Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 128
وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا١ۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ١ۚ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَا١ؕ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَيَوْمَ : اور جس دن يَحْشُرُهُمْ : وہ جمع کرے گا جَمِيْعًا : سب يٰمَعْشَرَالْجِنِّ : اے جنات کے گروہ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ : تم نے بہت گھیر لیے (اپنے تابع کرلیے) مِّنَ : سے الْاِنْسِ : انسان۔ آدمی وَقَالَ : اور کہیں گے اَوْلِيٰٓؤُهُمْ : ان کے دوست مِّنَ : سے الْاِنْسِ : انسان رَبَّنَا : اے ہمارے رب اسْتَمْتَعَ : ہم نے فائدہ اٹھایا بَعْضُنَا : ہمارے بعض بِبَعْضٍ : بعض سے وَّبَلَغْنَآ : اور ہم پہنچے اَجَلَنَا : میعاد الَّذِيْٓ : جو اَجَّلْتَ : تونے مقرر کی تھی لَنَا : ہمارے لیے قَالَ : فرمائے گا النَّارُ : آگ مَثْوٰىكُمْ : تمہارا ٹھکانہ خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَآ : اس میں اِلَّا : مگر مَا : جسے شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہے اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اس دن کا دھیان کرو ‘ جس دن وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ کہے گا ‘ اے جنوں کے گروہ ! تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے ‘ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک دوسرے کو استعمال کیا اور ہم پہنچ گئے اپنی اس مدت کو ‘ جو تو نے ہمارے لئے ٹھہرائی۔ فرمائے گا ! تمہارا ٹھکانہ اب جہنم ہے ‘ ہمیشہ کیلئے اس میں رہو۔ مگر جو اللہ چاہے ‘ بیشک تیرا رب حکیم وعلیم ہے
چناچہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے : وَ یَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ج یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ج وَقَالَ اَوْلِیٰٓؤُھُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَآ اَجَلَنَا الَّذِیْٓ اَجَّلْتَ لَنَا ط قَالَ النَّارُ مَثْوٰکُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اِلَّا مَا شَآئَ اللہ ُ ط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ وَکَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًام بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ (الانعام : 128۔ 129) (اور اس دن کا دھیان کرو ‘ جس دن وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ کہے گا ‘ اے جنوں کے گروہ ! تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے ان کے ساتھی کہیں گے ‘ اے ہمارے رب ! ہم نے ایک دوسرے کو استعمال کیا اور ہم پہنچ گئے اپنی اس مدت کو ‘ جو تو نے ہمارے لیے ٹھہرائی۔ فرمائے گا ! تمہارا ٹھکانہ اب جہنم ہے ‘ ہمیشہ کے لیے اس میں رہو۔ مگر جو اللہ چاہے ‘ بیشک تیرا رب حکیم وعلیم ہے اور اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے پر ‘ بسبب ان کی کرتوتوں کے) اس آیت کریمہ کا سب سے پہلا لفظ ” یوم “ نہایت قابل توجہ ہے اس میں جنوں اور انسانوں کو خطاب کر کے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ آج تمہیں اسلامی دعوت اپنی ساری اثر انگیزی اور اثر آفرینی کے باوجود اپیل نہیں کر رہی۔ تم نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکاری ہو بلکہ اس کی مخالفت میں پوری طرح تلے ہوئے ہو۔ لیکن تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے کہ تم ہمیشہ یہاں نہیں رہو گے موت کا شکار بنو گے ‘ پھر ایک وقت آئے گا جب تمہیں زندہ کیا جائے گا اور اللہ کے حضور تمہاری پیشی ہوگی اور اس دن تم پر کیا گزرے گی۔ کیا اس دن کی ہولناکی کے بارے میں تم نے کبھی سوچا ہے یہ زندگی کا سفر کوئی بہت طویل نہیں اس کے بعد عالم برزخ میں تم قیامت کا انتظار کرو گے لحاظ سے عملی طور پر قیامت کے آنے میں اور تم میں تمہاری چند سالہ دنیوی زندگی ہی تو حائل ہے چند سالوں کے بعد تم جن مراحل میں مبتلا ہونے والے ہو اور تمہارا انجام جن ہولناکیوں سے دوچار ہونے والا ہے کیا تم نے کبھی اس کا بھی خیال کیا ہے تم سے ایک ایک بات کی بازپرس ہوگی۔ تمہاری ایک ایک حرکت تمہارے سامنے کھول دی جائے گی تمہارے کرتوت خود بولیں گے۔ جہنم تمہارے سامنے دھک رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ پورے جلال میں ہوں گے۔ بتائو اس دن کیا کرو گے ؟ اور آج تم اسلام کی مخالفت میں جس طرح ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ تمہاری اس اجتماعی قوت کو کوئی نہیں توڑ سکتا لیکن تمہیں اس بات کا خیال نہیں آتا کہ تم سب کے سب اجتماعی طور پر اللہ کے سامنے مجرموں کے کٹھرے میں کھڑے کیے جانے والے ہو۔ وہاں تم ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکو گے اور تم سب کو ایک ایسے ہمہ گیر عذاب کا شکار ہونا ہوگا جس سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی تمہاری مدد کو کوئی نہیں پہنچے گا۔ اس دن اللہ کی مشیت کے سوا کسی چیز کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ اس طرح تم سب اللہ کے حضور جمع کیے جاؤ گے۔ اب بجائے اس کے کہ تم آج اس کے ازالے اور تدارک کے لیے سوچو اور اس سے بچ نکلنے کی تدبیر کرو لیکن تمہاری بےبصیرتی اور کوتاہ فہمی کا حال یہ ہے کہ جو طوفان تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے اس کے بارے میں تمہیں سوچنا بھی نصیب نہیں ہو رہا۔ حساب، جنوں اور انسانوں دونوں سے لیا جائے گا اس آیت میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ خطاب جنوں اور انسانوں دونوں سے ہو رہا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تکلیف شرعی کے مکلف یعنی احکام شریعت کی بجاآوری کے پابند انسان ہیں اس طرح جنات بھی ہیں جس طرح اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب انسانوں کو دینا ہے اس طرح جنوں کو بھی ان تمام مراحل سے گزرنا ہے۔ اس لیے اس دن کی یاد دہانی کے بعد دونوں سے خطاب فرمایا جا رہا ہے لیکن جن چونکہ ایک بالادست قوت ہے اور پھر جنات کے بارے میں مشرکین مکہ مشرکانہ تصورات بھی رکھتے تھے اس لیے سب سے پہلے انہی کو خطاب کیا جا رہا ہے تاکہ مشرکین مکہ کو اندازہ ہو کہ کل کو جس طرح ہم پکڑے جائیں گے اسی طرح جن جنات کو ہم اپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں وہ بھی پکڑے جانے والے ہیں اور دوسری وجہ دونوں سے خطاب کی یہ بھی ہے کہ عرب جاہلیت میں جنوں کو عربوں کی مذہبی اور سماجی زندگی میں بڑا دخل ہوگیا تھا۔ کہانت اور ساحری کی گرم بازاری تو ان کے دم قدم سے تھی ہی شاعری تک کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ یہ جنات الہام کرتے ہیں اور ہر بڑے شاعر کے ساتھ کوئی نہ کوئی جن ضرور ہوتا ہے۔ اسی بناء پر وہ آنحضرت کے متعلق بھی یہ کہتے تھے کہ ان کے ساتھ بھی کوئی جن ہے ہر وادی کے الگ الگ جن مانے جاتے تھے اور سفر و حضر ‘ جنگ و صلح اور فتح کے معاملات میں ان کے تصرفات کا بڑا دخل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے دونوں سے بیک وقت خطاب فرمایا جا رہا ہے اور جنوں کے بارے میں جیسا کہ میں نے عرض کیا عرب مشرکانہ خیالات رکھتے تھے اور ان کی ایک طرح سے پوجا پاٹ بھی کرتے تھے اور ان سے مدد کے طالب بھی ہوتے تھے اس لحاظ سے سب سے پہلے انہی سے خطاب فرمایا اور بجائے اس کے کہ ان کے ذاتی ایمان و عمل کو حوالہ بنایا جاتا اصل مخاطب چونکہ انسان ہیں اس لیے ان کے اس جرم کا ذکر کیا جا رہا ہے جو انھوں نے انسانوں کے حوالے سے کیا ہے۔ کفارِ مکہ جنوں کو مشکل کشا سمجھتے تھے یعنی صرف یہی نہیں کہ انھوں نے اللہ کی توحید اور اس کے دین کا حق ادا نہ کیا بلکہ انھوں نے انسانوں کے بگاڑنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں تمام جن مخاطب نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بھی وہ بگڑے ہوئے لوگ مراد ہیں جنھوں نے انسانوں میں بگاڑ اور مشرکانہ تصورات پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور وہ کام کیا جو ان کے جد امجد اور ان کے پیر و مرشد ابلیس نے اللہ کے سامنے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا بلکہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس عزم صمیم کا اظہار کیا تھا کہ اے پروردگار آپ نے چونکہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں مجھے راندہ درگاہ قرار دیا ہے اس لیے آدم کی اولاد کی تباہی اور گمراہی میں میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ یہ ابلیس قرآن کے ارشاد کے مطابق چونکہ جن ہے اس کی اولاد ظاہر ہے جنات پر مشتمل ہے اور ان بیشمار صدیوں میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی تعداد کہاں تک پھیل چکی ہوگی اور پھر وہ جنات بھی جو اس کی اولاد میں شامل نہیں لیکن اس کی فکر کے حامل اور اس کے خیالات کے امین ہیں وہ بھی ان میں شامل ہیں۔ ان تمام نے مل کر انسانوں کے بگاڑ میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور ابلیس نے جو کچھ اپنے رب کے حضور میں سرکشی دکھاتے ہوئے کہا تھا اس کو پوری طرح بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ قرآن کریم نے ایک سے زیادہ جگہ اس کا تذکرہ کیا ہے ایک جگہ اس نے کہا : اَرَئَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ز لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (بنی اسرائیل : 61) (بھلا یہ ہے وہ ‘ جس کو تو نے میرے اوپر فضیلت بخشی ہے ؟ اگر تو نے مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی تو میں اس کی ساری ذریت کو چٹ کر جاؤں گا ‘ صرف تھوڑے ہی مجھ سے بچ رہیں گے) شیطان انسانوں کو گمراہ کرتا ہے دوسرے مقام پر ہے : لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْم بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآئِلِھِمْ ط وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ ۔ (میں تیری سیدھی راہ پر ان کی گھات میں بیٹھوں گا ‘ پھر میں ان کے آگے سے ‘ ان کے پیچھے سے ‘ ان کے داہنے سے ‘ ان کے بائیں سے ‘ ان کی راہ ماروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو اپناشکر گزار نہ پائے گا) (اعراف : 16-17) یہاں اصحابِ ذوق آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ” اِسْتَکْثَرْتُمْ “ کے لفظ میں نہایت لطیف تلمیح ہے۔ ابلیس کے قول { وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ اور لَاَحْتَنِکُنَّ ذُرِّیَّتَہٗ اِلَّا قَلِیْلًا } کی طرف۔ یعنی اللہ تعالیٰ ابلیس کے ان فرزندان معنوی کو خطاب کر کے فرمائے گا کہ تم نے تو اپنے پیشوا ابلیس کا مشن بڑی کامیابی سے پورا کیا کہ ذریت آدم میں سے بہتوں کو اپنے فتراک ضلالت کا نخچیر بنا لیا اور بڑی سعادتمند نکلی یہ اولادِ آدم کہ اس سادہ لوحی کے ساتھ تمہارے دام فریب میں پھنس گئی۔ اس طرح سے جنات کی اپنی بدعملیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو گمراہ کرنے کا اصل جرم ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور ساتھ ساتھ انسانوں کو شرم اور غیرت دلانے کے لیے یہ بتایا جائے گا کہ جنات نے تو تمہیں گمراہ کر کے اپنے پیشوا ابلیس کا مشن بڑی کامیابی سے پورا کیا لیکن تم نے اللہ کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے سے تو انکار کیا لیکن اپنے دشمنوں کے ہتھے ایسے چڑھے کہ انہی کے اشاروں پر چلتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت برباد کرلی اس کے بعد جنات کی طرف سے کوئی جواب مذکور نہیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنی سرکشی کے انجام کو دیکھتے ہوئے یہ ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ اپنی کارستانیوں کا کوئی جواب دے سکیں بلکہ وہ اس حد تک سہم جائیں گے کہ معذرت کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ لیکن انسانوں کا وہ گروہ جنھوں نے ان شیاطین جن کی پیروی کر کے اپنی عاقبت تباہ کی وہ یہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے ایک دوسرے کی معیت اور رفاقت سے دنیا میں خوب ایک دوسرے سے فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ اس یوم الحساب کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ فائدہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے آلہ کار بنے ہم نے ان کی پوجا کی ‘ ان کے تھانوں پر نذریں اور قربانیاں پیش کیں اور ان کے کہے پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا۔ اسی طرح ہمارے کاہنوں ‘ ساحروں اور سیانوں نے ان کو اپنے مقاصد مذمومہ کے لیے طرح طرح سے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ یہ دن آیا اور ہمیں اپنے اس عمل کے انجام پر غور کرنے کی توفیق نہ ملی۔ اس اعترافِ جرم کے بعد وہ یہ چاہیں گے کہ ہم اللہ سے معافی کی درخواست کریں اور چونکہ ہم نے یہ جرائم جنوں کی رفاقت میں کیے ہیں اس لیے دونوں کے لیے اللہ سے عفو و درگزر مانگیں۔ لیکن پروردگار ان کی بات تمہید پوری ہونے سے پہلے ہی کاٹ دے گا اور ان کو معذرت اور درخواست ِ معافی کا موقع دیئے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دے گا کہ بس اب تمہارا ٹھکانہ یہی دوزخ ہے جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اب باتیں بنانے کی کوشش نہ کرو۔ عذر ‘ معافی ‘ توبہ اور اصلاح کے سب دروازے بند ہوگئے ہیں۔ یہاں یہ جو فرمایا گیا کہ تم اب اس جہنم میں ہمیشہ رہو گے مگر وہ جو تیرا رب چاہے۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ اشتباہ پیش آیا ہے کہ قرآن کریم نے اور کئی جگہ واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور وہ کبھی اس سے نکالے نہیں جائیں گے لیکن یہا استثناء کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ جو تیرا رب چاہے۔ حالانکہ بات واضح ہے کہ یہاں مَا ہے مَنْ نہیں۔ من کا اطلاق بالعموم ذی روح اور ذی شعور مخلوقات پر ہوتا ہے لیکن مَا کا اطلاق بالعموم جمادات و نباتات اور حیوانات پر ہوتا ہے یا کسی اور ایسی چیز پر جس میں نہ جان ہو نہ ادراک۔ اس طرح صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود نہیں ہے کہ کچھ لوگ جہنم سے نکال بھی لیے جائیں گے بلکہ مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے شفاعت کرنے والے کسی نہ کسی طرح بچا لیں گے یا اور کسی طرح ان مجرمین کو مدد پہنچ جائے گی اور یہ عذاب سے بچ نکلیں گے اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہاں اللہ کی مشیت اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کا کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ نہ کوئی مدد دے سکے گا نہ کسی کی شفارش کام آئے گی وہاں تو وہی ہوگا جو اللہ کی مشیت چاہے گی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ یہاں بحث یہ نہیں ہے کہ کون ہمشہ جہنم میں رہے گا اور کون نہیں بلکہ بتلانا صرف یہ ہے کہ قیامت کے دن حکمرانی تکوینی اور تشریعی طور پر صرف اللہ ہی کی ہوگی اور اگر دوسرا مفہوم بھی لیا جائے تو تب بھی بات صاف ہے۔ کیونکہ دوسری نصوص میں قرآن شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہے گا کہ کسی کافر کو جہنم سے نکالے اس لیے اسے ہمیشہ یہیں رہنا پڑے گا۔ کافروں کے بارے میں قرآن کریم کی بیان کردہ یہ سزا کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘ بعض لوگوں کے نزدیک نہایت سخت ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ جس آدمی نے کفر اور شرک کا ارتکاب کیا ہے ظاہر ہے کہ یہ گناہ اس نے صرف اپنی زندگی میں کیا ہے اور زندگی اس کی چند سالوں پر محیط ہے۔ عجیب بات ہے کہ جو گناہ چند سالوں کی مدت میں کیا گیا ہے اس کی سزا ابد الآباد تک ہو یہ کسی طرح بھی جرم اور سزا میں مناسبت نہیں رکھتا انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ سزا ہمیشہ جرم کے مطابق ہونی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات سراسر کوتاہ فہمی پر دلالت کرتی ہے۔ دنیا میں کوئی عدالت سزا دیتے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ جرم کرنے والے نے جرم کرتے ہوئے کتنا وقت لگایا ہے بلکہ یہ دیکھتی ہے کہ اس کے جرم کی نوعیت کیا ہے اور اس نے جرم کر کے نقصان کتنا پہنچایا ہے ایک آدمی جو کئی گھنٹے بہت مشقت اٹھا کر کسی گھر میں یا کسی دکان میں نقب لگاتا ہے لیکن وہ چند سو یا چند ہزار چرا پاتا ہے اور دوسرا شخص ایک مختصر وقت میں حفاظتی انتظام کو معطل کر کے بینک کا سیف کاٹ کر لاکھوں یا کروڑوں روپے نکال کرلے جاتا ہے تو وقت تو پہلے مجرم نے زیادہ صرف کیا اور دوسرے نے کم لیکن سزا دوسرے مجرم کو زیادہ ملے گی۔ کیونکہ اس نے نقصان زیادہ کیا ہے اسی طرح کوئی آدمی دن بھر کسی کو حبس بےجا میں رکھتا ہے اور تشدد کرتا ہے اور دوسرا آدمی کسی عفت مآب خاتون کی عزت لوٹتا ہے یا ایک لمحے میں کسی کی جان لے لیتا ہے تو آپ خوب جانتے ہیں کہ سزا کس کو زیادہ ملے گی حالانکہ جان لینے والے یا عزت لوٹنے والے نے وقت بہت مختصر صرف کیا ہے لیکن نقصان ایسا کیا ہے جس کی کوئی تلافی ممکن نہیں ‘ شرک اور کفر کا ارتکاب کرنے والا اگرچہ اپنی مختصر عمر میں ایک جرم کا ارتکاب کرتا ہے لیکن وہ جرم ایسا کرتا ہے جس کی شناعت اور قباحت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس عالم کون و مکاں کی سب سے قیمتی متاع اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی حرمت ہے۔ جو آدمی شرک کرتا ہے وہ اس کی حرمت کو چیلنج کرتا ہے اور جو کفر کرتا ہے وہ اس کی ذات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑے گناہ اور جرم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اس پر جو سزا تجویز کی گئی ہے وہ خلود فی النار یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ تیرا رب حکیم اور علیم ہے یعنی جو کچھ فرمایا جا رہا ہے یہ محض کسی حکمران کی ذاتی ناراضگی اور اس کے غضب کا نتیجہ نہیں بلکہ تمہارے اس رب کے فیصلے ہیں جو تمام حکمتوں اور ہر طرح کے علم سے متصف بلکہ سرچشمہ ہے۔ کافر جن اور گمراہ انسان ایک دوسرے کے دوست ہیں گزشتہ آیت کریمہ میں ہمیں یہ بتایا گیا کہ دنیا میں انسانوں اور جنوں نے اللہ کی نافرمانی اور شرک کے ارتکاب میں ایک دوسرے کیساتھ ہمیشہ تعاون کیا۔ انسانوں نے جنات کی مدد سے اپنی کہانت اور ساحری کا دھندا چلایا اور لوگوں کو گمراہ کیا اور جنوں نے ان گمراہ انسانوں سے اپنی بندگی کروائی۔ اگلی آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ انکے درمیان یہ سازگاری اور باہمی موافقت یہ اس وجہ سے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ظالموں اور مشرکوں اور دوسرے تمام بگڑے ہوئے لوگوں میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ گمراہی اور بگاڑ کے پھیلانے میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہوتے ہیں جس طرح ہر مخلوق اپنے ہم جنس سے پیار کرتی ہے اسی طرح خیالات میں ہم آہنگی رکھنے والے اور ذوق میں اشتراک کے حامل ہمیشہ ایک دوسرے سے قریبی تعلق محسوس کرتے ہیں اور وہ برائی کے سفر میں ہمیشہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ جنات اور انسانوں میں بظاہر کوئی قدر مشترک نہیں لیکن برائی سے تعلق اور پیار انکو ایک دوسرے کے قریب کردیتا ہے اور پھر وہ اس کام میں ایک دوسرے کے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جن و انس میں یہ موافقت تو بہت غورو فکر کے بعد سمجھ میں آتی ہے لیکن آج اگر ہم پورے عالم اسلام کے حکمرانوں اور غیر مسلم دنیا کے حکمرانوں کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کی مخالفت کے حوالے سے جسطرح انھوں نے دینی قوتوں اور دین کی ہر قدر کو تباہ کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کیا ہے اور جسطرح اسلامی تشخص کو پامال کیا ہے وہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ عالم اسلام کے بیشتر حکمرانوں نے اس مقصد کے لیے غیر مسلم حکمرانوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے اور یہ بھول گئے کہ ہمارے تعاون کے نتیجے میں جو کچھ مسلمانوں پر گزرے گی جسطرح ان کا خون بہے گا ‘ جس طرح اسلامی تاریخ لہولہان ہوگی ‘ جس طرح اسلامی تہذیب کو نقصان پہنچے گا ‘ صدیوں میں اس کی تلافی شاید نہ ہو سکے اور پھر اس کے بارے میں ایک دن اللہ کے حضور بھی جواب دینا پڑے گا لیکن ان کی باہمی یگانگت اور باہمی موافقت نے ان کو نہ صرف کسی بات پر غور کرنے کا موقع نہ دیا بلکہ جس نے انکو سمجھانا چاہا وہ اس کے بھی دشمن ہوگئے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اس آیت کریمہ میں نُوَلِّی کا لفظ استعمال ہوا جس کا ایک معنی یہ ہے کہ ہم دوست بنا دیتے ہیں اور باہمی موافقت پیدا کردیتے ہیں جس کی وضاحت ہم نے اوپر کی ہے اور دوسرا معنی اس کا اہل علم نے یہ کیا ہے کہ ہم بعض ظالموں کو بعض پر مسلط کردیتے ہیں۔ گزشتہ آیت کریمہ میں ہم نے پڑھا ہے کہ جنات انسانوں کو گمراہی پھیلانے میں استعمال کرتے ہیں اور اپنی مرضی پر انھیں چلا کر خودانھیں بھی تباہ کرتے ہیں اور انکے زیر اثر لوگوں کو بھی اس کے بارے میں پروردگار فرما رہے ہیں کہ وہ خود سے ایسا نہیں کرسکتے وہ اس لیے ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ ہم انھیں ایسا کرنے دیتے ہیں ‘ مطلب اسکا یہ ہے کہ اللہ نے جنات کو یہ قوت نہیں دی کہ وہ جس آدمی پر چاہیں قبضہ جما لیں اور جیسے چاہیں اسے استعمال کریں۔ لیکن جب ایک آدمی اسلامی شریعت کے احکام سے روگردانی کرتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام کے خلاف طرز عمل اختیار کرلیتا ہے اور اپنی زندگی اسلامی احکام کے بالکل برعکس گزارنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور قرآن و سنت کو کبھی اپنے قریب نہیں آنے دیتا تو وہ اپنے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے حصار سے نکل جاتا ہے یہ وقت ہوتا ہے جب شیطانی جناتی قوتوں کو اسے ورغلانے یا اسے نقصان پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔ جن انسانوں کا ذکر سابقہ آیات میں کیا گیا ہے وہ ایسے ہی لوگ تھے جنھوں نے اللہ کے دین کو ماننے سے انکار کیا اور ایک مشرکانہ زندگی اپنی مرضی سے اختیار کی چناچہ اللہ کا قانون حرکت میں آیا۔ اللہ کا حفاظت کرنے والا ہاتھ ان سے اٹھ گیا اور وہ آہستہ آہستہ شیاطین کے قبضے میں آگئے۔ جو قرآنی تعلیمات سے منہ پھیر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتا ہے قرآن کریم نے ایک اور جگہ اسی حقیقت کو بیان فرمایا : وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَانِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَاناً فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ۔ (الزخرف : 36) (جو آدمی اللہ کے ذکر سے اعراض کرتا ہے ‘ ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں۔ پھر وہ اس کا ساتھی بنا رہتا ہے) ذکر سے مراد ہر اچھی بات کی نصیحت بھی ہے اور قرآن کریم بھی ہے کیونکہ ذکر قرآن پاک کے ذاتی ناموں میں سے ایک نام ہے یعنی جب کوئی آدمی اللہ کی کتاب یعنی قرآن کی تعلیمات سے منہ پھیر لیتا ہے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے یا اس پر عمل کرنے سے فرار اختیار کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں وہ ہمیشہ اسے اس طرح کھینچے پھرتا ہے جیسے ایک مخمور آدمی کا ہاتھ پکڑنے والا اسے جہاں چاہے لے جاتا ہے یا جیسے ایک سوار اپنے گھوڑے کے قابو آجائے تو وہ اسے جس کھائی میں چاہتا ہے پھینک دیتا ہے یہی حال اس آدمی کا ہوتا ہے کہ وہ سمجھتا یہ ہے کہ جو زندگی میں گزار رہا ہوں یہ میں شاید اپنی مرضی سے گزار رہا ہوں حالانکہ وہ تو ایک شیطان کے قبضے میں ہوتا ہے جو اسے جہاں چاہتا ہے لیے پھرتا ہے اور جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے لیکن یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ شخص اللہ کے دین کو چھوڑ دیتا ہے۔ آج بھی ہم چاروں طرف ہمیشہ اس طرح کی شکایتیں سنتے ہیں کہ آسیب اور جنات کا اثر عام ہوتا جا رہا ہے اور پھر ہم اس کے لیے پیشہ ور عاملوں کے چکر لگاتے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنے گھروں کو اسلامی احکام کی مخالفت سے پاک کرلیں اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق اپنے اور اپنے گھروں کے معمولات کو درست کرلیں تو کوئی جن یا کوئی شیطان ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا ان کو یہ جرأت اس وقت ہوتی ہے جب ہم اپنے آپ کو اللہ کی رحمت سے محروم کرلیتے ہیں۔ کاش ہم کبھی اپنے اعمال پر غور کرسکیں تو دنیا کے نقصان سے بھی بچیں اور آخرت بھی سنوار لیں۔
Top