Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 65
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کرتے لَكَفَّرْنَا : البتہ ہم دور کردیتے عَنْهُمْ : ان سے سَيِّاٰتِهِمْ : ان کی برائیاں وَ : اور لَاَدْخَلْنٰهُمْ : ضرور ہم انہیں داخل کرتے جَنّٰتِ النَّعِيْمِ : نعمت کے باغات
اور اگر اہل کتاب ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان سے ان کے گناہ جھاڑ دیں گے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کریں گے
وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْ لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۔ (المائدہ : 65) ” اور اگر اہل کتاب ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان سے ان کے گناہ جھاڑ دیں گے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کریں گے “۔ یعنی یہ اہل کتاب مسلسل اپنی نافرمانیوں اور کجرویوں کے باعث بظاہر اس قابل نہیں ہیں کہ اللہ کی رحمت سے کوئی حصہ ان کو مل سکے ‘ کیونکہ انھوں نے مسلسل اپنی کرتوتوں سے اپنے آپ کو ہر طرح کے استحقاق سے محروم کردیا ہے۔ لیکن یہ سراسر ان پر ایک عنایت ہے کہ انھیں آخری موقع دیا جا رہا ہے کہ اگر یہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئیں اور تقویٰ کی زندگی اختیار کریں اور اس طرح اپنے آپ کو بدلیں کہ پوری طرح امت اسلامیہ کا حصہ ہوجائیں اور اپنے بڑائی اور عظمت کے دعوؤں سے دستبردار ہو کر اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کی اطاعت میں دے دیں تو اللہ فرماتا ہے ‘ ہم ان سے ان کے گناہ جھاڑ دیں گے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کریں گے۔ یہاں ایمان سے ہم نے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا مراد لیا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ جہاں تک ان کا اپنے پیغمبروں پر ایمان لانے کا تعلق ہے ‘ اسکے تو وہ پہلے ہی دعوے دار تھے اور اس وقت جو دعوت ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہے ‘ اس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے اور انھیں اگر انکار ہے تو حضور ﷺ ہی کی ذات سے ہے۔ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے سے تو انھیں کوئی انکار نہیں اور مزید یہ بات بھی کہ پہلے انبیاء کی دعوتیں اور شریعتیں اپنا دور گزار چکیں ‘ اب ان کے سامنے اسلام کے نام سے جو مکمل دعوت پیش کی جا رہی ہے ‘ اس کے داعی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس لیے یہ بالکل بدیہی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ یہاں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے واسطے سے اسلام پر ایمان لانے کی دعوت دی جارہی ہے اور یہ ایک بہت بڑی عنایت فرمائی جا رہی ہے کہ تم اپنے حال اور ماضی کو دیکھتے ہوئے یقیناً اس دعوت کی طرف آتے ہوئے ہچکچائو گے کیونکہ تم نے اپنے آپ کو اس قابل چھوڑا ہی نہیں لیکن یقین رکھو ! تمہیں اس دعوت کو قبول کرنے کے بعد کسی ترجیحی سلوک کا مستحق نہیں سمجھا جائے گا ‘ نہ سابقہ گناہوں کی باز پرس ہوگی بلکہ تمہارے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور تمہیں نعمتوں والے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ اہلِ کتاب کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جو اپنی سابقہ دینی زندگی میں بگاڑ پیدا کیا تھا ‘ اس کا سب سے بڑا سبب درہم و دینار یعنی دولت دنیا کی ہوس تھی چناچہ انھوں نے دنیا کی خاطر اللہ کی کتابوں میں تحریف تک کر ڈالی اور اس طرح اپنی قسمت بگاڑ لی۔ اب یہ ہوس زر چونکہ ان کی ایک طبیعتِ ثانیہ بن چکی ہے اور پھر اپنے سابقہ مذہب پر باقی رہتے ہوئے ان کے مذہبی سربراہوں کو بہت سارے مناصب ‘ اور بہت ساری مراعات حاصل تھیں۔ اس لیے جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جاتی تو یہ دولت دنیا کی ہوس اور موجود مراعات و مناصب ان کو اسلام کی طرف آنے سے روکتے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہماری تمام عزت و منفعت اسی گروہی عصبیت میں محفوظ ہے۔ اگر ہم نے اس سے باہر قدم نکالا تو ظاہر ہے یہ تمام فتوحات اور تمام چڑھاوے ختم ہو کر رہ جائیں گے اور ہم دنیوی آسائشوں سے محروم ہوجائیں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا جا رہا ہے۔
Top