالیٰ غلبہ عمومی عطا نہیں فرماتے، حالات ایسے ہی دگرگوں رہیں گے۔ اس لیے ہر وقت اس بات کا امکان ہے کہ جو لوگ قوت سے مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچا سکے وہ افواہ سازی اور افواہیں پھیلانے سے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی کوئی فاسق شخص کوئی اہم خبر لے کر آئے تو اس پر کوئی کارروائی کرنے سے پہلے فوراً اس کی تحقیق کرو کہ جو شخص یہ خبر لے کے آیا ہے وہ ایک بےاعتبار آدمی ہے۔ کیا اس خبر کے معاملے میں اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو شریعت کی حدودوقیود سے بےپرواہ آدمی ہو۔ اور پھر یہ معاملہ ہر خبر کا نہیں بلکہ یہاں لفظ ” نباء “ استعمال ہوا ہے جو اہم خبر کو کہتے ہیں جس کو باور کرلینے یا اس پر عمل کرنے سے دوررس نتائج کے پیدا ہونے کا امکان ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ صرف خبر لانے والے ہی کی نہیں بلکہ ایسی دوررس نتائج کی حامل خبر کی بھی تحقیق کی جائے، درایت کی کسوٹی پر کس کر دیکھا جائے کہ یہ خبر صحیح ہو بھی سکتی ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم محض خوش گمانی میں اس خبر کی وجہ سے کسی قوم پر حملہ کردو اور بعد میں تمہیں پتہ چلے کہ یہ تو خبر سرے سے صحیح نہ تھی اور پھر تمہیں پچھتانا پڑے۔ اس سے فقہاء نے یہ سمجھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اہم خبروں اور اہم معاملات کے بارے میں ہے عام خبروں کے بارے میں نہیں۔ مثلاً کوئی شخص آکر یہ کہتا ہے کہ یہ ہدیہ آپ کو فلاں نے بھیجا ہے تو یہ خبر ایسی نہیں جس کی تحقیق کی ضرورت ہو، اس پر عمل جائز ہے۔ یا کوئی شخص کسی کے گھر میں جاتا ہے اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، اندر سے کوئی شخص آکر کہتا ہے کہ آجاؤ۔ تو وہ شخص اس کے کہنے پر اندر جاسکتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ صاحب خانہ کی طرف سے اس کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح۔ اسی آیت کی وجہ سے محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا۔ فقہاء نے اسی سے قانونِ شہادت مرتب کیا۔ آیت کے شان نزول سے متعلق وضاحت یہ تو اس آیت کا ایک عام مفہوم اور ایک عام ہدایت ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔ لیکن ہمارے آئمہ تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور ان کا مختصر قصہ یہ ہے کہ ولید بن عقبہ کو آنحضرت ﷺ نے قبیلہ بنی المصطلق کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ یہ ان کے علاقے میں پہنچے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور اہل قبیلہ سے ملے بغیر مدینہ واپس جا کر رسول اللہ ﷺ سے شکایت کردی کہ انھوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ یہ خبر سن کر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے ارادہ فرمایا کہ ان لوگوں کی سرکوبی کی جائے۔ روایات مختلف ہیں کہ آپ نے اس مقصد کے لیے ایک دستہ روانہ کردیا یا روانہ کرنے والے تھے کہ بنو المصطلق کے سردار حارث بن ضرار اس دوران میں خود ایک وفد لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور انھوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم ! ہم نے تو ولید کو دیکھا تک نہیں، کجا کہ زکوٰۃ دینے سے انکار اور ان کے قتل کے ارادے کا کوئی سوال پیدا ہو۔ اس شان نزول کے بارے میں بعض لوگوں نے شبہات کا اظہار کیا اور بعض سوالات اٹھائے ہیں۔ ہم اس کی وضاحت کے لیے معارف القرآن کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں : اس آیت کا ولید بن عقبہ ( رض) کے متعلق نازل ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے اور آیت میں ان کو فاسق کہا گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ( رض) میں کوئی فاسق بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ اس مسلمہ اور متفق علیہ ضابطہ کیخلاف ہے کہ الصحابۃ کلہم عدول، یعنی صحابہ کرام سب کے سب ثقہ ہیں ان کی کسی خبر و شہادت پر کوئی گرفت نہیں کیا جاسکتی۔ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں فرمایا کہ اس معاملے میں حق بات وہ ہے جس کی طرف جمہور علماء گئے ہیں کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ان سے گناہ کبیرہ بھی سرزد ہوسکتا ہے جو فسق ہے اور اس گناہ کے وقت ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جس کے وہ مستحق ہیں یعنی شرعی سزا جاری کی جائے گی اور اگر کذب ثابت ہوا تو ان کی خبر و شہادت رد کردی جائے گی لیکن عقیدہ اہلسنّت والجماعت کا نصوص قرآن و سنت کی بناء پر یہ ہے کہ صحابی سے گناہ تو ہوسکتا ہے مگر کوئی صحابی ایسا نہیں جو گناہ سے توبہ کرکے پاک نہ ہوگیا ہو۔ قرآن کریم نے علی الاطلاق ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے۔ ؓ و رضوا عنہ، الآیۃ، اور رضائے الٰہی گناہوں کی معافی کے بغیر نہیں ہوتی، جیسا کہ قاضی ابویعلی نے فرمایا کہ رضا اللہ تعالیٰ کی ایک صفت قدیمہ ہے وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انہی کے لیے فرماتے ہیں جن کے متعلق وہ جانتے ہیں کہ ان کی وفات موجباتِ رضاء پر ہوگی (کذا فی الصارم المسلول لابن تیمیہ) خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کی عظیم الشان جماعت میں سے گنے چنے چند آدمیوں سے کبھی کوئی گناہ سرزد بھی ہوا ہے تو ان کو فوراً توبہ نصیب ہوئی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو رسول کریم ﷺ کی صحبت کی برکت سے ایسا بنادیا تھا کہ شریعت ان کی طبیعت بن گئی تھی۔ خلاف شرع کوئی کام یا گناہ سرزد ہونا انتہائی شاذونادر تھا۔ ان کے اعمال صالحہ نبی کریم ﷺ اور اسلام پر اپنی جانیں قربان کرنا اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے اتباع کو وظیفہ زندگی بنانا اور اس کے لیے ایسے مجاہدات کرنا جن کی نظیر پچھلی امتوں میں نہیں ملتی۔ ان بیشمار اعمالِ صالحہ اور فضائل و کمالات کے مقابلے میں عمر بھر میں کسی گناہ کا سرزد ہوجانا اس کو خود ہی کالعدم کردیتا ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و عظمت اور ادنیٰ سے گناہ کے وقت ان کا خوف و خشیت اور فوراً توبہ کرنا بلکہ اپنے آپ کو سزا کے لیے خود پیش کردینا کہیں اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دینا وغیرہ روایات حدیث میں معروف و مشہور ہیں اور بحکم حدیث گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے کہ جیسے گناہ کیا ہی نہیں۔ تیسرے حسب ارشاد قرآن اعمال صالحہ اور حسنات خود بھی گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں۔ انّ الحسنات یذھبن السّیّـٔاتخصوصاً جبکہ ان کے حسنات عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ان کا حال وہ ہے جو ابودائود و ترمذی نے حضرت سعید بن زید سے نقل کیا ہے کہ واللّٰہ لمشھد رجل منھم مع النّبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم یغبّرفیہ وجھہ خیر من عمل احدکم ولو عمر عمر نوح یعنی ” خدا کی قسم ان میں سے کسی شخص کا نبی کریم ﷺ کے ساتھ کسی جہاد میں شریک ہونا جس میں ان کے چہرہ پر غبار پڑگیا ہو تمہاری عمر بھر کی طاعت و عبادت سے افضل ہے اگرچہ اس کو عمر نوح (علیہ السلام) دے دی گئی ہو۔ “ اس لیے ان سے صدور گناہ کے وقت اگرچہ سزا وغیرہ میں معاملہ وہی کیا گیا جو اس جرم کے لیے مقرر تھا مگر اس کے باوجود بعد میں کسی کے لیے جائز نہیں کہ ان میں سے کسی کو فاسق قرار دے، اس لیے اگر آنحضرت ﷺ کے عہد میں کسی صحابی سے کوئی گناہ موجب فسق سرزد بھی ہو اور اس وقت ان کو فاسق کہا بھی گیا تو اس سے یہ جائز نہیں ہوجاتا کہ اس فسق کو ان کے لیے مستمر سمجھ کر معاذاللہ فاسق کہا جائے۔ (کذافی الروح) اور آیت مذکورہ میں تو قطعاً یہ ضروری نہیں کہ ولید بن عقبہ کو فاسق کہا گیا ہو سبب نزول خواہ ان کا معاملہ ہی سہی مگر لفظ فاسق ان کے لیے استعمال کیا گیا یہ ضروری نہیں، وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے تو ولید بن عقبہ سے کوئی ایسا کام ہوا نہ تھا جس کے سبب ان کو فاسق کہا جائے اور اس واقعہ میں بھی جو انھوں نے بنی المصطلق کے لوگوں کی طرف ایک بات غلط منسوب کی وہ بھی اپنے خیال کے مطابق صحیح سمجھ کر کی اگرچہ واقعہ میں غلط تھی اس لیے آیت مذکورہ کا مطلب بےتکلف وہ بن سکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر گزرا ہے کہ اس آیت نے قاعدہ کلیہ فاسق کی خبر کے نامقبول ہونے کے متعلق بیان کیا ہے اور واقعہ مذکورہ پر اس آیت کے نزول سے اس کی مزید تاکید اس طرح ہوگئی کہ ولید بن عقبہ اگرچہ فاسق نہ تھے مگر ان کی خبر قرائن قویہ کے اعتبار سے ناقابلِ قبول نظر آئی تو رسول اللہ ﷺ نے محض ان کی خبر پر کسی اقدام سے گریز کرکے خالد بن ولید کو تحقیقات پر مامور فرما دیا تو جب ایک ثقہ اور صالح آدمی کی خبر میں قرائن کی بناء پر شبہ ہوجانے کا معاملہ یہ ہے کہ اس پر قبل از تحقیق عمل نہیں کیا گیا تو فاسق کی خبر کو قبول نہ کرنا اور اس پر عمل نہ کرنا اور زیادہ واضح ہے عدالتِ صحابہ کی مکمل بحث احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں بیان کردی جو شائع ہوچکی ہے اور اس کا کچھ حصہ اگلی آیت وان طائفتان من المؤمنین الاآیۃ کے تحت میں بھی آجائے گا۔ (معارف القرآن)
Top