Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 65
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ یَلْبِسَكُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں هُوَ : وہ الْقَادِرُ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يَّبْعَثَ : بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابًا : عذاب مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر اَوْ : یا مِنْ : سے تَحْتِ : نیچے اَرْجُلِكُمْ : تمہارے پاؤں اَوْ يَلْبِسَكُمْ : یا بھڑا دے تمہیں شِيَعًا : فرقہ فرقہ وَّيُذِيْقَ : اور چکھائے بَعْضَكُمْ : تم میں سے ایک بَاْسَ : لڑائی بَعْضٍ : دوسرا اُنْظُرْ : دیکھو كَيْفَ : کس طرح نُصَرِّفُ : ہم پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیات لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَفْقَهُوْنَ : سمجھ جائیں
کہہ دو ! خدا قادر ہے ‘ اس بات پر کہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا تم کو گروہ در گروہ کر کے آپس ہی میں گتھم گتھاکر دے اور ایک کو دوسرے کے تشدد کا مزا اچھی طرح چکھا دے۔ دیکھو ! کس کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوئوں سے بیان کرتے ہیں ‘ تاکہ وہ سمجھیں
ارشاد ہوتا ہے : قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ط اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ ۔ (الانعام : 65) (کہہ دو ! خدا قادر ہے ‘ اس بات پر کہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب اٹھا دے یا تم کو گروہ در گروہ کر کے آپس ہی میں گتھم گتھاکر دے اور ایک کو دوسرے کے تشدد کا مزا چکھا دے۔ دیکھو ! کس کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوئوں سے بیان کرتے ہیں ‘ تاکہ وہ سمجھیں) اللہ تعالیٰ ہر طرف سے عذاب بھیجنے پر قادر ہے مشرکین مکہ جو بار بار عذاب الٰہی کا مطالبہ کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے تھے انھیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے عذاب کو آتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ہوا کا ایک طوفان تمہیں اچانک برباد کرسکتا ہے زلزلے کا ایک جھٹکا تمہاری بستیوں کو پیوند خاک کردینے کے لیے کافی ہے۔ قبیلوں ‘ قوموں اور ملکوں کی عداوتوں کے میگزین میں ایک چنگاری وہ تباہی پھیلا سکتی ہے کہ سالہا سال خون ریزی اور بد عملی سے نجات نہ ملے بس اگر عذاب نہیں آرہا تو یہ تمہارے لیے غفلت و مدہوشی کی پینک نہ بن جائے کہ مطمئن ہو کر صحیح و غلط کا امتیاز کیے بغیر اندھوں کی طرح زندگی کے راستے پر چلتے رہو۔ غنیمت سمجھو کہ اللہ تمہیں مہلت دے رہا ہے اور وہ نشانیاں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے جن سے تم حق کو پہچان کر صحیح راستہ اختیار کرسکو۔ اس آیت میں عذاب کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں اور پھر لفظ عَذَابًا کو تنوین کے ساتھ نکرہ لا کر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان تینوں قسموں میں عذاب کی اور قسمیں بھی شامل ہوسکتی ہیں اور ان سے ملتی جلتی تمام صورتیں مراد ہیں۔ چناچہ گزشتہ معذب قوموں کی تاریخ جب ہم دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں ان تمام صورتوں پر مشتمل عذاب دکھائی دیتا ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس اور مجاہد وغیرہ آئمہ تفسیر نے فرمایا کہ اوپر کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ظالم بادشاہ اور بےرحم حکام مسلط ہوجائیں اور نیچے کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اپنے نوکر ‘ غلام اور خدمت گار یا ماتحت ملازم بےوفا ‘ غدار ‘ کام چور اور خائن ہوجائیں۔ چناچہ صاحب معارف القرآن نے اس کی تائید میں تفصیل سے آنحضرت ﷺ کے بعض ارشادات نقل کیے ہیں اور بعض وضاحتیں فرمائی ہیں۔ ہم اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں ‘ انھوں نے لکھا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کے چند ارشادات سے بھی حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) کی اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ شعب الایمان بیہقی رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے : کَمَا تَکُوْنُوْنَ یُؤَمَّرُ عَلَیْکُمْ یعنی ” جیسے تمہارے اعمال بھلے یا برے ہوں گے ویسے ہی حکام اور امراء تم پر مسلط کیے جائیں گے “۔ یعنی اگر تم نیک اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو گے تو تمہارے حکام و امراء بھی رحم دل ‘ انصاف پسند ہوں گے اور تم بدعمل ہو گے تو تم پر حکام بھی بےرحم اور ظالم مسلط کردیئے جائیں گے ‘ مشہور مقولہ اَعْمَالُکُمْ عُمَّا لُکُمْ کا یہی مفہوم ہے۔ اور مشکوٰۃ میں بحوالہ حلیہ ابی نعیم روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی معبود نہیں ‘ میں سب بادشاہوں کا مالک اور بادشاہ ہوں ‘ سب بادشاہوں کے قلوب میرے ہاتھ میں ہیں ‘ جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں اور حکام کے قلوب میں ان کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں ان کے حکام کے دل ان پر سخت کردیتا ہوں ‘ وہ ان کو ہر طرح کا برا عذاب چکھاتے ہیں ‘ اس لیے تم حکام اور امراء کو برا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کرو ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اپنے عمل کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ ‘ تاکہ تمہارے سب کاموں کو درست کر دوں “۔ اس طرح ابودائو ‘ نسائی میں حضرت عائشہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ کسی امیر اور حاکم کا بھلا چاہتے ہیں تو اس کو اچھا وزیر اور اچھا نائب دے دیتے ہیں کہ اگر امیر سے کچھ بھول ہوجائے تو وہ اس کو یاد دلا دے اور جب امیر صحیح کام کرے تو اس کی مدد کرے اور جب کسی حاکم و امیر کے لیے کوئی برائی مقدر ہوتی ہے تو برے آدمیوں کو اس کے وزراء اور ماتحت بنادیا جاتا ہے۔ (الحدیث) ان روایات اور آیت مذکورہ کی متذکرہ تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو جو تکالیف اور مصائب اپنے حکام کے ہاتھوں پہنچتے ہیں وہ اوپر سے آنے والا عذاب ہے اور جو اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے ذریعہ پہنچتے ہیں وہ نیچے سے آنے والا عذاب ہے۔ یہ سب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتے ‘ بلکہ ایک قانونِ الٰہی کے تابع انسان کے اعمال کی سزا ہوتے ہیں ‘ حضرت سفیان ثوری رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو میں اس کا اثر اپنے نوکر …اور اپنی سواری کے گھوڑے اور باربرداری کے گدھے کے مزاج میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ یہ سب میری نافرمانی کرنے لگتے ہیں ‘ مولانا رومی ( رح) نے فرمایا ؎ خلق را باتو چنیں بدخو کنند تاترا ناچار رو آنسو کنند یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہارے بالادست حکام یا ماتحت ملازموں کے ذریعہ تمہارے خلاف مزاج تکلیف دہ معاملات کا ظاہری عذاب تم پر مسلط کر کے درحقیقت تمہارا رخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں تاکہ تم ہوشیار ہوجاؤ اور اپنے اعمال کو درست کر کے آخرت کے عذاب اکبر سے بچ جاؤ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ( رض) کی تفسیر کے مطابق حکام کا ظلم و جور اوپر سے آنے والا عذاب ہے اور ماتحت ملازموں کی بےایمانی ‘ کام چوری ‘ غداری ‘ نیچے سے آنے والا عذاب ہے اور دونوں کا علاج ایک ہی ہے کہ سب اپنے اپنے اعمال کا جائز لیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور بےراہ روی سے باز آجائیں تو قدرت خود ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ یہ مصیبت رفع ہو ورنہ صرف مادی تدبیروں کے ذریعہ ان کی اصلاح کی امید اپنے نفس کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ‘ جس کا تجربہ ہر وقت ہو رہا ہے ؎ خویش را دیدیم و رسوائی خویش امتحانِ مامکن اے شاہ بیش اوپر اور نیچے کے عذاب کی جو مختلف تفسیریں آپ نے ابھی سنی ہیں درحقیقت ان میں کوئی اختلاف نہیں ‘ کیونکہ لفظ عَذَابًا جو اس آیت میں آیا ہے درحقیقت ان تمام تفسیروں پر حاوی ہے ‘ آسمان سے برسنے والے پتھر ‘ خون ‘ آگ اور پانی کا سیلاب اور بالادست حکام کا ظلم و جور یہ سب اوپر سے آنے والے عذاب میں داخل ہیں اور زمین شق ہو کر کسی قوم کا اس میں دھنس جانا یا پانی میں غرق ہوجاتا یا ماتحت ملازموں کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا ہوجانا یہ سب نیچے سے آنے والے عذاب ہیں۔ تیسری قسم عذاب کی جو اس آیت میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا یعنی تمہاری مختلف پارٹیاں بن کر آپس میں بھڑ جائیں اور باہم ایک دوسرے کے لیے عذاب بن جائیں۔ اس میں لفظ یَلْبِسَکُمْ لبس کے مادہ سے بنا ہے ‘ جس کے اصلی معنی چھپا لینے اور ڈھانپ لینے کے ہیں ‘ اسی معنی سے لباس ان کپڑوں کو کہا جاتا ہے جو انسان کے بدن کو ڈھانپ لے اور اسی وجہ سے التباس بمعنی شبہ و اشتباہ استعمال ہوتا ہے کہ جہاں کسی کلام کی مراد مستور ہو صاف اور کھلی ہوئی نہ ہو۔ اور لفظ شِیَعَ ‘ شِیْعَۃٌکی جمع ہے ‘ جس کے معنی ہیں کسی کا پیرو اور تابع ‘ قرآن مجید میں ہے وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْم ” یعنی نوح (علیہ السلام) کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں ابراہیم۔ “ اسی لیے عرف و محاورہ میں لفظ شیعہ ایسی جماعت کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی خاص غرض کے لیے جمع ہوں اور اس غرض میں ایک دوسرے کے معاون ہوں ‘ جس کا بامحاورہ ترجمہ آج کل کی زبان میں فرقہ یا پارٹی ہے۔ اسی لیے آیت کا ترجمہ یہ ہوگا کہ عذاب کی ایک قسم یہ ہے کہ قوم مختلف پارٹیوں میں بٹ کر آپس میں بھڑ جائے ‘ اسی لیے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا : لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ” یعنی تم میرے بعد پھر کافروں جیسے نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو “۔ (اخرج ابن ابی حاتم عن زید بن اسلم) مظہری۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ( رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے ‘ ہمارا گزرمسجد بنی معاویہ پر ہوا تو رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز پڑھی ہم نے بھی دو رکعت ادا کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ دعا میں مشغول ہوگئے اور بہت دیر تک دعا کرتے رہے ‘ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ ایک یہ کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کیا جائے ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ دوسری یہ کہ میری امت کو قحط اور بھوک کے ذریعہ ہلاک نہ کیا جائے یہ بھی قبول فرما لی۔ تیسری دعا یہ کی کہ میری امت آپس کے جنگ و جدل سے تباہ نہ ہو ‘ مجھے اس دعا سے روک دیا گیا۔ (مظہری بحوالہ بغوی) اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر ( رض) سے منقول ہے ‘ جس میں تین دعائوں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ میری امت پر کسی دشمن کو مسلط نہ فرمانا جو سب کو تباہ و برباد کر دے یہ دعا قبول ہوئی اور آپس میں نہ بھڑ جائیں اس دعا کو منع کردیا گیا۔ ان روایات سے ثابت ہوا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر اس قسم کے عذاب تو نہ آئیں گے جیسے پچھلی امتوں پر آسمان یا زمین سے آئے جس سے ان کی پوری قوم تباہ و برباد ہوگئی۔ لیکن ایک عذاب دنیا میں اس امت پر بھی آتا رہے گا وہ عذاب آپس کی جنگ و جدل اور فرقوں اور پارٹیوں کا باہم تصادم ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے امت کو فرقوں اور پارٹیوں میں منقسم ہو کر باہمی آویزش اور جنگ و جدل سے منع کرنے میں انتہائی تاکید سے کام لیا ہے اور ہر موقع پر اس سے ڈرایا ہے کہ تم پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس دنیا میں اگر آئے گا تو آپس ہی کی جنگ و جدل کے ذریعہ آئے گا۔ سورة ہود کی ایک آیت میں یہ مضمون اور بھی زیاد وضاحت سے آیا ہے : وَلَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ (ھود) (یعنی لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف ہی کرتے رہیں گے بجز ان لوگوں کے جن پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی) امتِ اسلامیہ میں اختلاف اس سے واضح ہوا کہ جو لوگ آپس میں (بلا وجہ شرعی) اختلاف کرتے ہیں وہ رحمت خداوندی سے محروم یا بعید ہیں۔ ایک آیت میں ارشاد ہوا : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا دوسری آیت میں ارشاد ہے : وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا ان تمام آیات آیات کا حاصل یہ ہے کہ اختلاف بڑی منحوس اور مذموم چیز ہے۔ آج دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے مسلمانوں کی پستی اور بربادی کے اسباب پر غور کیا جائے تو اکثر مصائب کا سبب یہی آپس کا اختلاف نظر آئے گا۔ ہماری بداعمالیوں کے نتیجہ میں یہ عذاب ہم پر مسلط ہوگیا کہ وہ قوم جس کا مرکز اتحاد ایک کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تھا اس کلمہ کو ماننے والا زمین کے کسی خطہ میں ہو ‘ کسی زبان کا بولنے والا ہو ‘ کسی رنگ کا ہو ‘ کسی نسل و نسب سے متعلق ہو سب بھائی بھائی تھے ‘ کوہ و دریا کا تفاوت ان کی راہ میں رکاوٹ نہ تھا ‘ ان کی قومی وحدت صرف اس کلمہ سے وابستہ تھی۔ عربی ‘ مصری ‘ شامی ‘ ترکی ‘ ہندی ‘ چینی کی تقسی میں صرف شناخت اور تعارف کے لیے تھیں اور کچھ نہیں۔ بقول اقبال مرحوم ؎ درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر اس کا نہ دلی نہ صفاہان نہ سمرقند آج دوسری قوموں کی دسیسہ کاریوں اور مسلسل کوششوں نے پھر ان کو نسلی لسانی وطنی قومیتوں میں بانٹ دیا اور پھر ان میں سے ہر ایک قوم و جماعت اپنے اندر بھی تشتت اور انتشار کا شکار ہو کر مختلف پارٹیوں میں بٹ گئی۔ وہ قوم جس کا شعار غیروں سے بھی عفو و درگزر اور ایثار تھا اور جھگڑے سے بچنے کے لیے اپنے بڑے سے بڑے حق کو چھوڑ دیتی تھی ‘ آج اس کے بہت سے افراد ذرا ذرا سی حقیر و ذلیل خواہشات کے پیچھے بڑے سے بڑے تعلق کو قربان کردیتے ہیں۔ یہی وہ اغراض و اہواء کا اختلاف ہے جو قوم و ملت کے لیے منحوس اور اس دنیا میں نقد عذاب ہے۔ البتہ اس میں وہ اختلاف رائے داخل نہیں جو قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اصولِ اجتہاد کے ماتحت فروعی مسائل میں فقہاء امت کے اندر اور قرن اول سے صحابہ وتابعین میں ہوتا چلا آیا ہے ‘ جن میں فریقین کی حجت قرآن و سنت اور اجماع سے ہے ‘ اور ہر ایک کی نیت قرآن و سنت کے احکام کی تعمیل ہے مگر قرآن و سنت کی مجمل یا مبہم الفاظ کی تعبیر اور ان سے جزوی ‘ فروعی مسائل کے استخراج میں اجتہاد اور رائے کا اختلاف ہے۔ ایسے ہی اختلاف کو ایک حدیث میں رحمت فرمایا گیا ہے۔ جامع صغیر میں بحوالہ نصر مقدسی و بیہقی و امام الحرمین یہ روایت نقل کی ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃ ” میری امت کا اختلاف رحمت ہے “۔ امت محمدیہ ﷺ کی خصوصیت اس لیے اختیار فرمائی گئی کہ اس امت کے علماء حق اور فقہاء متقین میں جو اختلاف ہوگا وہ ہمیشہ اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہوگا اور صدق نیت اور للہیت سے ہوگا کوئی نفسانی غرض جاہ ومال کی ان کے اختلاف کی محرک نہ ہوگی۔ اس لیے وہ کسی جنگ و جدل کا سبب بھی نہ بنے گا بلکہ علامہ عبدالرئوف منادی شارح جامع صغیر کی تحقیق کے مطابق فقہاء امت کے مختلف مسالک کا وہ درجہ ہوگا جو زمانہ سابق میں انبیاء (علیہم السلام) کی مختلف شرائع کا تھا کہ مختلف ہونے کے باوجود سب کی سب اللہ ہی کے احکام تھے۔ اسی طرح مجتہدین امت کے مختلف مسلک اصول قرآن و سنت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے سب کے سب احکامِ خدا اور رسول ﷺ ہی کہلائیں گے۔ اس اجتہادی اختلاف کی مثال محسوسات میں ایسی ہے جیسے شہر کی بڑی سڑکوں کو چلنے والوں کی آسانی کے لیے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ایک حصہ پر بسیں چلتی ہیں دوسرے پر دوسری گاڑیاں یا ٹرام ‘ اسی طرح سائیکل سواروں اور پیادہ چلنے والوں کے لیے روڈ کا علیحدہ ایک حصہ ہوتا ہے ایک روڈ کے کئی حصوں میں یہ تقسیم بھی اگرچہ ظاہری طور پر ایک اختلاف کی صورت ہے ‘ مگر چونکہ سب کا رخ ایک ہی سمت ہے اور ہر ایک پر چلنے والا ایک ہی منزل مقصود پر پہنچے گا اس لیے راستوں کا یہ اختلاف بجائے مضر ہونے کے مفید اور چلنے والوں کے لیے وسعت و رحمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ مجتہدین اور فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی کا مسلک باطل نہیں اور جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں ان کو دوسروں کے نزدیک گنہگار کہنا جائز نہیں۔ آئمہ مجتہدین اور فقہاء امت کے مذاہب کے اختلاف کا حاصل اس سے زیادہ نہیں کہ ایک مجتہدنے جو مسلک اختیار کیا ہے وہ اس کے نزدیک راجح ہے مگر اس کے مقابل دوسرے مجتہد کے مسلک کو بھی وہ باطل نہیں کہتے بلکہ ایک دوسرے کا پورا احترام کرتے ہیں۔ فقہاء صحابہ وتابعین اور آئمہ اربعہ کے بیشمار حالات و واقعات اس پر شاہد ہیں کہ فقہی مسلک بہت سے مسائل میں مختلف ہونے اور علمی بحثیں جاری رہنے کے باوجود ایک دوسرے کا مکمل اعتقاد و احترام کرتے تھے۔ جنگ و جدل اور خصومت و عداوت کا وہاں کوئی احتمال ہی نہ تھا۔ مذاہب فقہاء کے متبعین اور مقلدین میں بھی جہاں تک صحیح علم و دیانت رہے ان کے بھی باہمی معاملات ایسے ہی رہے۔ بہت سے لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں وہ مذاہب فقہاء اور علمائِ حق کے فتو وں میں اختلاف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ علماء میں اختلاف ہے تو ہم کدھر جائیں ‘ حالانکہ بات بالکل صاف ہے کہ جس طرح کسی بیمار کے معاملہ میں ڈاکٹروں طبیبوں کا اختلاف رائے ہوتا ہے تو ہر شخص یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سے فنی اعتبار سے زیادہ ماہر اور تجربہ کار کون ہے ‘ بس اس کا علاج کرتے ہیں ‘ دوسرے ڈاکٹروں کو برا نہیں کہتے۔ مقدمہ کے وکیلوں میں اختلاف ہوجاتا ہے ‘ تو جس وکیل کو زیادہ قابل اور تجربہ کار جانتے ہیں اس کے کہنے پر عمل کرتے ہیں ‘ دوسروں کی بدگوئی کرتے نہیں پھرتے۔ یہی اصل یہاں ہونا چاہیے جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہوجائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کا اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں۔ حافظ ابن قیم ( رح) نے اعلام الموقعین میں نقل کیا ہے کہ ماہر مفتی کا انتخاب اور در صورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو یہ کام ہر صاحب معاملہ مسلمان کے ذمہ خود لازم ہے ‘ اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتو وں میں کسی فتوے کو ترجیح دے لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے۔ مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے۔ ایسا عمل کرنے کے بعد اللہ کے نزدیک وہ بالکل بری ہے۔ اگر حقیقۃًکوئی غلطی فتویٰ دینے والے سے ہو بھی گئی تو اس کا وہی ذمہ دار ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نہ ہر اختلاف مطلقاً مذموم اور نہ ہر اتفاق مطلقاً محمود و مطلوب ہے اگر چور ‘ ڈاکو ‘ باغی ایک جماعت بنا کر باہم متفق ہوجائیں تو کون نہیں جانتا کہ ان کا یہ اتفاق مذموم اور قوم کے لیے مہلک ہے اور اس کے خلاف جو سعی و عمل عوام یا پولیس وغیرہ کی طرف سے اس جماعت کی مخالفت میں ہوتا ہے وہ ہر عقلمند کی نظر میں اختلافِ محمود و مفید ہے۔ معلوم ہوا کہ خرابی اختلاف رائے میں نہیں اور نہ کسی ایک رائے پر عمل کرنے میں ہے بلکہ ساری خرابیاں دوسروں کے متعلق بدگمانی اور بدزبانی سے پیش آتی ہیں جو علم و دیانت کی کمی اور اغراض و اہواء کی زیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور جب کسی قوم یا جماعت میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے تو ان کے لیے یہ اختلافِ رحمت بھی اختلافِ عذاب کی صورت میں منتقل ہوجاتا ہے اور مسلمان پارٹیاں بن کر ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل اور بعض اوقات قتل و قتال تک میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف لعن طعن اور دل آزار کلمات کو تو مذہب کی حمایت سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ مذہب کا اس غلو اور زیادتی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ وہی جدال ہے جس سے رسول کریم ﷺ نے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ صحیح احادیث میں اس کو قوموں کی گمراہی کا سبب قرار دیا ہے۔ (ترمذی ‘ ابن ماجہ)
Top