Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 205
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو رَّبَّكَ : اپنا رب فِيْ : میں نَفْسِكَ : اپنا دل تَضَرُّعًا : عاجزی سے وَّخِيْفَةً : اور ڈرتے ہوئے وَّدُوْنَ : اور بغیر الْجَهْرِ : بلند مِنَ : سے الْقَوْلِ : آواز بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام وَلَا تَكُنْ : اور نہ ہو مِّنَ : سے الْغٰفِلِيْنَ : بیخبر (جمع)
یاد کرو ! اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح اور شام اور غافلوں میں سے نہ بنو
اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کو ایک اور پہلو سے آگے بڑھایا جارہا ہے اور ایک وارننگ بھی دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیُسَبِّحُوْنَہٗ وَلَہٗ یَسْجُدُوْنَ ع (الاعراف : 205، 206) یاد کرو اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ اور ایسی آواز سے جو کہ پکار کر بولنے سے کم ہو صبح اور شام اور غافلوں میں سے نہ بنو بیشک جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی بندگی کرنے سے تکبر نہیں کرتے وہ اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ گزشتہ آیت کریمہ میں جو نصیحتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں ان کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ دنیا کے بگاڑ کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات سے غافل ہوجاتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں اس غفلت سے وہ نتائج پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں جس سے ظلم کا دروازہ کھلتا ہے اور حقوق و فرائض کی تباہی وجود میں آتی ہے اور انسان بڑھتے بڑھتے گمراہی کی تمام منزلوں سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے انسان کی اصلاح کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ سے اس کی برگشتگی کو ختم کرکے اللہ سے اس کا تعلق جوڑ دیا جائے۔ اس کا راستہ صرف یہ ہے کہ انسان قرآن کریم سے اپنا تعلق پیدا کرے، اسے غور سے سنے سمجھے اور اس کے سامنے ہر طرح سے سپرانداز ہوجائے اور غفلت سے نکلنے کے لیے اللہ کی یاد کو اپنا وظیفہ بنالے۔ دنیا کا ہر کام کرنے سے پہلے وہ اپنے ذہن میں اللہ کا استحضار پیدا کرے۔ ان دونوں باتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان واقعی انسان بن جائے گا اور اس کا سفر اس کی حقیقی منزل کی طرف شروع ہوجائے گا۔ اسی مرکزی مضمون کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ جو لوگ انسانی اصلاح کے کٹھن فریضہ کو انجام دینے کے لیے اٹھتے ہیں انھیں اپنے مخالفین کی جانب سے جن جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے ان پر قابو پانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں اور اللہ کی پناہ اس وقت تک میسر نہیں آتی جب تک پناہ طلب کرنے والا اس کی یاد کو دل میں بسا نہیں لیتا۔ ان دونوں حوالوں سے پیش نظر آیات کریمہ میں گفتگو سمیٹتے ہوئے اور مضمون کو لپیٹتے ہوئے اللہ کو یاد کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب سکھائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی یہ وارننگ دی جارہی ہے کہ دیکھنا اس ہدایت سے صرف نظر کرکے کہیں غافلوں میں سے نہ ہوجانا کیونکہ تمام انسانی امراض کا حقیقی سبب صرف یہی ہے۔ آیات کی تشریح سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان دونوں میں براہ راست نبی کریم ﷺ سے خطاب کیا جارہا ہے اور یہ بات باربار دہرائی جاچکی ہے کہ اس خطاب سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ یہ ہدایات صرف آنحضرت ﷺ کے لیے ہیں بلکہ حقیقت میں یہ تمام ہدایات امت کے لیے ہیں آنحضرت ﷺ سے تو خطاب اس لیے ہے کہ امت کو ان ہدایات پر عمل کرنے کے لیے ایک اسوہ اور نمونہ کی ضرورت ہے، وہ جب تک سامنے نہیں ہوگا تو ایسی ہدایات جن کا تعلق سراسر قلبی، ذہنی اور روحانی کیفیت سے ہے، الفاظ وحروف سے چاہے وہ اللہ ہی کے کلام کی صورت میں ہو صحیح ادراک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے آنحضرت ﷺ کو پہلے نمونہ کے طور پر امت کے سامنے اٹھایا گیا اور آپ کی گرامی قدر شخصیت کو ایسی تمام ہدایات اور مکارمِ اخلاق کی تصویر بنا کر لوگوں کے سامنے مینارہ نور کے طور کھڑا کردیا گیا تاکہ لوگ اس کی روشنی میں ان ہدایات پر عمل کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ پہلی آیت کریمہ میں اللہ کی یاد اور اس کے ذکر کے سلسلے میں چند آداب بیان فرمائے گئے ہیں اور اس کے بعد ذکر کے اوقات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور آیت کے آخر میں تنبیہ کی گئی ہے کہ دیکھنا غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔ بجائے اس کے کہ ہم ان آداب کا خود تذکرہ کریں معارف القرآن سے استفادہ کرتے ہوئے اسے یہاں نقل کرتے ہیں۔ پہلا ادب ذکر کے آہستہ یا بلند آواز سے کرنے سے متعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں دو طرح کا اختیار دیا ہے۔ ذکرِ خفی اور ذکر جہر۔ ذکرِ خفی کے بارے میں فرمایا : ( واذکر ربک فی نفسک ” اپنے رب کو یاد کیا کرو اپنے دل میں) اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بغیر زبان کی حرکت کے صرف دل میں دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا رکھے جس کو ذکر قلبی یا تفکر کہا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان سے بھی آہستہ آواز میں اسمائے الہٰیہ کے حروف ادا کرے سب سے افضل اور بہتر صورت یہی ہے کہ جو ذکر کررہا ہے اس کے مفہوم کو سمجھ کر دل میں بھی اس کا پورا استحضار اور دھیان ہو اور زبان سے بھی ادا کرے کیونکہ اس صورت میں قلب کے ساتھ زبان بھی ذکر میں شریک ہوجاتی ہے اور اگر صرف دل ہی دل میں دھیان اور تفکر میں مشغول رہے، زبان سے کوئی حرف ادانہ کرے، وہ بھی بڑا ثواب ہے اور سب سے کم درجہ اس کا ہے کہ صرف زبان پر ذکر ہو اور قلب اس سے خالی اور غافل ہو۔ ایسے ہی ذکر کو مولانا رومی نے فرمایا ہے برزبان تسبیح ودر دل گائوخر ایں چنیں تسبیح کَے دارد اثر مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ قلب غافل کے ذکر کرنے سے ذکر کے آثار و برکات کامل حاصل نہیں ہوتے۔ اس کا انکار نہیں کہ یہ زبانی ذکر بھی ثواب اور فائدہ سے خالی نہیں کیونکہ بعض اوقات یہ زبانی ذکر ہی قلبی ذکر کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے زبان سے کہتے کہتے قلب بھی متأثر ہونے لگتا ہے اور کم از کم ایک عضو تو ذکر میں مشغول ہے کہ وہ بھی ثواب سے خالی نہیں۔ اس لیے جن لوگوں کو ذکر و تسبیح میں دل جمعی اور دھیان اور استحضار نہیں ہوتا وہ بھی ایسے ذکر کو بےفائدہ سمجھ کر چھوڑیں نہیں جاری رکھیں اور استحضار کی کوشش کرتے رہیں۔ دوسرا طریقہ ذکر کا اسی آیت میں یہ بتلایا (ودون الجھرمن القول ” زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ “ ) یعنی ذکر اللہ میں مشغول ہونے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ آواز سے ذکر کرے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ بہت زور سے چیخ کر نہ کرے متوسط آواز کے ساتھ کرے جس میں ادب و احترام ملحوظ رہے، بہت زور سے ذکر و تلاوت کرنا اس کی علامت ہوتی ہے کہ مخاطب کا ادب واحترام اس کے دل میں نہیں، جس ہستی کا ادب واحترام اور رعب انسان کے دل میں ہوتا ہے، اس کے سامنے طبعی طور پر انسان بہت بلند آواز سے نہیں بول نہیں سکتا۔ اس لیے عام ذکر اللہ ہو یا تلاوتِ قرآن جب آواز سے پڑھا جائے تو اس کی رعایت رکھنا چاہیے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوتِ قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ صرف ذکر قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفا کرکے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت ہو مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی واذکر ربک فی نفسک میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی، مگر اس طریق کے لیے ادب یہ ہے کہ آواز بھی زیادہ بلند نہ کرے، متوسط حد سے آگے نہ بڑھے، یہ طریقہ ارشاد قرآنی ودون الجھرمن القول میں تلقین فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت نے اس کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے۔ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا واتبغ بین ذلک سبیلا۔ اس میں آنحضرت ﷺ کو حکم ہے کہ اپنی قرات میں نہ زیادہ جہر کیا کریں اور نہ بالکل اخفا بلکہ جہر اور اخفا کے درمیان کی کیفیت رکھا کریں۔ نماز میں قرأت قرآن کے متعلق آنحضرت ﷺ نے حضرت صدیق اکبر ( رض) اور فاروقِ اعظم ( رض) کو یہی ہدایت فرمائی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ آخر رات میں گھر سے نکلے حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول تھے مگر تلاوت آہستہ کر رہے تھے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب ( رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت بلند آواز سے تلاوت کررہے ہیں۔ جب صبح کو یہ دونوں حضرات حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے صدیق اکبر ( رض) سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس گیا تو دیکھا کہ تم پست آواز سے تلاوت کررہے تھے۔ صدیق ( رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ مجھے جس ذات کو سنانا تھا اس نے سن لیا یہ کافی ہے۔ اسی طرح فاروقِ اعظم ( رض) سے فرمایا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے انھوں نے عرض کیا کہ قرأت میں جہر کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ نیند کا غلبہ نہ رہے اور شیطان اس کی آواز سے بھاگے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ صدیق اکبر ( رض) کو یہ ہدایت دی کہ ذرا کچھ آواز بلند کیا کریں اور فاروقِ اعظم ( رض) کو یہ کہ کچھ پست کیا کریں۔ (ابودائود) ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ ( رض) سے آنحضرت ﷺ کی تلاوت کے بارے میں بعض حضرات نے سوال کیا کہ جہراً کرتے تھے یا سراً ؟ انھوں نے فرمایا کہ کبھی جہراً کبھی سراً ۔ دونوں طرح تلاوت فرماتے تھے۔ رات کی نفل نماز میں اور خارج نماز تلاوت میں بعض افراد نے جہر پسند کیا بعض نے آہستہ کو۔ اسی لیے امام اعظم ابوحنیفہ ( رح) نے فرمایا کہ تلاوت کرنے والے کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہے تلاوت کرے۔ البتہ ! آواز سے تلاوت میں چند شرائط سب کے نزدیک ضروری ہیں۔ اول یہ کہ اس میں نام ونمود اور ریا کا اندیشہ نہ ہو۔ دوسرے اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کو حرج یا تکلیف نہ ہو۔ کسی دوسرے شخص کی نماز و تلاوت یا کام میں یا آرام میں خلل انداز نہ ہو اور جہاں نام ونمود اور ریا کا یا دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل کا اندیشہ ہو تو سب کے نزدیک آہستہ ہی پڑھنا افضل ہے۔ جو حکم تلاوتِ قرآن کا ہے وہی دوسرے اذکار و تسبیح کا ہے اور آہستہ اور بلند آوا ز سے دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ آواز اتنی بلند نہ ہو جو خشوع و خضوع اور ادب کے خلاف ہو نیز اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل نہ آتا ہو۔ اس کا فیصلہ کہ سراً اور جہراً سے افضل کیا ہے۔ اشخصاص اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہے۔ بعض لوگوں کے لیے جہر بہتر ہوتا ہے بعض کے لیے آہستہ نیز بعض اوقات جہربہتر ہوتا ہے بعض وقت سر۔ (تفسیر مظہری وروح البیان) دوسرا ادب تلاوت وذکر کا یہ ہے کہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ ذکر کیا جاوے جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ کی عظمت و جلال مستحضر ہو اور جو ذکر کررہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر ہو۔ تیسرا ادب اسی آیت میں لفظ خیفۃًسے یہ بتلایا گیا کہ ذکر و تلاوت کے وقت انسان پر ہیبت اور خوف کی کیفیت ہونا چاہیے۔ خوف اس کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور عظمت کا حق ادانھیں کرسکتے۔ ممکن ہے کہ ہم سے کوئی بےادبی ہوجائے نیز اپنے گناہوں کے استحضار سے عذاب الہٰی کا خوف نیز انجام اور خاتمہ کا خوف کہ معلوم نہیں کہ ہمارا خاتمہ کس حال پر ہونا ہے۔ بہرحال ذکر و تلاوت اس طرح کیا جائے جیسے کوئی ہیبت زدہ ڈرنے والا کیا کرتا ہے۔ یہی آداب دعا اسی سورة اعراف کے شروع میں بھی ایک آیت میں اس طرح آئے ہیں۔ ادعوا ربکم تضرعاوَّخفیۃًاس میں خیفۃ کے بجاے خفیۃ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی آہستہ آواز سے ذکر کرنے کے ہیں۔ گویا ذکر و تلاوت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آہستہ پست آواز سے کیا جائے لیکن اس آیت نے اس کے معنی بھی واضح کردیئے کہ اگرچہ آواز سے ذکر سے کرنا ممنوع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ کرے نیز اتنی بلند نہ کرے جس میں خشوع و خضوع، عاجزی اور تضرع کی کیفیت جاتی رہے۔ آخر آیت میں ذکر و تلاوت کے اوقات بتلائے کہ صبح وشام ہونا چاہیے اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کم از کم دن میں دو مرتبہ صبح وشام ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہیے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح وشام بول کر تمام لیل ونہار کے اوقات ہوں۔ جیسے مشرق مغرب بول کر سارا عالم مراد لیا جاتا ہے اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ ہرحال میں ذکر و تلاوت کا پابند رہے۔ حضرت عائشہ ( رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت ہرحال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ آخر آیت میں فرمایا { ولا تکن من الغفلین } یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر غفلت والوں میں شامل نہ ہوجا نا کہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ دوسری آیت میں لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لیے مقربان بارگاہِ الہٰی کا ایک مخصوص حال بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا مقبول ہونا ہے جس میں سب فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور صالحینِ امت شامل ہیں اور تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھ کر ان عبادات میں قصور نہیں کرتے بلکہ اپنے کو عاجز اور محتاج سمجھ کر ہمیشہ اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دائمی عبادت اور یاد خدا کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اس کی علامت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک (جو لوگ تیرے رب کے پاس ہیں) سے اشارہ فرشتوں کی طرف ہے ان کی بابت فرمایا کہ وہ اللہ کی بندگی سے کسی وقت سرتابی نہیں کرتے۔ برابر اس کی تسبیح میں لگے رہتے اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہ آیت ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی یاد میں برابر سر گرم رہنے والوں کے زمرہ کو بتاتی ہے کہ جو لوگ اللہ کو ہر وقت یادرکھتے ہیں گو وہ رہتے بستے زمین میں ہیں لیکن ان کا تعلق فرشتوں کی بزم قدس سے ہوجاتا ہے اس لیے کہ وہ جس طرح ہر وقت زمزمہ سنج تسبیح وتہلیل رہتے ہیں یہ بھی اسی طرح مصروف یاد الہٰی رہتے ہیں دوسرے طرف اس میں مشرکین پر تعریض بھی ہے کہ یہ تو فرشتوں ہی کی سفارش کے بل پر اکڑتے پھرتے ہیں، نہ خدا کو خاطر میں لاتے ہیں نہ رسول کو۔ لیکن خود فرشتوں کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی تسبیح اور سجود میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس اللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ اللہ کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ قرآن پاک میں ایسے چودہ مقامات ہیں جہاں آیات سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدہ کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے۔ مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ( رح) سجدہ تلاوت کو واجب سمجھتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی ﷺ بسا اوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپ خود بھی سجدہ میں گرجاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا حتی کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا اور پھر اوپر جاکر خطبہ شروع کردیا۔ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے اس طرز عمل سے سجدہ تلاوت کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور ویسے بھی اس آیت کریمہ میں آخر میں سجدہ کرنے والوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی پر سورة کا اختتام ہوتا ہے۔ اس سے نفس سجدہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام ارکانِ نماز میں سجدہ کو خاص فضیلت حاصل ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ثوبان ( رض) سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جس سے میں جنت میں جاسکوں۔ حضرت ثوبان ( رض) خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال کیا، پھر بھی خاموش رہے۔ پھر جب تیسری مرتبہ سوال کو دہرایا تو انھوں نے کہا کہ میں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ سے کیا تھا آپ نے مجھے یہ وصیت فرمائی کہ کثرت سے سجدے کیا کرو کیونکہ جب تم ایک سجدہ کرتے ہو تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔ یہ شخص کہتے ہیں حضرت ثوبان ( رض) کے بعد حضرت ابو الدرداء ( رض) سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے بھی یہی جواب دیا اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ( رض) منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بندہ سجدہ میں ہو۔ اس لیے تم سجدہ کی حالت میں خوب دعا کیا کرو کہ اس کے قبول ہونے کی بڑی امید ہے۔ یاد رہے کہ تنہا سجدہ کی کوئی عبادت معروف نہیں۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ ( رح) کے نزدیک کثرت سجود سے مراد یہ ہے کہ کثرت سے نوافل پڑھا کریں۔ جتنی نفلیں زیادہ ہوں گی سجدے زیادہ ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص تنہا سجدہ ہی کرکے دعا کرلے اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ سجدہ میں دعا کرنے کی ہدایت نفلی نمازوں کے لیے مخصوص ہے فرائض میں نہیں۔
Top