Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 66
وَ كَذَّبَ بِهٖ قَوْمُكَ وَ هُوَ الْحَقُّ١ؕ قُلْ لَّسْتُ عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ
وَكَذَّبَ : اور جھٹلایا بِهٖ : اس کو قَوْمُكَ : تمہاری قوم وَهُوَ : حالانکہ وہ الْحَقُّ : حق قُلْ : آپ کہ دیں لَّسْتُ : میں نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر بِوَكِيْلٍ : داروغہ
اور تمہاری قوم نے اسکی تکذیب کردی ‘ حالانکہ وہ بالکل حق ہے کہہ دو ! میں تمہارے اوپر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوا ہوں
تمہید قرآن کریم اپنی بہت سی امتیازی خصوصیات کے باعث دنیا کی ایک منفرد کتاب ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہ کہیں موجود ہے اور نہ ممکن ہے۔ ہر کتاب کسی ایک شعبہ علم سے بحث کرتی ہے تو اس کے اصولی مباحث ابواب میں تقسیم کر کے ضمنی بحثوں کو فصول میں پھیلا کر اس شعبہ علم سے متعلق ضروری باتوں کو سمیٹ لیتی ہے اور خاتمۃ الکتاب میں اس کا ایک خلاصہ دے کر بحث کا حق ادا کردیا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ جو بات کہنا تھی وہ مکمل ہوگئی۔ لیکن اس کتاب کا موضوع چونکہ انسانی اصلاح اور اس کی ہدایت ہے اس لیے وہ انسانی احساسات انفعالات اور تصورات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور ہر مرحلے پر دعوت کے اسلوب کو متعین کرتی ‘ آنے والی مشکلات کا حل دیتی اور پیغمبر کے لیے حوصلے کا سامان کرتی اور مخاطبین کے لیے ترغیب و ترہیب کے ذریعے قبولیت کے امکانات کو اجاگر کرتی ہوئی ‘ دعوتی مراحل سے قدم قدم گزرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں یقینا اس کے اسلوب میں باربار تبدیلی آئے گی ‘ مضامین میں تنوع ہوگا ‘ لہجہ بار بار بدلے گا اور بعض دفعہ ایک ہی بات کو مختلف اسالیب میں بھی دہرایا جائے گا اور کبھی شبنمی زبان میں خطاب کیا جائے گا اور کبھی برق و رعد کی صورت میں دل ہلا دینے والا انداز اختیار کیا جائے گا اگر یہ تصورات قاری کے ذہن میں موجود رہیں تو تب وہ اس کتاب سے صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھے کہ آرام کرسی پر لیٹ کر یا محض علمی تجسس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میں یہ کتاب پڑھ رہا ہوں تو اسے یہ کتاب بہت اجنبی دکھائی دے گی لیکن جب وہ یہ محسوس کرے کہ میں ایک میدانِ دعوت سے گزر رہا ہوں جس میں انسانی بگاڑ کی چند در چند صورتیں اس کے سامنے ہیں ‘ جذبات کا ایک طوفان ہے جو اس کا راستہ روک رہا ہے طبیعتوں کا ہیجان قدم قدم پر مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب وہ قرآن کریم کو دیکھے گا تو تب اسے اندازہ ہوگا کہ کس طرح وہ انگلی پکڑ کر اپنے داعی کو ساتھ ساتھ چلاتا ہے۔ یہاں بھی ہم ویسی ہی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ مشرکینِ مکہ کبھی کوئی سوال اٹھا رہے ہیں ‘ قرآن اس کا جواب دے رہا ہے۔ کبھی وہ کوئی نشانی مانگ رہے ہیں اور خود آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں میں بھی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کی خواہش پیدا ہو رہی ہے۔ قرآن اس کی حکمتیں واضح کر رہا ہے۔ کبھی وہ بڑھتے بڑھتے مطالبہ عذاب تک جا پہنچے ہیں اور پھر جب اس کو پورا نہیں کیا جا رہا تو وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اللہ اس پر قادر نہیں ہے تو انھیں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تو ہر بات پر قادر ہے اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ‘ اس کے پاس عذاب دینے کی ہزار صورتیں ہیں۔ وہ تمہیں کسی وقت کسی طرح کے عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ شاید وہ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن جب انھوں نے ہر طرح سے اپنے دل و دماغ کو بند کرلیا ہے ‘ معلوم ہوتا ہے کہ سننے اور سمجھنے والی صلاحیتوں پر تالے لگ گئے ہیں تو تب آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے : وَ کَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوَ الْحَقُّ ط قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ ۔ (الانعام : 66) (اور تمہاری قوم نے اس کی تکذیب کردی ‘ حالانکہ وہ بالکل حق ہے۔ کہہ دو ! میں تمہارے اوپر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوا ہوں) رسول اللہ ﷺ کی ذمہ داری حق بات پہنچا دینا ہے اس آیت کریمہ میں تین باتوں کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے۔ پہلی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ اگر راہ راست اختیار نہیں کر رہے حالانکہ آپ نے ترغیب اور ترہیب ہر طرح کا انداز اختیار کر کے دیکھ لیا ہے ‘ ان کی ڈھٹائی کا حال یہ ہے کہ انھیں عذاب سے ڈرایا گیا ‘ لیکن انھوں نے اس کا بھی تمسخر اڑایا اور اس کی تکذیب کی۔ آپ سے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اگر ایمان لانے کی بجائے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ عذاب کی بھی پرواہ نہیں کرتے تو آپ بھی ان کی پرواہ چھوڑ دیں۔ اب رہی یہ بات کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا یہ اب آپ کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے آپ کو یہ سوچ کر ہرگز پریشان اور مغموم نہیں ہونا چاہیے کہ یہ لوگ ایمان کی دولت سے محروم رہے۔ ایمان کی دولت ان لوگوں کو ملتی ہے جو اس کے لیے چاہت رکھتے ہیں اور پھر اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ ایمان کوئی ایسی گری پڑی چیز نہیں کہ نا قدر شناس لوگوں کو دے دی جائے۔ اس لیے آپ خاطر جمع رکھیں اور ہرگز اس صورت حال سے اثر قبول نہ کریں دوسری بات یہ فرمائی جا رہی ہے کہ جہاں تک عذاب کا تعلق ہے یہ مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ عذاب محض ڈراوا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں حالانکہ وہ ایک حقیقت ہے وہ جب اللہ فیصلہ کرے تو ہو کے رہنے والی چیز ہے ‘ جب اس کے نازل ہونے کا وقت آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی۔ اس لیے کہ عذاب صرف ایک سزا کا نام نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں بھی حق ہے کیونکہ اللہ کے غضب کا اظہار ہے اور اس لیے بھی حق ہے کہ اس کے ذریعے سے حق و باطل کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اہل حق باقی رہتے ہیں اور سرفراز کیے جاتے ہیں اور انکار کرنے والے اس عذاب کا شکار ہو کر تباہ ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ اگر اسے ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور اس کی حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے تو یہ ان کی اپنی جہالت اور بےبصیرتی ہے۔ حق ‘ حق ہے چاہے اسے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے۔ جو اسے تسلیم کرلیتا ہے اس کی عظمت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اہل حق میں شمار کرلیا اور اس نے حق کو پہچان کر اپنی بصیرت کا ثبوت دیا اور جو آدمی اس حق کو قبول کرنے اور سمجھنے سے انکار کردیتا ہے وہ حیوانوں سے بھی بدتر ٹھہرتا ہے کیونکہ اس نے اس کا انکار کر کے حق سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے اور اپنے آپ کو بےبصیرت ثابت کردیا ہے ‘ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی سورج کے وجود کا انکار کر دے جبکہ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ وہ آنکھیں بند کیے رہے اور شور مچائے کہ میں سورج کو ماننے سے انکار کرتا ہوں تو ہر آدمی اس پر ہنسے گا اور کہے گا کہ ایک مسلّم بات کا انکار کر کے تم اپنی جہالت پر مہر لگا رہے ہو اور جہاں تک آفتاب کے وجود اور اس کی تابانی کا تعلق ہے تمہارے انکار سے اس میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوگا۔ تیسری بات یہ فرمائی جا رہی ہے کہ آپ ان مشرکین کے سامنے کھول کر یہ بات بیان فرما دیں کہ تم شاید یہ سمجھتے ہو کہ اگر عذاب نہ آیا تو شاید مجھ سے تمہارے ایمان نہ لانے کی باز پرس ہوگی حالانکہ میرا کام تبلیغ و دعوت اور انذار کرنا ہے۔ اس میں بفضلہ تعالیٰ میں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی تم نے دنیا کی ہر تکلیف اور ہر اذیت مجھے پہنچائی قدم قدم پر میرے راستے میں کانٹے بچھائے۔ ناگفتہ بہ مصائب سے مجھے دوچار کیا ‘ میرے ساتھیوں کو ہر طرح ادھیڑا کھدیڑا ‘ میری دعائوں کے مقابلے میں تم نے مجھے گالیاں دیں۔ لیکن اس کے باوجود میں نے خون کے گھونٹ پی پی کر تمہاری خیر خواہی اور ہمدردی کا حق ادا کیا ‘ تمہارے ایک ایک دروازے پر میں نے دستک دی۔ اس لیے جہاں تک میرے فرض کی ادائیگی کا تعلق ہے میں اسے ادا کرچکا ہوں۔ رہی یہ بات کہ لازماً تمہیں ایمان و اسلام کی راہ پر چلنے پر مجبور کر دوں اور بہرصورت تمہیں دولت ایمان سے بہرہ ور کر دوں اور تمہارے نہ چاہتے ہوئے بھی میں ایمان تمہارے گلے سے نیچے اتار دوں یہ نہ میری ذمہ داری ہے اور نہ یہ میرے بس میں ہے کیونکہ میں تم پر مبشر اور منذر بن کر آیا ہوں کوئی داروغہ بن کر نہیں آیا۔ لیکن تم اگر عذاب ہی کے لیے مچلے ہوئے ہو اور نادانوں کی طرح اس پر ضد کر رہے ہو تو سنو :
Top