Ruh-ul-Quran - An-Najm : 36
اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ : یا نہیں خبر دیا گیا۔ آگاہ کیا گیا بِمَا : ساتھ اس کے جو فِيْ صُحُفِ : صحیفوں میں ہے مُوْسٰى : موسیٰ کے
کیا اسے خبر نہیں دی گئی ان باتوں کی جو حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں
اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰی۔ وَاِبْرٰھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰیٓ۔ اَلاَّ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ (النجم : 36 تا 38) (کیا اسے خبر نہیں دی گئی ان باتوں کی جو حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں۔ اور اس ابراہیم کے صحیفوں میں ہیں جس نے وفا کا حق ادا کردیا۔ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ) تاریخ سے استدلال قریش میں جو فکری اور عملی گمراہیاں پیدا ہوگئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ان کے بڑے بڑے سردار اور ان کا طبقہ امراء یہ سمجھتے تھے کہ جس طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے، ہمیں جزیرہ ٔ عرب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، قبائل ہماری عظمت کو تسلیم کرتے ہیں، قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اسی طرح نعمتوں سے نوازے گا اور عزتوں اور رفعتوں سے سرافراز کرے گا، کیونکہ ہماری موجودہ حالت اس بات کی غماز ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول اور پسندیدہ لوگ ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو قیامت کے دن سزا نہیں دے گا۔ دوسری خرابی ان میں یہ تھی کہ اولاً تو وہ قیامت کے وجود ہی کے منکر تھے۔ لیکن مفروضے کے طور پر اگر وہ قیامت کے وجود کو تسلیم بھی کرتے تھے تو ان کو اس بات نے ایمان و عمل کی پابندیوں سے نچنت کردیا تھا کہ جن بزرگوں اور انبیائے کرام کے ہم ماننے والے ہیں وہ یقینا وہاں ہمارے کام آئیں گے اور ہماری شفاعت کریں گے۔ پیش نظر آیات کریمہ میں ان ہی دونوں باتوں کی تردید فرمائی گئی ہے۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ تم میں علم کے دعویدار اور مذہب کے وارث کہلانے والے یہود ہیں۔ اور تم اپنے آپ کو ابراہیمی وراثت کا مالک سمجھتے ہو۔ کیا ان دونوں کے صحیفوں میں جو کچھ تھا کیا تم تک اس کی خبر نہیں پہنچی۔ جہاں تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحیفوں کا تعلق ہے وہ تو آج بھی تورات میں موجود ہیں۔ اور ان میں جابجا ایمان و عمل کی پابندی پر زور دیا گیا ہے۔ قیامت کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ لوگوں کو اس سے ڈرایا گیا اور اس کے لیے تیاری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ دولت و امارت کو اس کی بنیاد بنانے کی بجائے ایمان و عمل کو اخری سرافرازی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اور شفاعت کے اس تصور سے انکار کیا گیا ہے جس میں ایمان و عمل کا کوئی حصہ نہ ہو۔ اسی طرح قریش جو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کا وارث سمجھتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ بات تو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عہدِوفا کے سب سے زیادہ پورا کرنے والے تھے۔ انھوں نے اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اس کی رضا کے حصول کے لیے انھوں نے سب کچھ راہ خدا میں جھونک دیا۔ جہاں تک ان کے صحیفوں کا تعلق ہے آج ہمارے پاس ان کا کوئی صحیفہ موجود نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان صحیفوں میں پیش کی جانے والی تعلیم عربوں میں اُمّی ہونے کی وجہ سے سینہ بہ سینہ پھیلتی رہی۔ لیکن مرورایام کے ساتھ ساتھ وہ تعلیمات نسیان کا شکار ہوتی گئیں اور ان میں حک واضافہ بھی ہوتا رہا۔ قرآن کریم نے ان کی تعلیمات کو صرف دو جگہ ذکر فرمایا ہے۔ ایک یہاں اور دوسرا سورة الاعلیٰ میں۔ البتہ جب تورات کی مٹ جانے کے بعد ازسرنو تدوین کی گئی تو اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تاریخ اور ان کی تعلیمات بھی جمع کردی گئیں۔ ممکن ہے صحفِ ابراہیم سے وہی صحیفے مراد لیے گئے ہوں۔ جو تعلیمات ان صحیفوں میں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی۔ ہر ایک کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا۔ یعنی ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے۔ ایک شخص کے فعل کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ بجز اس کے کہ اس فعل کے صدور میں اس کا اپنا کوئی حصہ ہو۔ اس طرح اگر کوئی شخص چاہے بھی تو کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا۔ اصل مجرم کو اس بنا پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لیے کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کررہا ہے۔ لیکن کس قدر حیران کن بات ہے کہ نجات کے بارے میں یہ بنیادی تصورات حضرت ابراہیم کی تعلیمات میں بھی تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات میں بھی۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ماننے والوں نے نہ جانے کس کس کو شفیع بنایا۔ حتیٰ کہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر اپنی شفاعت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اسی طرح یہود نے بھی اہل کتاب ہونے کے باوجود کہیں حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بنایا اور کہیں اپنے بزرگوں اور انبیائے کرام کو اپنا شفیع قرار دیا۔ اور ایمان و عمل کی ہزار خرابیوں کے باوجود اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اس لیے ہمیں جہنم کی آگ چھو بھی نہیں سکتی۔
Top