Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 195
اَلَهُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ
اَلَهُمْ : کیا ان کے اَرْجُلٌ : پاؤں (جمع) يَّمْشُوْنَ : وہ چلتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ : یا لَهُمْ : ان کے اَيْدٍ : ہاتھ يَّبْطِشُوْنَ : وہ پکڑتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ : یا لَهُمْ : ان کی اَعْيُنٌ : آنکھیں يُّبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ لَهُمْ : یا ان کے اٰذَانٌ : کان ہیں يَّسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں بِهَا : ان سے قُلِ : کہ دیں ادْعُوْا : پکارو شُرَكَآءَكُمْ : اپنے شریک ثُمَّ : پھر كِيْدُوْنِ : مجھ پر داؤ چلو فَلَا تُنْظِرُوْنِ : پس نہ دو مجھے مہلت
کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں ؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں ؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ کہہ دو ! تم اپنے شریکوں کو بلائو پھر میرے خلاف چالیں چل کر دیکھو اور مجھے مہلت نہ دو
ارشاد فرمایا : اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَآز اَمْ لَھُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِھَآز اَمْ لَھُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِھَآ ز اَمْ لَھُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَآط قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنِ فَلاَ تُنْظِرُوْنَ اِنَّ وَلِیِّیَ اللّٰہُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ ز صلے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف : 195، 196) کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں ؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں ؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ کہہ دو ! تم اپنے شریکوں کو بلائو پھر میرے خلاف چالیں چل کر دیکھو اور مجھے مہلت نہ دو میرا کارساز وہ اللہ ہے جس نے کتاب اتاری ہے اور وہ نیکوکاروں کی کارسازی فرماتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں تنقید کا نشتر تیز ہوگیا ہے مشرکین کی غیرت کو جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف تو تم یہ کہتے ہو کہ ہم جن کی پوجا کرتے اور جن سے مدد طلب کرتے ہیں وہ شخصیتیں بہت بڑی قوتوں کی مالک ہیں اور ان کی اللہ تک رسائی ہے وہ جو چاہیں کرسکتی ہیں لیکن تمہارا معاملہ ان کے ساتھ یہ ہے کہ تم نے ان کے نام پر پتھر کے بت تراش لیے جن کی بےبسی خود تمہارے سامنے ہے ان کی بےبسی کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ تم ایک طرف اپنا تصور کرو اور ایک طرف اپنے معبودوں کا۔ عابد ہمیشہ کمزور اور بےبس ہوتا ہے اور معبود قدرتوں کا مالک۔ لیکن جن معبودوں کے تم نے بت یا مجسمے تراش رکھے ہیں ذرا غور کرو تم نے ان کے پائوں بنائے ہیں، معمولی جانور کا بچہ بھی اپنے پائوں سے چلتا ہے لیکن یہ تمہارے معبود پائوں سے چلنے کے قابل نہیں۔ تم نے ان کے ایسے ہاتھ بنائے ہیں جن میں پکڑنے کی طاقت نہیں، وہ تمہیں تو کیا تھا میں گے تم انھیں اٹھاکر کبھی ادھر کبھی ادھر رکھتے ہو، پھر ان کی آنکھیں ایسی ہیں جن میں دیکھنے کی صلاحیت نہیں حالانکہ تم اور تم جیسے اور لوگ بھی دیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں ایسے ہی تم نے ان کے کان بنا رکھے ہیں جن سے وہ سن نہیں سکتے جبکہ معمولی سے معمولی شخص بھی قوت سماعت سے گراں بار ہے یعنی جو نعمتیں تمام انسانوں حتی کہ حیوانوں تک کو میسر ہیں یہ تمہاری بڑی قوتوں والوں کے قالب اور ان کے مجسمے وہ ان قوتوں سے بھی محروم ہیں۔ اس سے بڑا فکری تضاد اور عقل کا فساد اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ جو قوتیں عقل تو بہت بڑی بات ہے معمولی احساس سے تہی دامن ہیں تم انھیں اپنا معبود بنا رہے ہو۔ یہ ایک ایسی تنقید ہے جسے سن کر ہر عقیدت مند برہمی کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کرسکتا یا تو وہ کہنے والے سے الجھ پڑے گا اور یا پھر صورتحال سے نکلنے کی کوشش کرے گا ایک باغیرت آدمی کے لیے ایسی صورت حال سے تو مرجانا بہتر ہوتا ہے۔ لیکن مشرکینِ مکہ کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ جب وہ اس طرح کی جارحانہ تنقید کا جواب نہیں دے سکتے تو ایک طرف تو وہ مخالفت میں شدت پیدا کردیتے ہیں اور دوسری طرف وہ داعی حق کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ خوف زدہ ہو کر انھیں آئینہ دکھانے سے رک جائے۔ یہاں بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ایسا ہی کیا آنحضرت ﷺ کو دھمکی دی جانے لگی کہ اگر تم اس تنقید سے نہ رکے اور تم نے ہمارے بتوں کی مذمت کرنا بند نہ کی تو ہم تمہیں تنبیہ کرتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مارتم پر پڑے گی، ان کا غضب تم پر بھڑکے گا اور تم بھسم ہو کر رہ جاؤ گے، تمہارا سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ چناچہ اسی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ تم سے دلائل کا جواب اگر بن نہیں پارہا تو تم مجھے نقصان پہنچانے کی جو تدبیر کرسکتے ہو کر گزرو مجھے ہرگز مہلت نہ دو کہ میں تمہاری اس تدبیر اور اس چال کا کوئی توڑ سوچ سکوں لیکن مجھے یقین ہے کہ تمہارے عقائد چونکہ سراسر باطل ہیں تم نے سراب کو پانی سمجھ رکھا ہے تم نے ان سے امید وفا باندھ رکھی ہے جو جانتے نہیں کہ وفا کیا ہے، تم نے ان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں جن کی حقیقت سوائے پتھروں کے اور کچھ نہیں، تم نے محض مفروضوں کے سہارے حقیقتوں کا خون کرکے رکھ دیا ہے، تم نے اس مفروضے کی بنیاد پر پتھروں کے بت تراشے ہیں کہ ان میں تمہاری دیویوں اور تمہارے دیوتائوں کی روحیں حلول کر جاتی ہیں اس لیے تم ان پتھروں کے واسطے سے ان کی پوجا کرتے اور ان سے مدد مانگتے ہو۔ اس بات کی حقیقت سوائے مفروضے کے اور کچھ نہیں، اس لیے کہ پتھر میں کسی کی قوت منتقل نہیں ہوتی اور پھر جن قوتوں کے سہارے تم نے شرک کا کاروبار رچا رکھا ہے، وہ بجائے خودا پنی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ قوت کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ شیطانی قوتیں بعض دفعہ اپنے ماننے والوں کو شرک میں مستحکم کرنے کے لیے تھوڑا بہت سہارا تو دیتی ہیں لیکن یہ سہارے صرف گمراہی کے سہارے ہوتے ہیں۔ جب حق و باطل کا معرکہ گرم ہوتا ہے اور اللہ کے نبی سے معاملہ پڑتا ہے یا نبیوں کے سچے پیروکاروں سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر یہ شیطانی یا جناتی قوتیں بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی مدد نہیں دے سکتیں۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں تمہارے کاہنوں نے بہت سارے غلط سہارے دے رکھے ہیں لیکن اب تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میرا کارساز اور میرا مددگار اور میرا حامی و ناصر اللہ ہے (یہاں ولی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی حامی وناصر اور مرجع و کارساز کے ہیں) اور جس کا ولی اور حامی وناصر اللہ ہو اس کے مقابلے میں آنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی اور اللہ اگر نہ چاہے تو کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چناچہ جنگ بدر میں قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ شیطان نے مشرکین مکہ کو میدانِ بدر میں لانے تک اپنا کردارادا کیا اور وہاں بھی ان کا حوصلہ بڑھاتارہا لیکن جب اس نے فرشتوں کو دیکھا اور اللہ کی مدداترتے ہوئے دیکھی تو ان سے ہاتھ چھڑاکر بھاگا اور کہنے لگا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ رہے ہو اس لیے میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں جانتا ہوں کہ اس کا عذاب بڑا سخت عذاب ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطانی قوتیں بعض دفعہ اپنے ماننے والوں کو مدد تو دیتی ہیں لیکن جس کا ولی اللہ ہو اور وہ اس کے سہارے کفر و باطل کی قوتوں کے مقابلے میں تن کر کھڑا ہوجائے تو پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ تمام شیطانی قوتیں چاہتے ہوئے بھی نہ کافروں کا ساتھ دیتی ہیں اور نہ اہل حق کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں۔ مزید فرمایا کہ میرا کارساز میرا ولی وہ اللہ ہے جس نے نہایت اہتمام سے مجھ پر کتاب اتاری اور اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے کہ تم اپنے بتوں کو اگر راہنمائی کے لیے پکارو تو وہ تمہیں جواب تو کیا دیں گے وہ تمہارے ساتھ چلنے کو بھی تیار نہیں ہوتے حتی کہ وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ تمہاری پیروی کرسکیں لیکن جس اللہ کی بندگی میں کرتا ہوں اس نے میری راہنمائی کے لیے جہاں مجھے حواس اور جوہرِ عقل سے نوازا ہے وہیں مجھ پر کتاب بھی اتاری ہے اور دوسرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ تم نے جو میری دشمنی پر کمر باندھ رکھی ہے اور اس دشمنی میں تم ہر تعلق کو بھول چکے ہو اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں اللہ کی طرف سے ایک کتاب لے کر آیا ہوں جس میں زندگی گزارنے کا طریقہ، زندگی کے لیے شریعت اور زندگی کا ایک قانون دیا گیا ہے تمہیں دشمنی اصل میں اللہ کی اس راہنمائی سے ہے تم اپنی خواہشوں سے بھرپور زندگی کو چھوڑ کر اللہ کی بندگی کی طرف نہیں آنا چاہتے، اس لیے تم اس کا راستہ ہر طرح کی مخالفت سے روک دینا چاہتے ہو۔ میں چونکہ اللہ کے اسی دین کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں اس لیے تم اس دین کی وجہ سے میرے دشمن ہوگئے ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پروردگار کے دین کو میں شب وروز پیش کرنے میں لگا ہوا ہوں اور جس کی وجہ سے تم نے مجھے زندگی کا ہر دکھ پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا وہ تمہارے مقابلے میں میری مدد نہ کرے وہ یقینا میری مدد کرے گا اس لیے مجھے تمہاری مخالفتوں کی کوئی پرواہ نہیں نہ تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو اور نہ یہ تمہارے دیوی، دیوتا میرا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ یہ بات صرف میرے ساتھ مخصوص نہیں کہ میں چونکہ اللہ کے دین کی سربلندی، اس کی تبلیغ و دعوت اور اس کے غلبہ کے لیے کام کررہا ہوں اس لیے وہ میری مدد کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کا صالح بندہ اپنی زندگی اسی مشن کے لیے گزارے گا جس کے لیے میں گزاررہا ہوں اور وہ محض اللہ کے لیے دشمنوں کی دشمنیاں انگیخت کرے گا اور اپنی شخصیت کی نفی کرتے ہوئے اللہ کے دین میں اپنے آپ کو گم کردے گا اور اس کی زندگی کا مقصدا للہ کے دین کی سرافرازی ٹھہرے گا تو اللہ یقینا اس کی مدد کرے گا، اس کا حامی وناصر ہوگا اور ہر طرح سے اس کی کارسازی فرمائے گا یہ اللہ کا ایک ایسا اٹل قانون ہے جسے اس نے قرآن پاک میں جابجا بیان فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کروگے تو اللہ تمہیں سربلند کرے گا تم اللہ کے دین کی مدد کروگے اللہ تمہاری مدد کرے گا اور اگر م اس کے دین کی سربلندی اور اس کے نفوذ سے ہاتھ کھینچ لو گے اور اپنا تعلق اس سے توڑ لوگے تو اللہ تمہیں مٹادے گا اور تمہاری جگہ ایک ایسی قوم کو لائے گا جو تم جیسی نہیں ہوگی یہ اس کا قانون ہے جو باربار ہمیں قرآن پاک میں گونجتا ہواسنائی دیتا ہے اور یہی بات آنحضرت ﷺ نے اپنے ارشادات میں باربار دہرائی تاریخ بھی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اللہ کو اپنا کارساز اور ولی سمجھ کر اس کے راستے میں سب کچھ جھونک دیا تو اللہ نے ہمیشہ ان کی مدد فرمائی۔ ظفر علی خاں نے ٹھیک کہا تھا ؎ یثرب سے اب بھی گونجتی ہے یہ صدا سنو ! وہ جو خدا کے ہوگئے ان کا خدا ہوگیا ایک طرف مشرکین کی بےبسی اور بدنصیبی اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کی اللہ کی جانب سے نصرت و حمایت کے ذکر پر بات ختم ہوجانی چاہیے کیونکہ شرک کی بےبضاعتی پوری طرح واضح ہوگئی اور دوسری طرف مسلمانوں پر اللہ کے احسانات کے فیصلے کا اعلان ہوگیا اس سے بڑی اتمامِ حجت کوئی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگلی دو آیتوں میں مشرکین سے ایک دفعہ پھر اسلوب بدل کر آخری بات کہی جارہی ہے۔
Top