Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 53
قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَۙ
قُتِلَ : مارے گئے الْخَرّٰصُوْنَ : اٹکل دوڑانے والے
مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے
قُتِلَ الْخَرّٰصُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ غَمْرَۃٍ سَاھُوْنَ ۔ (الذریٰت : 10، 11) (مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے۔ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں بالکل بیخبر ۔ ) قریش اور دیگر مشرکین کے انکارِ قیامت کے اسباب قیامت کے بارے میں قریش اور دیگر مشرکین کے یکسو نہ ہونے اور اپنے غلط مزعومات پر اڑے رہنے کی تین وجہ بیان فرمائی گئی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ قیامت کا عقیدہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور انسانی زندگی میں اس عقیدے کی اہمیت کیا ہے۔ یہ کس قدر اہم سوال ہے کہ انسان موت آنے کے بعد کیا ہمیشہ کے لیے مرجاتا ہے جس کے بعد کسی نئی زندگی کا کوئی سوال نہیں، یا اسے واقعی کبھی نہ کبھی ایک نئی زندگی ملے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی حاضری ہوگی۔ اور پھر یہ سوال کہ کیا انسان دنیا میں اس طرح بھیجا گیا ہے کہ وہ من مرضی کی زندگی گزارے اور اسے کبھی نہیں پوچھا جائے گا کہ تو نے زندگی کس طرح گزاری۔ حالانکہ اسے عقل سے نوازا گیا، تمیز کی دولت بخشی گئی، اس کے اندر نیکی اور بدی کی اخلاقی حس پیدا کی گئی۔ تو آخر ان صلاحیتوں کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اور یا واقعی کبھی ایسا دن آئے گا جب اللہ تعالیٰ ایک ایک عمل کا حساب لے گا اور جو اس نے بیش بہا نعمتیں عطا کر رکھی تھیں ان کے بارے میں جواب طلبی بھی کرے گا۔ یہ ایسے اہم سوال ہیں جن کے بارے میں صحیح رائے اختیار کرلینے سے انسانی زندگی صراط مستقیم پر قائم ہوجاتی ہے۔ اور غلط رائے اختیار کرنے سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ انسان نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک درندہ بن جاتا ہے۔ تو ایسے اہم سوال کو ظاہر ہے کہ اٹکل پچو اور قیاس و گمان پر تو نہیں چھوڑا جاسکتا کہ آدمی اپنے قیاس سے کام لے کر جو چاہے رائے اختیار کرلے اور ویسے بھی انسانی زندگی کے مختلف دائرے ہیں اور ہر دائرے کے احکام جدا ہیں۔ زندگی کا ایک دائرہ ایسا ہے جس میں قیاس و گمان مفید ہوتا ہے۔ آدمی بہت سے فیصلے اندازے سے کرتا ہے اور کچھ دائرے ایسے ہیں جس میں حواس اور عقل سے کام لیا جاتا ہے، تجربات رہنما ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمام دوائر ایسے ہیں جن کا تعلق آدمی کے عالم طبیعی سے ہے۔ لیکن جن کا تعلق عالم اخلاق سے ہے یا عالم غیب سے وہاں انسان کے گمان اور قیاس کام نہیں دیتے۔ ایسے مواقع پر فیصلے کا ایک ہی صحیح طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو رہنمائی لے کر آئے ہیں انھیں قبول کرلیا جائے۔ البتہ اس پر اطمینان کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے گردوپیش کے حالات، آفاقی شہادتیں، انفس کے دلائل اور ضمیر کی آواز پر کان دھرے، تو اسے خود اندازہ ہوجائے گا کہ مجھے جو بات بتائی گئی ہے وہ کس حد تک صحیح ہے۔ لیکن ان لوگوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے قیامت اور آخرت جیسے اہم معاملے کو جس پر انسان کے طرزعمل کا دارومدار ہے قیاس اور گمان کے حوالے کردیا ہے۔ اور دوسری خرابی ان میں یہ ہے کہ یہ لوگ خواہشِ نفس کے پیروکار ہیں۔ مقاصدِحیات سے بےبہرہ اور زندگی کے شعور سے نابلد ہیں۔ ہَوائے نفس اور خواہشات کی محبت ان کے پائوں کی ایسی زنجیر بن گئی ہے کہ اس سے ہٹ کر یہ کسی بات کو سوچنے پر قادر نہیں ہے۔ اور تیسری خرابی ان میں یہ ہے کہ خواہشِ نفس کی تعمیل میں ایسے ڈوب گئے ہیں کہ ایک نشہ باز کی طرح اپنی خواہشِ نفس کو ہی کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں۔ زندگی کے اہم حقائق سے بالکل بیخبر زندگی گزارتے ہیں۔
Top