Ruh-ul-Quran - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
تو کیا تم اس سے اس چیز پر جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے
اَفَـتُمَارُوْنَـہٗ عَلٰی مَایَرٰی۔ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَـۃً اُخْرٰی۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی۔ عِنْدَھَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی۔ (النجم : 12 تا 15) (تو کیا تم اس سے اس چیز پر جھگڑتے ہو جسے وہ آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اور اس نے اس کو دوسری مرتبہ دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ بھی ہے۔ ) شک کرنے والوں کو ملامت جو لوگ آنحضرت ﷺ کے مشاہدات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے یا شبے کا اظہار کررہے تھے انھیں ملامت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا اور نبی کریم ﷺ کا معاملہ عجیب ہے کہ حضور ﷺ تمہیں ان باتوں کی خبر دے رہے ہیں جنھیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اور وہ باتیں اس جہان کی ہیں جو تمہاری دسترس سے بہت دور ہے۔ تم ہزار کوشش کرو اس کا سراغ تک نہیں پاسکتے۔ لیکن تمہاری جسارت کی داد دینی چاہیے کہ بجائے اپنی کوتاہ علمی اور بےبضاعتی پر نادم ہونے کے تم آنحضرت ﷺ کا مذاق اڑاتے اور ان کے مشاہدات پر ہنستے ہو۔ یہ جسارت تو اس سے بھی بڑی ہے کہ کوئی اندھا آنکھوں والوں کی کسی خبر پر ہنسے اور وہ کسی چیز کی جو کیفیت بیان کریں یہ اسے ماننے سے انکار کردے۔ حالانکہ اندھا جن باتوں کا انکار کررہا ہے وہ اسی دنیا کی ہیں جس میں وہ رہ رہا ہے۔ لیکن تم تو اس دنیا کے مشاہدات کا انکار کررہے ہو جو تمہارے احساسات اور عقل و خرد سے بھی بلند وبالا ہے۔ مزید فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ حضرت جبرائیل کے حوالے سے جس رویت کا ذکر کررہے ہیں وہ ایک دفعہ نہیں ہوئی بلکہ آپ نے حضرت جبرائیل کو دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے۔ اس وقت بھی آپ اصلی حالت میں تھے جس میں آپ کو پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی پہلا مشاہدہ اس دنیا کا تھا اور دوسرا مشاہدہ اس دنیا کا جہاں عالم ناسوت ختم ہوجاتا ہے۔ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی کی وضاحت سوال یہ ہے کہ یہ سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے ؟ سدرۃ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ اور منتہیٰ کا معنی ہے آخری سرا۔ تو سدرۃ المنتہیٰ کا ترجمہ ہوگا وہ بیری کا درخت جو اس کائنات کے آخری سرے پر واقع ہے۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، اس پر ہر عالم کا علم ختم ہوجاتا ہے، آگے جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے بیشتر مفسرینِ کرام اسی مفہوم کو روایت نقل کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ ایک ایسا مقام ہے جہاں عالم ناسوت کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں۔ اور عالم لاہوت کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ دونوں جہانوں کے درمیان ایک حدفاصل ہے۔ نیچے کے امور وہاں جا کر رک جاتے ہیں اور اوپر سے آنے والے احکام یہاں فرشتوں کی تحویل میں دیئے جاتے ہیں۔ گویا یہ دونوں جہانوں کے درمیان جنرل پوسٹ آفس کے مانند ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کو یہ نام کیوں دیا گیا ہے، یہ چیز متشابہات میں داخل ہے۔ اس لیے ہم صرف اس پر ایمان لانے کے پابند ہیں، اس کی حقیقت سے واقف نہیں۔ اور اس کی حقیقت جاننے کے درپے ہونے سے ہمیں روکا گیا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے مقام کی نشان دہی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کے پاس جنت الماویٰ بھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سدرۃ المنتہیٰ عالم ناسوت کی آخری سرحد پر ہے، اسی طرح جنت الماویٰ عالم لاہوت کے نقطہ آغاز پر ہے۔ اس نشان دہی سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت جبرائیل کا دوبارہ مشاہدہ دونوں عالموں کے نقطہ اتصال پر ہوا ہوگا۔ جنت الماویٰ کے لغوی معنی ہیں وہ جنت جو قیام گاہ ہے۔ حضرت حسن بصری ( رح) کہتے ہیں کہ یہ وہی جنت ہے جو آخرت میں اہل ایمان وتقویٰ کو ملنے والی ہے۔ اور پیش نظر آیت سے استدلال کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا ہے کہ وہ جنت آسمان میں ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں شہداء کی ارواح رکھی جاتی ہیں۔ اس سے مراد وہ جنت نہیں ہے جو آخرت میں ملنے والی ہے۔ ابن عباس بھی یہی کہتے ہیں۔ اور اس پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ آخرت میں جو جنت اہل ایمان کو دی جائے گی وہ آسمان میں نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ یہی زمین ہے۔
Top