Ruh-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 12
یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِؕ
يَسْئَلُوْنَ : وہ پوچھتے ہیں اَيَّانَ : کب يَوْمُ الدِّيْنِ : جزا وسزا کا دن
پوچھتے ہیں جزاء و سزا کا دن کب ہوگا ؟
یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ ۔ یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ ۔ ذُوْقُوْا فِتْنَتَـکُمْ ط ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ۔ (الذریٰت : 12 تا 14) (پوچھتے ہیں جزاء و سزا کا دن کب ہوگا ؟ جس دن وہ آگ پر تپائے جائیں گے۔ چکھو مزہ اپنے فتنے کا، یہی ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو۔ ) سوال کی صورت میں تمسخر اور اس ذہنیت کے مطابق جواب آنحضرت ﷺ جب لوگوں کے سامنے جزائے اعمال کا ذکر کرتے، قیامت کا حوالہ دیتے اور بار بار انھیں اصلاحِ اعمال کی طرف توجہ دلاتے تو وہ بجائے آپ کی باتوں کو قبول کرنے کے تمسخر کے طور پر یہ کہتے کہ صاحب اتنا عرصہ ہوگیا ہے آپ ہمیں قیامت سے ڈرا رہے ہیں۔ تو آخر وہ قیامت کب آئے گی ؟ اگر اسے آنا ہوتا تو اب تک آچکی ہوتی۔ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ بات آپ کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سوقیانہ باتوں میں دوسرے بازاری لوگ بھی شامل ہوجاتے۔ اور اس طرح سے ایک نہایت سنجیدہ دعوت کا اثر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی۔ تو پروردگار نے ان کے اس طرزعمل کو سامنے رکھتے ہوئے جواب ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کا دن وہ ہوگا جس دن یہ لوگ اپنے ان ہی کرتوتوں کے باعث جہنم میں جلائے جائیں گے۔ اور اس روز ان سے کہا جائے گا کہ تم کہا کرتے تھے کہ قیامت آ کیوں نہیں رہی، تو دیکھو جس قیامت کے بارے میں تم جلدی مچایا کرتے تھے آج وہ قیامت کا دن آچکا ہے اور تم اپنے کرتوتوں کے باعث جہنم میں تپائے اور جلائے جارہے ہو۔ اور تم نے دنیا میں اس سلسلے میں جو فتنے اٹھائے تھے یا اس فتنے کا جو نتیجہ ہوسکتا تھا تم آج اس میں گرفتار ہو۔ اور تمہیں اس سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا۔
Top