Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ
: اور یاد کرو
رَّبَّكَ
: اپنا رب
فِيْ
: میں
نَفْسِكَ
: اپنا دل
تَضَرُّعًا
: عاجزی سے
وَّخِيْفَةً
: اور ڈرتے ہوئے
وَّدُوْنَ
: اور بغیر
الْجَهْرِ
: بلند
مِنَ
: سے
الْقَوْلِ
: آواز
بِالْغُدُوِّ
: صبح
وَالْاٰصَالِ
: اور شام
وَلَا تَكُنْ
: اور نہ ہو
مِّنَ
: سے
الْغٰفِلِيْنَ
: بیخبر (جمع)
یاد کرو ! اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح اور شام اور غافلوں میں سے نہ بنو
اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو ایک اور پہلو سے آگے بڑھایا جارہا ہے اور ایک وارننگ بھی دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ ع (الاعراف : 205، 206) یاد کرو اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح اور شام اور غافلوں میں سے نہ بنو بیشک جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی بندگی کرنے سے تکبر نہیں کرتے وہ اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ گزشتہ آیت کریمہ میں جو نصیحتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں ان کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ دنیا کے بگاڑ کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات سے غافل ہوجاتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اس غفلت سے وہ نتائج پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں جس سے ظلم کا دروازہ کھلتا ہے اور حقوق و فرائض کی تباہی وجود میں آتی ہے اور انسان بڑھتے بڑھتے گمراہی کی تمام منزلوں سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے انسان کی اصلاح کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ سے اس کی برگشتگی کو ختم کرکے اللہ سے اس کا تعلق جوڑ دیا جائے۔ اس کا راستہ صرف یہ ہے کہ انسان قرآن کریم سے اپنا تعلق پیدا کرے، اسے غور سے سنے سمجھے اور اس کے سامنے ہر طرح سے سپرانداز ہوجائے اور غفلت سے نکلنے کے لیے اللہ کی یاد کو اپنا وظیفہ بنالے۔ دنیا کا ہر کام کرنے سے پہلے وہ اپنے ذہن میں اللہ کا استحضار پیدا کرے۔ ان دونوں باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان واقعی انسان بن جائے گا اور اس کا سفر اس کی حقیقی منزل کی طرف شروع ہوجائے گا۔ اسی مرکزی مضمون کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جو لوگ انسانی اصلاح کے کٹھن فریضہ کو انجام دینے کے لیے اٹھتے ہیں انھیں اپنے مخالفین کی جانب سے جن جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے ان پر قابو پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں اور اللہ کی پناہ اس وقت تک میسر نہیں آتی جب تک پناہ طلب کرنے والا اس کی یاد کو دل میں بسا نہیں لیتا۔ ان دونوں حوالوں سے پیش نظر آیات کریمہ میں گفتگو سمیٹتے ہوئے اور مضمون کو لپیٹتے ہوئے اللہ کو یاد کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب سکھائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ وارننگ دی جارہی ہے کہ دیکھنا اس ہدایت سے صرف نظر کرکے کہیں غافلوں میں سے نہ ہوجانا کیونکہ تمام انسانی امراض کا حقیقی سبب صرف یہی ہے۔ آیات کی تشریح سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان دونوں میں براہ راست نبی کریم ﷺ سے خطاب کیا جارہا ہے اور یہ بات باربار دہرائی جاچکی ہے کہ اس خطاب سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ یہ ہدایات صرف آنحضرت ﷺ کے لیے ہیں بلکہ حقیقت میں یہ تمام ہدایات امت کے لیے ہیں آنحضرت ﷺ سے تو خطاب اس لیے ہے کہ امت کو ان ہدایات پر عمل کرنے کے لیے ایک اسوہ اور نمونہ کی ضرورت ہے، وہ جب تک سامنے نہیں ہوگا تو ایسی ہدایات جن کا تعلق سراسر قلبی، ذہنی اور روحانی کیفیت سے ہے، الفاظ وحروف سے چاہے وہ اللہ ہی کے کلام کی صورت میں ہو صحیح ادراک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو پہلے نمونہ کے طور پر امت کے سامنے اٹھایا گیا اور آپ کی گرامی قدر شخصیت کو ایسی تمام ہدایات اور مکارمِ اخلاق کی تصویر بنا کر لوگوں کے سامنے مینارہ نور کے طور کھڑا کردیا گیا تاکہ لوگ اس کی روشنی میں ان ہدایات پر عمل کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ پہلی آیت کریمہ میں اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے سلسلے میں چند آداب بیان فرمائے گئے ہیں اور اس کے بعد ذکر کے اوقات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور آیت کے آخر میں تنبیہ کی گئی ہے کہ دیکھنا غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔ بجائے اس کے کہ ہم ان آداب کا خود تذکرہ کریں معارف القرآن سے استفادہ کرتے ہوئے اسے یہاں نقل کرتے ہیں۔ پہلا ادب ذکر کے آہستہ یا بلند آواز سے کرنے سے متعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں دو طرح کا اختیار دیا ہے۔ ذکرِ خفی اور ذکر جہر۔ ذکرِ خفی کے بارے میں فرمایا : ( واذکر ربک فی نفسک ” اپنے رب کو یاد کیا کرو اپنے دل میں) اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بغیر زبان کی حرکت کے صرف دل میں دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا رکھے جس کو ذکر قلبی یا تفکر کہا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان سے بھی آہستہ آواز میں اسمائے الہٰیہ کے حروف ادا کرے سب سے افضل اور بہتر صورت یہی ہے کہ جو ذکر کررہا ہے اس کے مفہوم کو سمجھ کر دل میں بھی اس کا پورا استحضار اور دھیان ہو اور زبان سے بھی ادا کرے کیونکہ اس صورت میں قلب کے ساتھ زبان بھی ذکر میں شریک ہوجاتی ہے اور اگر صرف دل ہی دل میں دھیان اور تفکر میں مشغول رہے، زبان سے کوئی حرف ادانہ کرے، وہ بھی بڑا ثواب ہے اور سب سے کم درجہ اس کا ہے کہ صرف زبان پر ذکر ہو اور قلب اس سے خالی اور غافل ہو۔ ایسے ہی ذکر کو مولانا رومی نے فرمایا ہے برزبان تسبیح ودر دل گائوخر ایں چنیں تسبیح کَے دارد اثر مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ قلب غافل کے ذکر کرنے سے ذکر کے آثار و برکات کامل حاصل نہیں ہوتے۔ اس کا انکار نہیں کہ یہ زبانی ذکر بھی ثواب اور فائدہ سے خالی نہیں کیونکہ بعض اوقات یہ زبانی ذکر ہی قلبی ذکر کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے زبان سے کہتے کہتے قلب بھی متأثر ہونے لگتا ہے اور کم از کم ایک عضو تو ذکر میں مشغول ہے کہ وہ بھی ثواب سے خالی نہیں۔ اس لیے جن لوگوں کو ذکر و تسبیح میں دل جمعی اور دھیان اور استحضار نہیں ہوتا وہ بھی ایسے ذکر کو بےفائدہ سمجھ کر چھوڑیں نہیں جاری رکھیں اور استحضار کی کوشش کرتے رہیں۔ دوسرا طریقہ ذکر کا اسی آیت میں یہ بتلایا (ودون الجھرمن القول ” زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ “ ) یعنی ذکر اللہ میں مشغول ہونے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ آواز سے ذکر کرے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ بہت زور سے چیخ کر نہ کرے متوسط آواز کے ساتھ کرے جس میں ادب و احترام ملحوظ رہے، بہت زور سے ذکر و تلاوت کرنا اس کی علامت ہوتی ہے کہ مخاطب کا ادب واحترام اس کے دل میں نہیں، جس ہستی کا ادب واحترام اور رعب انسان کے دل میں ہوتا ہے، اس کے سامنے طبعی طور پر انسان بہت بلند آواز سے نہیں بول نہیں سکتا۔ اس لیے عام ذکر اللہ ہو یا تلاوتِ قرآن جب آواز سے پڑھا جائے تو اس کی رعایت رکھنا چاہیے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوتِ قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ صرف ذکر قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفا کرکے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت ہو مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی واذکر ربک فی نفسک میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی، مگر اس طریق کے لیے ادب یہ ہے کہ آواز بھی زیادہ بلند نہ کرے، متوسط حد سے آگے نہ بڑھے، یہ طریقہ ارشاد قرآنی ودون الجھرمن القول میں تلقین فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت نے اس کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے۔ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا واتبغ بین ذلک سبیلا۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو حکم ہے کہ اپنی قرات میں نہ زیادہ جہر کیا کریں اور نہ بالکل اخفا بلکہ جہر اور اخفا کے درمیان کی کیفیت رکھا کریں۔ نماز میں قرأت قرآن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ( رض) اور فاروقِ اعظم ( رض) کو یہی ہدایت فرمائی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ آخر رات میں گھر سے نکلے حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول تھے مگر تلاوت آہستہ کر رہے تھے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب ( رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں۔ جب صبح کو یہ دونوں حضرات حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے صدیق اکبر ( رض) سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس گیا تو دیکھا کہ تم پست آواز سے تلاوت کررہے تھے۔ صدیق ( رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے جس ذات کو سنانا تھا اس نے سن لیا یہ کافی ہے۔ اسی طرح فاروقِ اعظم ( رض) سے فرمایا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے انھوں نے عرض کیا کہ قرأت میں جہر کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ نیند کا غلبہ نہ رہے اور شیطان اس کی آواز سے بھاگے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ صدیق اکبر ( رض) کو یہ ہدایت دی کہ ذرا کچھ آواز بلند کیا کریں اور فاروقِ اعظم ( رض) کو یہ کہ کچھ پست کیا کریں۔ (ابودائود) ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ ( رض) سے آنحضرت ﷺ کی تلاوت کے بارے میں بعض حضرات نے سوال کیا کہ جہراً کرتے تھے یا سراً ؟ انھوں نے فرمایا کہ کبھی جہراً کبھی سراً ۔ دونوں طرح تلاوت فرماتے تھے۔ رات کی نفل نماز میں اور خارج نماز تلاوت میں بعض افراد نے جہر پسند کیا بعض نے آہستہ کو۔ اسی لیے امام اعظم ابوحنیفہ ( رح) نے فرمایا کہ تلاوت کرنے والے کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہے تلاوت کرے۔ البتہ ! آواز سے تلاوت میں چند شرائط سب کے نزدیک ضروری ہیں۔ اول یہ کہ اس میں نام ونمود اور ریا کا اندیشہ نہ ہو۔ دوسرے اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کو حرج یا تکلیف نہ ہو۔ کسی دوسرے شخص کی نماز و تلاوت یا کام میں یا آرام میں خلل انداز نہ ہو اور جہاں نام ونمود اور ریا کا یا دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل کا اندیشہ ہو تو سب کے نزدیک آہستہ ہی پڑھنا افضل ہے۔ جو حکم تلاوتِ قرآن کا ہے وہی دوسرے اذکار و تسبیح کا ہے اور آہستہ اور بلند آوا ز سے دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ آواز اتنی بلند نہ ہو جو خشوع و خضوع اور ادب کے خلاف ہو نیز اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل نہ آتا ہو۔ اس کا فیصلہ کہ سراً اور جہراً سے افضل کیا ہے۔ اشخصاص اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہے۔ بعض لوگوں کے لیے جہر بہتر ہوتا ہے بعض کے لیے آہستہ نیز بعض اوقات جہربہتر ہوتا ہے بعض وقت سر۔ (تفسیر مظہری وروح البیان) دوسرا ادب تلاوت وذکر کا یہ ہے کہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ ذکر کیا جاوے جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ کی عظمت و جلال مستحضر ہو اور جو ذکر کررہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر ہو۔ تیسرا ادب اسی آیت میں لفظ خیفۃًسے یہ بتلایا گیا کہ ذکر و تلاوت کے وقت انسان پر ہیبت اور خوف کی کیفیت ہونا چاہیے۔ خوف اس کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور عظمت کا حق ادانھیں کرسکتے۔ ممکن ہے کہ ہم سے کوئی بےادبی ہوجائے نیز اپنے گناہوں کے استحضار سے عذاب الہٰی کا خوف نیز انجام اور خاتمہ کا خوف کہ معلوم نہیں کہ ہمارا خاتمہ کس حال پر ہونا ہے۔ بہرحال ذکر و تلاوت اس طرح کیا جائے جیسے کوئی ہیبت زدہ ڈرنے والا کیا کرتا ہے۔ یہی آداب دعا اسی سورة اعراف کے شروع میں بھی ایک آیت میں اس طرح آئے ہیں۔ ادعوا ربکم تضرعاوَّخفیۃًاس میں خیفۃ کے بجاے خفیۃ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی آہستہ آواز سے ذکر کرنے کے ہیں۔ گویا ذکر و تلاوت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آہستہ پست آواز سے کیا جائے لیکن اس آیت نے اس کے معنی بھی واضح کردیئے کہ اگرچہ آواز سے ذکر سے کرنا ممنوع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ کرے نیز اتنی بلند نہ کرے جس میں خشوع و خضوع، عاجزی اور تضرع کی کیفیت جاتی رہے۔ آخر آیت میں ذکر و تلاوت کے اوقات بتلائے کہ صبح وشام ہونا چاہیے اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کم از کم دن میں دو مرتبہ صبح وشام ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہیے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح وشام بول کر تمام لیل ونہار کے اوقات ہوں۔ جیسے مشرق مغرب بول کر سارا عالم مراد لیا جاتا ہے اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ ہرحال میں ذکر و تلاوت کا پابند رہے۔ حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت ہرحال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ آخر آیت میں فرمایا { ولا تکن من الغفلین } یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر غفلت والوں میں شامل نہ ہوجا نا کہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ دوسری آیت میں لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لیے مقربان بارگاہِ الہٰی کا ایک مخصوص حال بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا مقبول ہونا ہے جس میں سب فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور صالحینِ امت شامل ہیں اور تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھ کر ان عبادات میں قصور نہیں کرتے بلکہ اپنے کو عاجز اور محتاج سمجھ کر ہمیشہ اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دائمی عبادت اور یاد خدا کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اس کی علامت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک (جو لوگ تیرے رب کے پاس ہیں) سے اشارہ فرشتوں کی طرف ہے ان کی بابت فرمایا کہ وہ اللہ کی بندگی سے کسی وقت سرتابی نہیں کرتے۔ برابر اس کی تسبیح میں لگے رہتے اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہ آیت ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں برابر سر گرم رہنے والوں کے زمرہ کو بتاتی ہے کہ جو لوگ اللہ کو ہر وقت یادرکھتے ہیں گو وہ رہتے بستے زمین میں ہیں لیکن ان کا تعلق فرشتوں کی بزم قدس سے ہوجاتا ہے اس لیے کہ وہ جس طرح ہر وقت زمزمہ سنج تسبیح وتہلیل رہتے ہیں یہ بھی اسی طرح مصروف یاد الہٰی رہتے ہیں دوسرے طرف اس میں مشرکین پر تعریض بھی ہے کہ یہ تو فرشتوں ہی کی سفارش کے بل پر اکڑتے پھرتے ہیں، نہ خدا کو خاطر میں لاتے ہیں نہ رسول کو۔ لیکن خود فرشتوں کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی تسبیح اور سجود میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ اللہ کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ قرآن پاک میں ایسے چودہ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے۔ مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ( رح) سجدہ تلاوت کو واجب سمجھتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی ﷺ بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گرجاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا حتی کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر اوپر جاکر خطبہ شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے اس طرز عمل سے سجدہ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ویسے بھی اس آیت کریمہ میں آخر میں سجدہ کرنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی پر سورة کا اختتام ہوتا ہے۔ اس سے نفس سجدہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام ارکانِ نماز میں سجدہ کو خاص فضیلت حاصل ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ثوبان ( رض) سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جس سے میں جنت میں جاسکوں۔ حضرت ثوبان ( رض) خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا، پھر بھی خاموش رہے۔ پھر جب تیسری مرتبہ سوال کو دہرایا تو انھوں نے کہا کہ میں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا آپ نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ جب تم ایک سجدہ کرتے ہو تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔ یہ شخص کہتے ہیں حضرت ثوبان ( رض) کے بعد حضرت ابو الدرداء ( رض) سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے بھی یہی جواب دیا اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ( رض) منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بندہ سجدہ میں ہو۔ اس لیے تم سجدہ کی حالت میں خوب دعا کیا کرو کہ اس کے قبول ہونے کی بڑی امید ہے۔ یاد رہے کہ تنہا سجدہ کی کوئی عبادت معروف نہیں۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ ( رح) کے نزدیک کثرت سجود سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے نوافل پڑھا کریں۔ جتنی نفلیں زیادہ ہوں گی سجدے زیادہ ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص تنہا سجدہ ہی کرکے دعا کرلے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ سجدہ میں دعا کرنے کی ہدایت نفلی نمازوں کے لیے مخصوص ہے فرائض میں نہیں۔
Top