Ruh-ul-Quran - Hud : 111
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر رکھو ‘ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا ‘ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ کی ہی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط اِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جِمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۔ (المائدہ : 105) ” اے ایمان والو ! تم اپنی فکر رکھو ‘ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا ‘ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ کی ہی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو “۔ امت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کی نوعیت اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ قابل توجہ ہے۔ جیسے جیسے اس میں غور کریں نئے نئے مفاہیم ذہن میں آتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے پہلے لفظ کو دیکھئے کہ اے مسلمانو ! تم اپنی فکر رکھو۔ یہاں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تم امت مسلمہ کی شکل میں ایک اکائی ہو ‘ تم میں سے ہر فرد کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں بلکہ وہ اس بہتے ہوئے دریا کی ایک موج ہے۔ اس لیے تمہیں فکر کرنی ہے تو اپنی نہیں بلکہ اس پورے دریا کی یعنی مجموعی طور پر اس پوری امت کی۔ تم میں سے ہر ایک کا حقیقی مفاد وہ ہے ‘ جو پوری امت کا مفاد ہے اور حقیقی نقصان وہ ہے ‘ جو پوری امت کا نقصان ہے۔ اسی طرح خیر و شر اور علم اور اخلاق کے حوالے سے تمہاری نظر پوری امت مسلمہ پر رہنی چاہیے کہ اس میں کہیں دڑاریں تو نہیں پڑ رہیں ‘ اخلاقی مفاسد کو کہیں ان میں راہ بنانے کا موقع تو نہیں مل رہا ‘ کہیں ان کے عقائد میں اضمحلال پیدا تو نہیں ہو رہا۔ اگر تم پوری امت پر نظر رکھو اور پوری طرح ان کی فکر پر کاربند رہو تو پھر تمہارے گردوپیش باقی قومیں ‘ کچھ بھی کیوں نہ کرتی ہوں ‘ تمہارے لیے چنداں فکر کی بات نہیں۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ تم دیر تک ان سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ تمہارا ہدف پوری دنیا کو راہ راست پر لانا ہے یہ تمہارے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیاد اور اصل (Base) کی حیثیت تو خود امت مسلمہ ہے۔ اگر یہ پوری طرح محفوظ اور توانا ہے تو پھر دوسری امتوں کی برائیاں بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گی۔ دوسری بات جو اسی ضمن میں کہی جا رہی ہے ‘ وہ اس دور کی امت مسلمہ یعنی صحابہ کرام ( رض) کے لیے ایک کلمہ تحسین بھی ہے اور ان کے لیے تسلی بھی۔ ابھی چند آیات پہلے ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ رسول کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے اور آپ نے اللہ کے فضل سے اس کا پیغام پہنچانے اور اس کا حق ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اس لیے اگر کافر راہ راست اختیار نہیں کرتے اور ایمان قبول نہیں کرتے تو اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ ان کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ ان سے پوچھاجائے گا کہ اس روشنی کی موجودگی میں انھوں نے آنکھیں کیوں بند کیے رکھیں ؟ آنحضرت ﷺ کو اس طرح کی تسلی اور بھی کئی جگہ قرآن پاک میں دی گئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کافر جب اسلام کی مخالفت کرتے اور بجائے اسلام قبول کرنے کے اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور آپ کی کاوشوں کو وہ کامیابی نہ ملتی جو ملنی چاہیے تھی تو آپ نہایت دل گرفتہ ہوتے اور کبھی کبھی یہ خیال فرماتے کہ یہ ان کا حق کو قبول نہ کرنا ‘ شاید میری کسی کوتاہی کا نتیجہ ہے اور بعض دفعہ اس تاثر کے زیر اثر بیمار بھی پڑجاتے۔ اس لیے پروردگار نے بار بار آپ ﷺ کو تسلی دی۔ یہاں اسی طرح کی تسلی صحابہ کرام ( رض) کو دی جا رہی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی تربیت نے ان میں غلبہ دین کی ذمہ داریوں کا ایسا شدید احساس پیدا کردیا تھا کہ وہ بھی برابر تبلیغ و دعوت کے کام میں لگے رہتے اور جب وہ کبھی دیکھتے کہ اس قدر جان مارنے کے باوجود نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں تو انھیں یہ خیال دامن گیر ہوتا کہ شاید اس میں ہماری کوتاہیوں کا دخل ہو۔ چناچہ ان کو تسلی دی جارہی ہے اور اسکے ضمن میں ان کی کوششوں کا اعتراف بھی ہے کہ تم نے تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں اور غلبہ دین کے لیے جس طرح سرفروشیاں دکھائی ہیں ‘ وہ اللہ کے یہاں قبولیت پاچکی ہیں۔ رہی یہ بات کہ دنیائے کفر اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا رہی تو اس کا وبال انہی پر پڑے گا اور قیامت کے دن انہی سے اسکا سوال کیا جائے گا ‘ آپ اپنی فکر رکھیں ‘ ان کی گمراہی آپ کا کچھ نہیں بگاڑے گی اور اسکے حوالے سے آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ مزید اگر تدبر سے کام لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کو ایک خاص فکر سے آشنا کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ رفتہ رفتہ اس امت کی یہ حالت تو باقی نہیں رہے گی ‘ یقینا اس میں زوال آئے گا ‘ پھر ایمان و عمل کی کمزوریاں پیدا ہوں گی۔ اس آنے والے دور سے پہلے یہ شعور دینا بہت ضروری ہے تاکہ اس وقت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے وہ یہ کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے جسم کی حفاظت کے لیے بیماری کے بارے میں نہایت متفکر رہتا ہے۔ ذرا سی تکلیف ہوتی ہے تو علاج کی فکر کرتا ہے ‘ گھر میں اس کا ذکر کرتا ہے ‘ دوست احباب سے تذکرہ ہوتا ہے اور اگر ذرا تکلیف بڑھ جائے تو ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوتی ہے ‘ علاج کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بیمار آدمی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرے پاس اگر ملنے والے آئیں تو سوائے میری بیماری کے اور کسی بات کا ذکر نہیں ہونا چاہیے ‘ جتنا کوئی اس کی بیماری کا ذکر کرتا ہے ‘ اتنا ہی اسے ایک سکون محسوس ہوتا ہے۔ آپ کہیں کسی گھر میں عیادت کے لیے جا کر دیکھ لیجئے ‘ اگر اس گھر میں ایک سے زیادہ بیمار ہیں تو ہر ایک کی یہ خواہش ہوگی کہ پہلے میری خبر لی جائے اور میری بیماری کے بارے میں پوچھا جائے اور اگر کسی دوسرے کی طرف عیادت کرنے والا پہلے متوجہ ہوجائے تو اسے اپنے آپ کو نظر انداز کرنے کا گلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عام سی بیماری میں مبتلا ہو ‘ لیکن اس کے مقابلے میں دوسرا کوئی مریض نہایت تکلیف دہ اور مہلک بیماری کا شکار ہے تو تب بھی یہ عام سی بیماری کا مریض اس کی بیماری کو اہمیت دینے کی بجائے اپنی ہی بیماری کا تذکرہ کرتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اپنی بیماری کی فکر اور اپنے جسمانی تحفظ کا احساس آدمی کو کسی اور طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بڑا سبق آموز اور دلچسپ ہے کہ ایک صاحب اپنی ایک عزیزہ کو جس کے پیٹ میں درد تھا لے کر ہسپتال گئے۔ وہ اس کو وہیل چیئر پر بٹھا کر جب لے جا رہے تھے تو سامنے سے ایک دوسری مریضہ کو آتے ہوئے دیکھا ‘ جس کے جسم کے تقریباً تمام جوڑوں پر پلاسٹر چڑھا ہو اتھا۔ کسی ایکسیڈنٹ میں اس کے گھٹنے ‘ ٹخنے اور بازو تک ٹوٹ چکے تھے۔ مریضہ کو لے جانے والے اس کے عزیز نے اس کی بیماری سے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے کہا کہ اس مریضہ کو دیکھو ! اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹ چکا ہے اور کس قدر تکلیف میں ہے اور تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہیں تو صرف پیٹ میں تکلیف ہے۔ خاتون نے یہ سن کر کہا کہ ہاں واقعی اس مریضہ کو بہت تکلیف ہے ‘ اس کے نجانے کتنے اعضاء ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ‘ اللہ ہی اس کو صحت دے ‘ لیکن ایک بات ہے کہ میری طرح اس کے پیٹ میں درد تو نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انسان کو چونکہ اپنی جسمانی صحت عزیز ہے ‘ اس لیے وہ اپنی بیماری کو کبھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح تمہارے جسم کو بیماریاں لگتی ہیں ‘ اسی طرح تمہاری روح اور تمہارے اخلاق بھی بیمار ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی بیماریوں کو تم گناہ کے نام سے یاد کرتے ہو ‘ لیکن جس طرح جسمانی بیماریاں جسم کے لیے مہلک ہیں ‘ اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریاں روح اور اخلاق کو تباہ کردیتی ہیں۔ جب تک ان بیماریوں کا جسمانی بیماریوں کی طرح احساس پیدا نہ ہو اور بجا طور پر ان کی طرف سے دل میں فکر مندی نہ ابھرے ‘ اس وقت تک آدمی کبھی بھی راہ راست پر نہیں رہ سکتا ‘ لیکن ہماری بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ ہم اخلاق اور روح کے اعتبار سے چاہے کتنے بھی بیمار کیوں نہ ہوں ‘ ان بیماریوں کی فکر ہونا تو دور کی بات ہے ‘ ہم ان کا کبھی تصور بھی نہیں کرتے بلکہ اگر کبھی کوئی دوسرا آدمی ہماری ان برائیوں یعنی بیماریوں کی طرف توجہ دلا دے تو ہم اس سے لڑ پڑتے ہیں اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش بلکہ اپنے ملک میں رہنے والے سب لوگوں کو ان برائیوں میں مبتلا سمجھتے ہیں ‘ اس لیے ہم سخت سے سخت تبصرہ ان پر جاری رکھتے ہیں اور یہ کہنے سے بھی باز نہیں آتے کہ پورا ملک تباہ ہوگیا ‘ پوری قوم تباہ ہوگئی ‘ اب اس کی اصلاح کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ‘ اس قوم کا ایک ایک شعبہ اور ایک ایک ادارہ زندگی سے محروم ہوگیا ‘ لیکن اپنی ذات کا کبھی ہم بھول کر بھی نام نہیں لیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی نظر میں اس قوم کا ہر فرد بداخلاق ہے اور نجانے کس کس برائی کا شکار ہے ‘ لیکن صرف اس کی ذات ہے جو ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : ھلک من قال ھلک الناس (وہ شخص ہلاک ہوگیا ‘ جس نے کہا کہ سب لوگ ہلاک ہوگئے۔ ) یعنی وہ اپنے سوا سب کو سمجھتا ہے کہ وہ ہلاک ہوگئے ‘ لیکن اپنے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے کی اصل پہچان ” اپنی دینی حالت پر فکر مند رہنا “ اس لیے یہاں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ مسلمانو ! سب سے پہلے اپنی فکر پیدا کرو ‘ یہی فکر تمہیں دنیوی اور اخروی وبال سے بچائے گی۔ صرف دوسروں کی برائیاں دیکھتے رہنا اور اس پر تبصرے کرتے رہنا ‘ آدمی کی اپنی اصلاح کے لیے نقصان دہ تو ہوسکتے ہیں ‘ مفید کبھی نہیں ہوسکتے۔ اسی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ امت مسلمہ کا بڑے سے بڑا آدمی سب سے پہلے اپنی اصلاح کے بارے میں فکر مند ہوتا تھا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ ” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا “ وہ بھی اپنی ذات کے بارے میں اس حد تک متفکر رہتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت حذیفہ ( رض) سے کہنے لگے کہ حذیفہ ! تم میرے بھائی ہو ‘ اللہ کے لیے مجھ پر ایک احسان کرو ‘ میں جانتا ہوں کہ تمہیں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے منافقین کے بارے میں نام بنام خبر دی تھی کہ کون کون لوگ منافق ہیں ‘ میں تم سے صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے صرف اتنا بتادو کہ کہیں ان میں میرا نام تو نہیں تاکہ میں اپنی اصلاح کرلوں۔ حضرت حذیفہ ( رض) نے پریشان ہو کر کہا امیر المومنین ! اللہ نہ کرے ‘ آپ ایسے کیسے ہوسکتے ہیں۔ اندازہ فرمایئے ! ان کا اپنی فکرمندی کے بارے میں کیا حال تھا اور آج ہم لوگ اپنے بارے میں کس حد تک بےفکر ہیں۔ لیکن یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ جو آدمی اپنی دینی حالت کے بارے میں حتیٰ کے خود دین کے بارے میں فکر مند ہوگا ‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تبلیغ و دعوت اور امربالمعروف سے لاتعلق ہوجائے کیونکہ جس آدمی کو اپنے گھر کی فکر ہے کہ کہیں اس کو آگ نہ لگ جائے ‘ اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اگر اس کے پڑوسی کے گھر کو آگ لگ جائے تو وہ آرام سے اپنے گھر سویا رہے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اگر میرے پڑوسی کے گھر کی آگ نہ بجھی تو میرا گھر بھی جلنے سے نہیں بچے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ کسی بحری جہاز پر سوار سمندر میں کہیں جا رہے ہیں۔ بحری جہاز کے تمام مسافروں کے لیے پینے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی جہاز کے اوپر کے درجے میں ہے ‘ نچلے درجے والے اپنی ضرورت کے لیے اوپر سے پانی لے کر آتے ہیں ‘ ان میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ ہم بار بار اوپر پانی لینے جاتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں ‘ ہم کیوں نہ نیچے اپنے حصے میں سوراخ کر کے پانی نکال لیں اور اس طرح اوپر جانے کی تکلیف سے بچ جائیں ؟ آنحضرت ﷺ نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر اوپر کے تختے پر رہنے والوں نے ان نیچے والے بیوقوفوں کو سوراخ کرنے سے نہ روکا اور یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ وہ سوراخ کریں گے تو خود ڈوبیں گے ہم انھیں کیوں روکیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ان بیوقوفوں نے واقعی ایسا کر ڈالا تو کیا ان کا حصہ جب ڈوبے گا تو جہاز کا اوپر کا حصہ بچ جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ نہیں بچے گا۔ اسی طرح دینی حالت پر فکر مند رہنے والا شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ برائی کو دیکھ کر چپ ہوجانے والوں کا انجام لیکن اس آیت کریمہ کے ظاہر اسلوب سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ صرف اپنی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے ‘ دوسرے کی اصلاح کی فکر کرنا کوئی ضروری نہیں۔ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے اپنے دور خلافت میں خطبہ دیتے ہوئے اس پر تنبیہ فرمائی کہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کہتے ہیں ‘ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے (اس کا مفہوم یہ ہے) کہ ( اگر کوئی آدمی کسی کو برائی کرتا دیکھے یا کسی بادشاہ کو ظلم کرتا دیکھے اور وہ چپ رہے اور اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش نہ کرے تو قیامت کے دن جب برائی والا اور یہ ظالم بادشاہ پکڑے جائیں گے اور اللہ ان کو جہنم میں پھینکے گا تو یہ خاموش رہنے والے بھی ساتھ ہی پھینکے جائیں گے اور اسی عذاب کا شکار ہوں گے) یہ فکر مندی ہی ایک مسلمان کی سیرت و کردار کی اصلاح کی ضمانت بھی ہے اور اس کے کردار کا اصل جوہر بھی۔ لیکن یہ جوہر اس وقت تک باقی رہتا ہے ‘ جب تک یہ تصور دل و دماغ میں جاگزیں رہے کہ ایک نہ ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے۔ ہم آج ہزار بےفکری کی زندگی گزار لیں ‘ اس دن پروردگار ہمیں بتائے گا کہ دنیا میں ہم کیا اعمال کرتے رہے اور آج اس کا انجام کیا ہوگا۔ جب تک یہ فکر دامن گیر نہ ہو ‘ زندگی صحیح نہج پر استوار نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو پائیدار نہیں ہوتی۔ اگلی آیات کی حیثیت ایک تکمیلی اور اتمامی حکم کی ہے۔ سورة المائدہ کے آغاز میں بعض احکام دیئے گئے تھے۔ ان آیتوں میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔
Top