Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 130
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِیْنَ
يٰمَعْشَرَ : اے گروہ الْجِنِّ : جنات وَالْاِنْسِ : اور انسان اَلَمْ يَاْتِكُمْ : کیا نہیں آئے تمہارے پاس رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْكُمْ : تم میں سے يَقُصُّوْنَ : سناتے تھے (بیان کرتے تھے) عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتِيْ : میرے احکام وَيُنْذِرُوْنَكُمْ : اور تمہیں ڈراتے تھے لِقَآءَ : ملاقات (دیکھنا) يَوْمِكُمْ : تمہارا دن ھٰذَا : اس قَالُوْا شَهِدْنَا : وہ کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِنَا : اپنی جانیں وَغَرَّتْهُمُ : اور انہیں دھوکہ میں ڈالدیا الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَشَهِدُوْا : اور انہوں نے گواہی دی عَلٰٓي : پر (خلاف) اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں (اپنے) اَنَّهُمْ : کہ وہ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ : کفر کرنے والے تھے
اے جنوں اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس تمہیں میری آیتیں سناتے اور تمہارے اس دن کی ملاقات سے تم کو ہوشیار کرتے ہوئے ‘ تم میں سے رسول نہیں آئے ؟ وہ بولیں گے ہم خود اپنے خلاف شاہد ہیں اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ بیشک وہ کافر رہے
تمہید اگلی آیت کریمہ میں ایک اور سوال کا ذکر کیا جا رہا ہے جو جنوں اور انسانوں سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ جس سے صرف یہ تصور دینا مقصود ہے کہ اس دن تم اس سوال کا جواب اگرچہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اور اپنے قصور کو تسلیم کر کے دو گے لیکن اس وقت تمہارا اعتراف تمہارے کسی کام نہیں آئے گا بجز اس کے کہ تمہارے پچھتاوے میں اضافہ ہو لیکن اگر آج تم اس تصور کو یقینی بنا کر کوئی فائدہ اٹھا سکو تو کل کو اس یقینی پیش آنے والے انجام سے بچ سکتے ہو اور مزید اس سے یہ تصور دینا بھی مقصود ہے کہ تم خود اس دن اعتراف کرو گے کہ ہمارے پاس عذر پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اگر آج تم اپنی حالت پر اس دن پیش آنے والی صورت حال کو سامنے رکھ کر غور کرنے کی زحمت کرلو تو اس سے تمہاری دنیا بھی بن سکتی ہے اور آخرت بھی چناچہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے : یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌمِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ وَ یُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاط قَالُوْا شَھِدْنَا عَلٰیٓ اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ شَھِدُوْا عَلیٰٓ اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ ۔ (الانعام : 130) (اے جنوں اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس تمہیں میری آیتیں سناتے اور تمہارے اس دن کی ملاقات سے تم کو ہوشیار کرتے ہوئے ‘ تم میں سے رسول نہیں آئے ؟ وہ بولیں گے ہم خود اپنے خلاف شاہد ہیں اور ان کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں رکھا اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ بیشک وہ کافر رہے) پروردگار جن و انس سے قیامت کے دن یہ سوال فرمائے گا کہ کیا دنیا میں تمہارے پاس میرے فرستادہ لوگ تمہیں سمجھانے کے لیے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے کیا میرے احکام تم تک نہیں پہنچائے تھے اور کیا تمہیں کھول کھول کر یہ بات واضح نہیں کردی تھی کہ تمہاری زندگی اور آخرت کی کامیابی اللہ کے احکام کو ماننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے ؟ اور پھر تمہیں انھوں نے کیا ان امتوں کی مثالیں دے کر اور ان کے واقعات بیان کر کے (جن امتوں کی تاریخ سے تم خود واقف بھی تھے) نہیں سمجھایا تھا کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی اور اللہ سے اپنا تعلق استوار نہ کیا اور اس کے احکام کی اطاعت نہ کی تو تم اس عذاب اور اس انجام سے نہیں بچ سکو گے جسکا شکار وہ معذب قومیں ہوئیں ؟ اور تمہیں ہر پہلو سے تمہاری طرف سے تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کر کے پوری طرح یہ بات واضح کرنے کی کوشش نہیں کی کہ تمہیں یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہر ایک کو ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے اور پھر برزخی زندگی گزار کر ایک نہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضری دینی ہے اور یقینا اس کی عدالت میں پیش ہونا ہے وہاں تم سے تمہارے ایک ایک عمل اور زندگی کے ایک ایک لمحے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آج اگر تم نے اس کی فکر نہ کی تو بتائو کل اس کا کیا جواب دے سکو گے۔ چناچہ اس سوال کے جواب میں یہ لوگ جو آج کسی طرح بھی اللہ کے نبی کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس دعوت کا مذاق اڑانا اور توہین کرنا ان کا معمول بن گیا ہے اور وہ اپنے نخوت وتکبر میں کوئی سی نصیحت سننے کے روادار نہیں ‘ لیکن اس دن صاف صاف اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے اور اپنے قصور کو تسلیم کریں گے اور برملا اس بات کو مانیں گے کہ یقینا تیرے سمجھانے والے اور راہ راست دکھانے والے ہمارے پاس آئے تھے لیکن ہم نے ان کی ایک بات بھی مان کے نہ دی اور ہم نے اپنے کفر ‘ شرک اور سرکشی میں کوئی تبدیلی لانا گوارا نہ کیا۔ کفار اور مشرکین کا یہ جواب صرف یہیں نہیں قرآن کریم نے اور بھی بعض جگہ نقل کیا ہے۔ سورة الملک میں بیان فرمایا گیا ہے : کُلَّمَآ اُلْقِیَ فِیْھَا فَوْجٌسَاَلَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ۔ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآئَنَا نَذِیْرٌ5 لا فَکَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہ ُ مِنْ شَیْئٍ جصلے اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ ۔ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ۔ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِھِمْ ج فَسُحْقًا لاَِّصْحٰبِ السَّعِیْرِ ۔ (الملک : 8-11) (جب جب اس میں جھونکی جائے گی کوئی پارٹی۔ دوزخ کے داروغے اس سے سوال کریں گے ‘ کیا تمہارے پاس کوئی آگاہ کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ کہیں گے ‘ ہاں ! بیشک ہمارے پاس آگاہ کردینے والا آیا تھا۔ لیکن ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہا کہ خدا نے کوئی چیز نہیں اتاری ہے ‘ تم لوگ تو ایک بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔ اور وہ کہیں گے ‘ اگر ہم سننے اور سمجھنے والے لوگ ہوتے تو دوزخ میں پڑنے والے نہ بنتے۔ پس وہ اپنے جرم کا اعتراف کرلیں گے ‘ پس دفع ہوں یہ دوزخ والے) تصور فرمایئے کہ مشرکین مکہ کا طرز عمل جو سراسر تکبر اور نخوت پر مبنی تھا جس میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے بجز تحقیر اور استہزاء اور اذیت رسانی کے ان کے پاس کچھ نہیں تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں جس بات کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اس کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ ہماری زندگی میں اس کے لیے کوئی گنجائش لیکن جب وہ قیامت کے دن اس بےبسی کا شکار ہوں گے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دل کی کیا کیفیت ہوگی اور وہ کس طرح خون کے آنسو روئیں گے۔ لیکن آج ان کا رونا کسی کام نہیں آئے گا قرآن کریم یہ جذباتی اور ہولناک منظر ان کے سامنے رکھ کر انھیں توجہ دلانا چاہتا ہے کہ نادانو ! آج ہی کچھ غور کرلو تو شاید کل کو اپنے اس انجام بد سے بچ سکو ورنہ اس انجام کا آنا تو اس قدر یقینی ہے جس طرح آج تمہارا وجود تمہارے سامنے ہے جس طرح تم آج سورج کو طلوع ہوتا اور ڈوبتا دیکھتے ہو اسی طرح اس انجام کو بھی دیکھو گے لیکن پھر اس سے بچنے کی تمہارے پاس کوئی صورت نہیں ہوگی۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس آیت کریمہ میں دو باتوں کی تشریح ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے اعتراف گناہ کو بیان کرتے ہوئے جملہ معترضہ کے طور پر اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو آخر قبول کیوں نہیں کرتے حالانکہ اللہ کے رسول کی ذات خود اپنے اندر اس قدر اعجازی شان رکھتی ہے کہ معمولی سوج بوجھ والا آدمی بھی پیغمبر کو دیکھنے کے بعد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اس کی دل آویز شخصیت ‘ اس کا دل موہ لینے والا سراپا ‘ اس کے چہرے کا نور ‘ اس کی پیشانی سے اٹھتی ہوئی روشنی ‘ اس کی زبان سے ٹپکنے والا امرت اور اس کے معاملات کی سچائی ‘ اس کے اخلاق کی بلندی ‘ اس کی خاندانی شرافت ‘ اس کی امانت و صداقت ان میں سے کون سی بات ہے کہ دشمن بھی جس سے انکار کرنے کی جرأت کرسکیں اور پھر اس کی زبان سے ادا ہونے والا اللہ کا کلام جو اپنی فصاحت و بلاغت میں معجزانہ شان کے ساتھ ساتھ معانی اور مفاہیم کا ایسا سمندر کہ جس کی گہرائی کا اندازہ کرنا انسانی بس سے ماورا ہے جس کا پیش کردہ نظام زندگی ہر طرح کے تضاد سے پاک ‘ ہر طرح کی نارسائی سے مبرا اور صداقت و حقانیت اور واقعیت کی ہر ترازو میں تلنے والا اور جس کی پیش کردہ پیشگوئیاں اور علمی انکشافات تاریخ کا ناقابل تردید باب ‘ لیکن مشرکین مکہ اور اس دور کے دوسرے کفار جو قیامت کے دن اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے ‘ لیکن آج وہ کسی طرح بھی قرآن اور صاحب قرآن سے متاثر ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی حقیقت کھولتے ہوئے بیان فرمایا گیا ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو ان کی دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کردیا ہے۔ انھوں نے جب یہ دیکھا کہ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت لیکر ہمارے سامنے آئے ہیں وہ دنیوی اعتبار سے ہمارے مقابلے میں نہایت فروتر ہیں ‘ انھیں کوئی خوشحال زندگی میسر نہیں معمولی ضروریاتِ دنیا سے بھی تہی دامن ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں نہایت پر تکلف زندگی بسر کر رہے ہیں ‘ دنیا کی ہر آسودگی ہمیں میسر ہے ‘ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جسکا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے اور پھر جس زندگی کے رویے سے ہمیں وہ روکنا چاہتے ہیں اگر وہ رویہ غلط ہوتا تو یقینا پروردگار ہمیں اس کی سزا دیتا اور دنیوی خوشحالی ہم سے چھین لیتا سزا کے طور پر ہمیں مختلف مصائب کا شکار کرتا اور ہمارے مقابلے میں پیغمبر اور اس کے ماننے والوں کو دنیوی نعمتوں سے نوازتا۔ لیکن جب ایسا نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ لوگ ہیں اور ہمیں جس بات کی دعوت دی جارہی ہے اس میں قطعاً کوئی سچائی نہیں۔ مشرکین مکہ دراصل اس فریب میں مبتلا ہوئے کہ اگر ہمارا طرز عمل غلط ہوتا تو ہم یقینا سزا کے مستحق ہوتے اور دنیوی اقتدار اور اس کی خوشحالیاں ہمیں کبھی میسر نہ آتیں حالانکہ دنیا کا یہ نظام جزا و سزا کے اصول پر نہیں چل رہا بلکہ ابتلا کے اصول پر چل رہا ہے جس میں حق کے ساتھ باطل کو بھی مہلت ملی ہوئی ہے۔ جس طرح حق کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیے راستہ نکالے اسی طرح باطل کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں وہ جسطرح چاہے زندگی گزارے اور جس طرح چاہے اپنے لیے نفوذ کے وسائل پیدا کرے یہاں انفرادی طور پر بھی ہر شخص کی آزمائش ہو رہی ہے اور اجتماعی طور پر بھی قومیں آزمائی جا رہی ہیں کسی کو نعمتیں دے کر آزمایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یا نہیں اور کسی کو فقر و فاقہ میں مبتلا کر کے آزمایا جاتا ہے کہ وہ بدحالی میں بھی صبر کر کے اللہ کو یاد کرتا ہے یا نہیں اور قومیں کبھی دولت اور اقتدار سے آزمائی جاتی ہیں اور کبھی قومی مسائل سے دوچار کر کے اور اقتدار سے محروم کر کے آزمائی جاتی ہیں۔ رہی جزا اور سزا یہ دنیا اس کی جگہ نہیں اس کی جگہ آخرت ہے۔ مشرکین مکہ اور دوسرے کفار چونکہ اس بات کو نہیں سمجھے اس لیے دنیوی زندگی کے دھوکے میں آگئے اور اپنی دولت مندی اور خوشحالی کو اللہ کے ہاں رضامندی کی دلیل سمجھ کر اس پر اڑ گئے اور تباہ ہوگئے اس میں ہمارے لیے غور و فکر کا ایک وسیع باب موجود ہے کہ ہم بھی اپنی حالت پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ کہیں ہم بھی اسی فریب نظر کا شکار تو نہیں ہمارا مقتدر اور خوشحال طبقہ کیا اسی طرح کی فریب خوردگی میں مبتلا تو نہیں اور کیا ہمارا پسماندہ طبقہ اور غریب لوگ کیا تقدیر کے شاکی ہو کر ایسی ہی صورت حال سے دوچار تو نہیں۔ کیا جنوں کے الگ رسول تھے ؟ دوسری بات جو اس آیت میں وضاحت طلب ہے وہ یہ ہے کہ اس میں رُسُلٌمِّنْکُمْکا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے جنوں اور انسانو ! اللہ نے تمہی میں سے تمہارے پاس رسول بھیجے ہیں یعنی انسانوں میں سے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور جنوں میں سے جنوں کو اور یہ بات قرین عقل بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی اصلاح و ہدایت کے لیے اگر کسی جن کو رسول بنا کر بھیجا جاتا تو یقینا اس کی زبان اور ہوتی وہ اپنی اصل حیثیت میں کبھی نظر نہ آتا اسکا مزاج اور اس کی طبیعت انسانوں سے یکسر مختلف ہوتی۔ اس کے سوچنے سمجھنے کا انداز ‘ اس کے احساسات کی دنیا یقینا انسانوں سے متفاوت ہوتی۔ ایسی صورت حال میں انسان اس کی تعلیم و تبلیغ اور اس کی عملی نمونے سے کیا فائدہ اٹھاتے اور وہ کس طرح انسانوں کے سامنے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کرسکتا بالکل یہی صورت حال اس وقت بھی ہوتی جب انسان جنوں کی طرف اللہ کے رسول بن کے آتے۔ وہ بھی ان کے لیے نہ اسوہ ثابت ہوتے نہ عملی پیکر بنتے نہ اتمام حجت کرسکتے زیادہ سے زیادہ دونوں میں کوئی اشتراک ہوسکتا تو عقائد اور اخلاق کے بعض اصولوں میں ہوسکتا۔ رہی شریعت ‘ قانون اور معاشرت یقینا اس کے مسائل دونوں میں الگ الگ ہیں اس لیے ان میں کسی اشتراک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے یہ بات سمجھنا عقل کے عین مطابق ہے کہ انسانوں کی طرف انسان رسول بن کے آئے اور جنوں کی طرف جنات۔ قرآن و سنت میں چونکہ اس بارے میں واضح طور پر کوئی بات نہیں کہی گئی اس لیے علما نے اس سلسلے میں مختلف طرز عمل اختیار کیے ہیں۔ بعض کا کہنا یہ ہے کہ رسول اور نبی صرف انسان ہی ہوئے اور ہوتے چلے آئے ہیں ‘ جنات کی قوم میں سے کوئی شخص رسول بلا واسطہ نہیں ہوا بلکہ ایسا ہوا ہے کہ انسانی رسول اور پیغمبر کا کلام اپنی قوم کو پہنچانے کے لیے جنات کی قوم میں کچھ لوگ ہوئے ہیں جو درحقیقت رسولوں کے قاصد اور پیغامبر ہوتے تھے ‘ مجازی طور پر ان کو بھی رسول کہہ دیا جاتا ہے ‘ ان حضرات کا استدلال قرآن مجید کی ان آیات سے ہے ‘ جن میں جنات کے ایسے اقوال مذکور ہیں کہ انھوں نے نبی کا کلام یا قرآن سن کر اپنی قوم کو پہنچایا مثلاً : وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ اور سورة جن کی آیت قَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّھْدِیْ اِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہٖ وغیرہ حضرت محمد ﷺ جنوں اور انسانوں سب کی طرف رسول ہیں لیکن ایک جماعت علماء اس آیت کے ظاہری معنی کے اعتبار سے اس کی بھی قائل ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ سے پہلے ہر گروہ کے رسول اس گروہ میں سے ہوتے تھے ‘ انسانوں کے مختلف طبقات میں انسانی رسول آتے تھے اور جنات کے مختلف طبقات میں جنات ہی میں سے رسول ہوتے تھے ‘ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ﷺ کو سارے عالم کے انسانوں اور جنات کا واحد رسول بنا کر بھیجا گیا اور وہ بھی کسی ایک زمانہ کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن و انس آپ ﷺ کی امت ہیں اور آپ ﷺ ہی سب کے رسول و پیغمبر ہیں۔ اس بات کی تائیدبعض روایات سے بھی ہوتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی جنات سے ملاقاتوں کا تذکرہ ہے حضرت عبد اللہ ابن مسعود ( رض) ایک سے زیادہ مرتبہ آنحضرت کے ساتھ جنات سے ملاقات کے لیے گئے ان کو ایک دائرہ میں بٹھا کر آپ خود آگے بڑھ گئے۔ حضرت عبد اللہ وہاں بیٹھے کچھ سایوں کو آتے جاتے دیکھتے رہے اور آنحضرت کو انھوں نے قرآن پاک پڑھتے بھی سنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور مختلف اوقات میں قرآن پاک کی تعلیم اور اللہ کے احکام پہنچانے کے لیے جنات سے ملاقاتیں فرماتے تھے اور پھر امت کے بڑے بڑے اہل علم اور اکابر اولیا کے بارے میں تواتر سے یہ باتیں تاریخ میں نقل ہوئی ہیں کہ جنات ان کے حلقہ تلمذ میں شامل رہے اور اپنی اصلاح کے لیے ان سے اکتساب فیض بھی کرتے رہے اور وہ ہمیشہ آنحضرت ﷺ پر ایمان ہی کا تذکرہ کرتے رہے انھوں نے اپنے کسی پیغمبر کا کبھی ذکر نہیں کیا اس سے یہ بات سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ حضور کی بعثت سے پہلے ممکن ہے ان میں خود ان کے اندر سے پیغمبر آتے رہے ہوں لیکن آنحضرت کی تشریف آوری کے بعد جن و انس سب کے رسول حضور ہی ہیں۔ البتہ ان کی اصلاح و ہدایت کے لیے جس طرح آج انسانوں میں انسان کام کر رہے ہیں اسی طرح ان میں جنات کام کر رہے ہیں اور ان پر ہماری پوری شریعت بلا کم وکاست نافذ ہے یا ان کے لیے کچھ خصوصی احکام بھی ہیں ان تفصیلات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اگلی آیت کریمہ میں اس اہتمام کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا رہا ہے کہ اللہ نے انسانوں اور جنوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ رسول مبعوث کیے اور ہمیشہ ان پر اپنے احکام نازل فرمائے۔
Top