Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Hud : 111
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اَنْفُسَكُمْ
: اپنی جانیں
لَا يَضُرُّكُمْ
: نہ نقصان پہنچائے گا
مَّنْ
: جو
ضَلَّ
: گمراہ ہوا
اِذَا
: جب
اهْتَدَيْتُمْ
: ہدایت پر ہو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف
مَرْجِعُكُمْ
: تمہیں لوٹنا ہے
جَمِيْعًا
: سب
فَيُنَبِّئُكُمْ
: پھر وہ تمہیں جتلا دے گا
بِمَا
: جو
كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے تھے
) اے ایمان والو ! تم اپنی فکر رکھو ‘ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا ‘ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ کی ہی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ط اِلَی اللہِ مَرْجِعُکُمْ جِمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۔ (المائدہ : 105) ” اے ایمان والو ! تم اپنی فکر رکھو ‘ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا ‘ وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اللہ کی ہی طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو “۔ امت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کی نوعیت اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ قابل توجہ ہے۔ جیسے جیسے اس میں غور کریں نئے نئے مفاہیم ذہن میں آتے ہیں۔ سب سے پہلے اس کے پہلے لفظ کو دیکھئے کہ اے مسلمانو ! تم اپنی فکر رکھو۔ یہاں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تم امت مسلمہ کی شکل میں ایک اکائی ہو ‘ تم میں سے ہر فرد کی کوئی انفرادی حیثیت نہیں بلکہ وہ اس بہتے ہوئے دریا کی ایک موج ہے۔ اس لیے تمہیں فکر کرنی ہے تو اپنی نہیں بلکہ اس پورے دریا کی یعنی مجموعی طور پر اس پوری امت کی۔ تم میں سے ہر ایک کا حقیقی مفاد وہ ہے ‘ جو پوری امت کا مفاد ہے اور حقیقی نقصان وہ ہے ‘ جو پوری امت کا نقصان ہے۔ اسی طرح خیر و شر اور علم اور اخلاق کے حوالے سے تمہاری نظر پوری امت مسلمہ پر رہنی چاہیے کہ اس میں کہیں دڑاریں تو نہیں پڑ رہیں ‘ اخلاقی مفاسد کو کہیں ان میں راہ بنانے کا موقع تو نہیں مل رہا ‘ کہیں ان کے عقائد میں اضمحلال پیدا تو نہیں ہو رہا۔ اگر تم پوری امت پر نظر رکھو اور پوری طرح ان کی فکر پر کاربند رہو تو پھر تمہارے گردوپیش باقی قومیں ‘ کچھ بھی کیوں نہ کرتی ہوں ‘ تمہارے لیے چنداں فکر کی بات نہیں۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ تم دیر تک ان سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ اس لیے کہ تمہارا ہدف پوری دنیا کو راہ راست پر لانا ہے یہ تمہارے فرائض میں شامل ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیاد اور اصل (Base) کی حیثیت تو خود امت مسلمہ ہے۔ اگر یہ پوری طرح محفوظ اور توانا ہے تو پھر دوسری امتوں کی برائیاں بھی اس پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گی۔ دوسری بات جو اسی ضمن میں کہی جا رہی ہے ‘ وہ اس دور کی امت مسلمہ یعنی صحابہ کرام ( رض) کے لیے ایک کلمہ تحسین بھی ہے اور ان کے لیے تسلی بھی۔ ابھی چند آیات پہلے ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ رسول کے ذمہ صرف پہنچا دینا ہے اور آپ نے اللہ کے فضل سے اس کا پیغام پہنچانے اور اس کا حق ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اس لیے اگر کافر راہ راست اختیار نہیں کرتے اور ایمان قبول نہیں کرتے تو اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ ان کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ ان سے پوچھاجائے گا کہ اس روشنی کی موجودگی میں انھوں نے آنکھیں کیوں بند کیے رکھیں ؟ آنحضرت ﷺ کو اس طرح کی تسلی اور بھی کئی جگہ قرآن پاک میں دی گئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ کافر جب اسلام کی مخالفت کرتے اور بجائے اسلام قبول کرنے کے اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے اور آپ کی کاوشوں کو وہ کامیابی نہ ملتی جو ملنی چاہیے تھی تو آپ نہایت دل گرفتہ ہوتے اور کبھی کبھی یہ خیال فرماتے کہ یہ ان کا حق کو قبول نہ کرنا ‘ شاید میری کسی کوتاہی کا نتیجہ ہے اور بعض دفعہ اس تاثر کے زیر اثر بیمار بھی پڑجاتے۔ اس لیے پروردگار نے بار بار آپ ﷺ کو تسلی دی۔ یہاں اسی طرح کی تسلی صحابہ کرام ( رض) کو دی جا رہی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی تربیت نے ان میں غلبہ دین کی ذمہ داریوں کا ایسا شدید احساس پیدا کردیا تھا کہ وہ بھی برابر تبلیغ و دعوت کے کام میں لگے رہتے اور جب وہ کبھی دیکھتے کہ اس قدر جان مارنے کے باوجود نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں تو انھیں یہ خیال دامن گیر ہوتا کہ شاید اس میں ہماری کوتاہیوں کا دخل ہو۔ چناچہ ان کو تسلی دی جارہی ہے اور اسکے ضمن میں ان کی کوششوں کا اعتراف بھی ہے کہ تم نے تبلیغ و دعوت کے سلسلے میں اور غلبہ دین کے لیے جس طرح سرفروشیاں دکھائی ہیں ‘ وہ اللہ کے یہاں قبولیت پاچکی ہیں۔ رہی یہ بات کہ دنیائے کفر اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا رہی تو اس کا وبال انہی پر پڑے گا اور قیامت کے دن انہی سے اسکا سوال کیا جائے گا ‘ آپ اپنی فکر رکھیں ‘ ان کی گمراہی آپ کا کچھ نہیں بگاڑے گی اور اسکے حوالے سے آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ مزید اگر تدبر سے کام لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کو ایک خاص فکر سے آشنا کیا جا رہا ہے۔ وہ یہ کہ رفتہ رفتہ اس امت کی یہ حالت تو باقی نہیں رہے گی ‘ یقینا اس میں زوال آئے گا ‘ پھر ایمان و عمل کی کمزوریاں پیدا ہوں گی۔ اس آنے والے دور سے پہلے یہ شعور دینا بہت ضروری ہے تاکہ اس وقت اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے وہ یہ کہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے جسم کی حفاظت کے لیے بیماری کے بارے میں نہایت متفکر رہتا ہے۔ ذرا سی تکلیف ہوتی ہے تو علاج کی فکر کرتا ہے ‘ گھر میں اس کا ذکر کرتا ہے ‘ دوست احباب سے تذکرہ ہوتا ہے اور اگر ذرا تکلیف بڑھ جائے تو ڈاکٹر کی تلاش شروع ہوتی ہے ‘ علاج کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ بیمار آدمی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ میرے پاس اگر ملنے والے آئیں تو سوائے میری بیماری کے اور کسی بات کا ذکر نہیں ہونا چاہیے ‘ جتنا کوئی اس کی بیماری کا ذکر کرتا ہے ‘ اتنا ہی اسے ایک سکون محسوس ہوتا ہے۔ آپ کہیں کسی گھر میں عیادت کے لیے جا کر دیکھ لیجئے ‘ اگر اس گھر میں ایک سے زیادہ بیمار ہیں تو ہر ایک کی یہ خواہش ہوگی کہ پہلے میری خبر لی جائے اور میری بیماری کے بارے میں پوچھا جائے اور اگر کسی دوسرے کی طرف عیادت کرنے والا پہلے متوجہ ہوجائے تو اسے اپنے آپ کو نظر انداز کرنے کا گلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عام سی بیماری میں مبتلا ہو ‘ لیکن اس کے مقابلے میں دوسرا کوئی مریض نہایت تکلیف دہ اور مہلک بیماری کا شکار ہے تو تب بھی یہ عام سی بیماری کا مریض اس کی بیماری کو اہمیت دینے کی بجائے اپنی ہی بیماری کا تذکرہ کرتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ اپنی بیماری کی فکر اور اپنے جسمانی تحفظ کا احساس آدمی کو کسی اور طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بڑا سبق آموز اور دلچسپ ہے کہ ایک صاحب اپنی ایک عزیزہ کو جس کے پیٹ میں درد تھا لے کر ہسپتال گئے۔ وہ اس کو وہیل چیئر پر بٹھا کر جب لے جا رہے تھے تو سامنے سے ایک دوسری مریضہ کو آتے ہوئے دیکھا ‘ جس کے جسم کے تقریباً تمام جوڑوں پر پلاسٹر چڑھا ہو اتھا۔ کسی ایکسیڈنٹ میں اس کے گھٹنے ‘ ٹخنے اور بازو تک ٹوٹ چکے تھے۔ مریضہ کو لے جانے والے اس کے عزیز نے اس کی بیماری سے اس کی توجہ ہٹانے کے لیے کہا کہ اس مریضہ کو دیکھو ! اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹ چکا ہے اور کس قدر تکلیف میں ہے اور تم اللہ کا شکر ادا کرو کہ تمہیں تو صرف پیٹ میں تکلیف ہے۔ خاتون نے یہ سن کر کہا کہ ہاں واقعی اس مریضہ کو بہت تکلیف ہے ‘ اس کے نجانے کتنے اعضاء ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ‘ اللہ ہی اس کو صحت دے ‘ لیکن ایک بات ہے کہ میری طرح اس کے پیٹ میں درد تو نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انسان کو چونکہ اپنی جسمانی صحت عزیز ہے ‘ اس لیے وہ اپنی بیماری کو کبھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح تمہارے جسم کو بیماریاں لگتی ہیں ‘ اسی طرح تمہاری روح اور تمہارے اخلاق بھی بیمار ہوتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کی بیماریوں کو تم گناہ کے نام سے یاد کرتے ہو ‘ لیکن جس طرح جسمانی بیماریاں جسم کے لیے مہلک ہیں ‘ اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریاں روح اور اخلاق کو تباہ کردیتی ہیں۔ جب تک ان بیماریوں کا جسمانی بیماریوں کی طرح احساس پیدا نہ ہو اور بجا طور پر ان کی طرف سے دل میں فکر مندی نہ ابھرے ‘ اس وقت تک آدمی کبھی بھی راہ راست پر نہیں رہ سکتا ‘ لیکن ہماری بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ ہم اخلاق اور روح کے اعتبار سے چاہے کتنے بھی بیمار کیوں نہ ہوں ‘ ان بیماریوں کی فکر ہونا تو دور کی بات ہے ‘ ہم ان کا کبھی تصور بھی نہیں کرتے بلکہ اگر کبھی کوئی دوسرا آدمی ہماری ان برائیوں یعنی بیماریوں کی طرف توجہ دلا دے تو ہم اس سے لڑ پڑتے ہیں اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم اپنے گرد و پیش بلکہ اپنے ملک میں رہنے والے سب لوگوں کو ان برائیوں میں مبتلا سمجھتے ہیں ‘ اس لیے ہم سخت سے سخت تبصرہ ان پر جاری رکھتے ہیں اور یہ کہنے سے بھی باز نہیں آتے کہ پورا ملک تباہ ہوگیا ‘ پوری قوم تباہ ہوگئی ‘ اب اس کی اصلاح کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ‘ اس قوم کا ایک ایک شعبہ اور ایک ایک ادارہ زندگی سے محروم ہوگیا ‘ لیکن اپنی ذات کا کبھی ہم بھول کر بھی نام نہیں لیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کی نظر میں اس قوم کا ہر فرد بداخلاق ہے اور نجانے کس کس برائی کا شکار ہے ‘ لیکن صرف اس کی ذات ہے جو ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : ھلک من قال ھلک الناس (وہ شخص ہلاک ہوگیا ‘ جس نے کہا کہ سب لوگ ہلاک ہوگئے۔ ) یعنی وہ اپنے سوا سب کو سمجھتا ہے کہ وہ ہلاک ہوگئے ‘ لیکن اپنے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے کی اصل پہچان ” اپنی دینی حالت پر فکر مند رہنا “ اس لیے یہاں یہ تعلیم دی جا رہی ہے کہ مسلمانو ! سب سے پہلے اپنی فکر پیدا کرو ‘ یہی فکر تمہیں دنیوی اور اخروی وبال سے بچائے گی۔ صرف دوسروں کی برائیاں دیکھتے رہنا اور اس پر تبصرے کرتے رہنا ‘ آدمی کی اپنی اصلاح کے لیے نقصان دہ تو ہوسکتے ہیں ‘ مفید کبھی نہیں ہوسکتے۔ اسی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ امت مسلمہ کا بڑے سے بڑا آدمی سب سے پہلے اپنی اصلاح کے بارے میں فکر مند ہوتا تھا۔ حضرت عمر فاروق ( رض) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ ” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا “ وہ بھی اپنی ذات کے بارے میں اس حد تک متفکر رہتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت حذیفہ ( رض) سے کہنے لگے کہ حذیفہ ! تم میرے بھائی ہو ‘ اللہ کے لیے مجھ پر ایک احسان کرو ‘ میں جانتا ہوں کہ تمہیں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے منافقین کے بارے میں نام بنام خبر دی تھی کہ کون کون لوگ منافق ہیں ‘ میں تم سے صرف یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے صرف اتنا بتادو کہ کہیں ان میں میرا نام تو نہیں تاکہ میں اپنی اصلاح کرلوں۔ حضرت حذیفہ ( رض) نے پریشان ہو کر کہا امیر المومنین ! اللہ نہ کرے ‘ آپ ایسے کیسے ہوسکتے ہیں۔ اندازہ فرمایئے ! ان کا اپنی فکرمندی کے بارے میں کیا حال تھا اور آج ہم لوگ اپنے بارے میں کس حد تک بےفکر ہیں۔ لیکن یہاں ایک اور بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ جو آدمی اپنی دینی حالت کے بارے میں حتیٰ کے خود دین کے بارے میں فکر مند ہوگا ‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تبلیغ و دعوت اور امربالمعروف سے لاتعلق ہوجائے کیونکہ جس آدمی کو اپنے گھر کی فکر ہے کہ کہیں اس کو آگ نہ لگ جائے ‘ اس سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اگر اس کے پڑوسی کے گھر کو آگ لگ جائے تو وہ آرام سے اپنے گھر سویا رہے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اگر میرے پڑوسی کے گھر کی آگ نہ بجھی تو میرا گھر بھی جلنے سے نہیں بچے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ کسی بحری جہاز پر سوار سمندر میں کہیں جا رہے ہیں۔ بحری جہاز کے تمام مسافروں کے لیے پینے کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی جہاز کے اوپر کے درجے میں ہے ‘ نچلے درجے والے اپنی ضرورت کے لیے اوپر سے پانی لے کر آتے ہیں ‘ ان میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ ہم بار بار اوپر پانی لینے جاتے ہیں اور تکلیف اٹھاتے ہیں ‘ ہم کیوں نہ نیچے اپنے حصے میں سوراخ کر کے پانی نکال لیں اور اس طرح اوپر جانے کی تکلیف سے بچ جائیں ؟ آنحضرت ﷺ نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر اوپر کے تختے پر رہنے والوں نے ان نیچے والے بیوقوفوں کو سوراخ کرنے سے نہ روکا اور یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ وہ سوراخ کریں گے تو خود ڈوبیں گے ہم انھیں کیوں روکیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ان بیوقوفوں نے واقعی ایسا کر ڈالا تو کیا ان کا حصہ جب ڈوبے گا تو جہاز کا اوپر کا حصہ بچ جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ نہیں بچے گا۔ اسی طرح دینی حالت پر فکر مند رہنے والا شخص امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ برائی کو دیکھ کر چپ ہوجانے والوں کا انجام لیکن اس آیت کریمہ کے ظاہر اسلوب سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ صرف اپنی اصلاح کی فکر ہونی چاہیے ‘ دوسرے کی اصلاح کی فکر کرنا کوئی ضروری نہیں۔ حضرت صدیق اکبر ( رض) نے اپنے دور خلافت میں خطبہ دیتے ہوئے اس پر تنبیہ فرمائی کہ میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کہتے ہیں ‘ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے (اس کا مفہوم یہ ہے) کہ ( اگر کوئی آدمی کسی کو برائی کرتا دیکھے یا کسی بادشاہ کو ظلم کرتا دیکھے اور وہ چپ رہے اور اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش نہ کرے تو قیامت کے دن جب برائی والا اور یہ ظالم بادشاہ پکڑے جائیں گے اور اللہ ان کو جہنم میں پھینکے گا تو یہ خاموش رہنے والے بھی ساتھ ہی پھینکے جائیں گے اور اسی عذاب کا شکار ہوں گے) یہ فکر مندی ہی ایک مسلمان کی سیرت و کردار کی اصلاح کی ضمانت بھی ہے اور اس کے کردار کا اصل جوہر بھی۔ لیکن یہ جوہر اس وقت تک باقی رہتا ہے ‘ جب تک یہ تصور دل و دماغ میں جاگزیں رہے کہ ایک نہ ایک دن اللہ کے پاس جانا ہے۔ ہم آج ہزار بےفکری کی زندگی گزار لیں ‘ اس دن پروردگار ہمیں بتائے گا کہ دنیا میں ہم کیا اعمال کرتے رہے اور آج اس کا انجام کیا ہوگا۔ جب تک یہ فکر دامن گیر نہ ہو ‘ زندگی صحیح نہج پر استوار نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی جائے تو پائیدار نہیں ہوتی۔ اگلی آیات کی حیثیت ایک تکمیلی اور اتمامی حکم کی ہے۔ سورة المائدہ کے آغاز میں بعض احکام دیئے گئے تھے۔ ان آیتوں میں ان کی وضاحت کی گئی ہے۔
Top