Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ : والے الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالًا : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَهُمْ : وہ انہیں پہچان لیں گے بِسِيْمٰىهُمْ : ان کی پیشانی سے قَالُوْا : وہ کہیں گے مَآ اَغْنٰى : نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں جَمْعُكُمْ : تمہارا جتھا وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ : تم تکبر کرتے تھے
پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نے آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے
گزشتہ آیات میں ہم نے یہ پڑھا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہوگی جس کی چوٹیوں پر کچھ لوگ ہوں گے جنھیں اصحاب الاعراف کہا گیا ہے وہ وہاں سے جنت اور جہنم کو دیکھ سکیں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن چونکہ دنیا کے طبعی قوانین کو ختم کردیں گے اور آخرت کے وہ حیرت انگیز قوانین نافذ ہوں گے جن کے نتیجے میں انسانی استعداد اور اس کے حواس میں بےپناہ وسعت پیدا ہوجائے گی آج جن چیزوں کو انسان نہیں دیکھ سکتا وہاں وہ بڑی آسانی سے بتمام و کمال ان چیزوں کو دیکھے گا اور جن آوازوں کو محدود حد تک سن سکتا ہے انھیں بےپایاں وسعتوں کے ساتھ سنے گا آج غفلت اور بیخبر ی کا جو پردہ ہماری صلاحیتوں پر تنا ہوا ہے اسے اتار دیا جائے گا اور ہر انسانی قوت کی طرح نگاہ بھی نہایت تیزی سے کام کرے گی ہر اوٹ کے پیچھے دیکھ سکے گی حتیٰ کہ عالم اسباب کے ماورا جو کچھ ہے اسے بھی جھانک سکے گی۔ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : لَقَد کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃِ مِنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا اَنْتَ غِطَائَکَ فَبَصَرُکَ اَلْیَوْمَ حَدِیْد ” تو اس سے غفلت میں تھا پس ہم نے تجھ سے ہر پردے کو ہٹا دیا ہے آج تیری نظر نہایت تیز ہے “۔ چناچہ جنت اور جہنم اپنی تمام وسعتوں اور مسافتوں کے باوجود اہل جنت اور اہل جہنم کے لیے سامنے کی چیزوں میں تبدیل کردی جائیں گی۔ اہل جنت اہل جہنم کو دیکھ سکیں گے اور اہل جہنم اہل جنت کو۔ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرسکیں گے اور ایک دوسرے کے احوال کو دیکھ سکیں گے۔ اسی طرح اصحاب اعراف بھی ان دونوں کو دیکھیں گے۔ سب سے پہلے ان کی نگاہ اہل جنت پر پڑے گی اور وہاں کے باسیوں کو وہ پہچانیں گے اور پھر ان کی نگاہ جہنم کی طرف پھیری جائے گی تو وہ جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھ کر اللہ سے دعا کریں گے کہ یا اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھنا اور پھر وہ جہنم کے بڑے بڑے لوگوں کو پہچان کر ان سے سوالات کریں گے۔ چناچہ پیش نظر آیات میں انہی سوالات کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَھُمْ بِسِیْمٰھُمْ قَالُوْا مَٓا اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ ۔ اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُھُمُ اللہ ُ بِرَحْمَۃٍ ط اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ۔ (الاعراف : 48، 49) ” پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نے آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا ؟ داخل ہوجاؤ جنت میں ‘ تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج “۔ اہلِ جنت و جہنم کی علامات پیش نظر آیت کریمہ اور گزشتہ سے پیوستہ آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اصحاب اعراف اہل جنت کو ان کی علامتوں سے پہچانیں گے اور جہنم کے بڑے بڑے لوگوں کو ان کی علامتوں سے پہچانیں گے اور پھر ان سے کچھ سوال کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ان کو کس طرح پہچانیں گے ؟ قرآن کریم سے بھی ہمیں اس کا جواب ملتا ہے اور احادیث پاک سے بھی۔ مسلم شریف کی ایک روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ حضور آپ ہمیں قیامت کے دن کس طرح پہچانیں گے فرمایا کسی کے گھوڑے اگر پنج کلیان ہوں (یعنی گھوڑے کی پیشانی اور اس کے چاروں پائوں اگر سفید ہوں تو انھیں پنج کلیان کہا جاتا ہے) تو کیا باقی گھوڑوں میں سے انھیں پہچاننا مشکل ہے ظاہر ہے کہ ان کا پہچاننا مشکل نہیں بلکہ ان کی ان علامتوں سے باقی گھوڑوں میں سے ان کو آسانی سے پہچان لیا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس امت کے نیک لوگوں اور نمازیوں کو پنج کلیان بنایا ہے یعنی ہم جو اپنے اعضا وضو میں دھوتے ہیں یعنی چہرہ ‘ دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں یہ پانچوں اعضا قیامت کے دن نہایت روشن ہوں گے۔ ان اعضا کی روشنی سے رسول پاک ﷺ اپنی امت کے نیک لوگوں کو پہچانیں گے اور اہل جنت بھی انہی علامتوں کے ساتھ جنت میں داخل کیے جائیں گے اور ہر دیکھنے والا انھیں انہی علامتوں سے پہچانے گا اسی طرح اہل جہنم کی بھی معلوم ہوتا ہے کچھ علامتیں ہیں مثلاً سورة لہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابولہب کی بیوی قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس کی گردن میں لکڑیوں کا گٹھا باندھنے والی رسی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو جن اسباب کے تحت اذیتیں پہنچائی ہوں گی وہی ان کے ستم رانی کے طریقے ان کی علامت بنا دیئے جائیں گے۔ اس طرح قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن صاحب ایمان لوگوں کے چہرے نہایت روشن اور تروتازہ ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس کافروں کے چہرے نہایت سیاہ اور مکروہ ہوں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جو بڑے بڑے کفار ہوں گے جنھوں نے آئمہ کفر کی طرح اپنا رول ادا کیا ہوگا وہ اپنے چہروں کی بڑھی ہوئی سیاہی اور چہروں پر پڑی ہوئی لعنت سے پہچانے جائیں گے۔ جتنا کوئی بڑا کافر ہوگا اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ سیاہ اور مکروہ ہوگا اور کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان کے چہروں پر اور بھی کوئی ایسی علامتیں ہوں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئے کہ یہ ابوجہل ہے اور یہ ابولہب۔ ایسی ہی علامتوں سے اصحاب اعراف ان اہل جہنم کے بڑے بڑے کافروں کو پہچانیں گے اور پھر ان سے مختلف سوالات کریں گے۔ پہلا سوال ان کے رویے اور ان کے بعض مزعومات کے حوالے سے ہوگا ان کا رویہ یہ تھا کہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کے مقابلے میں انھیں اپنی افرادی قوت ‘ اپنی کثرت تعداد اور اپنے مال و دولت پر بڑا فخر اور ناز تھا اور وہ بات بات پر مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے تھے کہ تمہارا دین اگر سچا ہوتا تو کیا اس کے قبول کرنے والے تم جیسے بےبس اور بےکس لوگ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنی سچائی کے لیے یقینا ان لوگوں کو کھڑا کرتا جن کی بات میں وزن ہوتا ‘ لوگ جنھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوتے۔ تم غریب لوگ جنھیں کسی مجلس میں بار نہیں ملتا ‘ تمہاری بات سننے کا کوئی روادار نہیں ‘ تمہیں معاشرے میں کوئی عزت کا مقام حاصل نہیں ‘ عزت اور اہمیت کی بات بھی تمہاری زبانوں پر آجانے کے بعد اہمیت کھو دیتی ہے ‘ لوگ اسے سننے کے روادار نہیں ہوتے تو جس دین کو تم جیسے لوگ پسند کرتے ہیں یہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس دین میں کوئی قابل قبول بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زاویہ نگاہ بدل جانے سے الفاظ کا مفہوم اور حقیقتوں کے مصداق بدل جاتے ہیں غریب لوگوں نے آگے بڑھ کر اسلام کو سینے سے لگایا تو اشراف مکہ کی نگاہ میں یہ بات اسلام کی سبکی کا باعث بن گئی اور اسی کو دلیل بنا کر انھوں نے اسلام کو سچا مذہب اور سچادین سمجھنے سے انکار کردیا لیکن یہی بات قیصر روم کی نگاہ میں بالکل ایک دوسرا مفہوم رکھتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جب خطوط کے ذریعے سلاطین عالم کو اسلام کی دعوت دی تو قیصر روم کو بھی اسی سلسلے میں آپ نے ایک مکتوب گرامی لکھا۔ چناچہ جب اس کو یہ مکتوب ملا تو بجائے اس کے کہ وہ کسریٰ ایران کی طرح توہین آمیز رویہ اختیار کرتا اور اس مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیتا اس نے نہایت احترام سے اس کو وصول کیا اور کہا کہ یہاں کچھ عرب اگر تجارت کے سلسلے میں آئے ہوئے ہوں تو انھیں میرے پاس لائو تاکہ اس نبوت کے دعوے دار کے بارے میں میں ان سے تحقیق کرسکوں اتفاق سے ابو سفیان جو ان دنوں اسلام کے بدترین دشمن تھے وہ وہاں موجود تھے۔ انھیں ان کے ساتھیوں سمیت قیصر روم کے سامنے پیش کیا گیا۔ قیصر نے جہاں اور کئی سارے سوالات کیے وہیں ان سے یہ بھی ایک سوال کیا کہ اس نبی پر ایمان لانے والے کون لوگ ہیں امیر یا غریب ؟ ابو سفیان نے جواب دیا کہ غریب لوگ ہیں۔ قیصر بجائے اس کے کہ اشراف مکہ کی طرح اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ جس نبی کی دعوت کو غریب لوگ قبول کریں وہ اس قابل نہیں کہ اس پر غور بھی کیا جاسکے اس نے اس کے بالکل برعکس یہ کہا کہ اگر واقعی اس پر ایمان لانے والے غریب لوگ ہیں تو وہ اللہ کا سچا نبی ہے کیونکہ نبیوں پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ امراء تو اس وقت شریک ہوتے ہیں جب قافلہ بن جاتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ امراء کا طبقہ چونکہ اپنے ساتھ بیشمار مالی مفادات رکھتا ہے معاشرے میں حاصل کردہ مقام و مرتبہ کے تحفظ کی اسے فکر رہتی ہے وہ جب دیکھتا ہے کہ نئے دین کی دعوت کو قبول کرنے کے نتیجے میں بہت سارے مالی مفادات کو چھوڑنا پڑے گا ہوسکتا ہے بہت کچھ ایثار کرنا پڑے تو مال و دولت کی محبت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شخصی بزدلی کے باعث وہ اسلام کی طرف آنے سے انکار کردیتا ہے اور مال و دولت کے وہ پتھر جو اس کی ذات کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں وہ اسے ایثار و قربانی کے اس دریا میں اترنے سے روکتے ہیں وہ جانتا ہے کہ اگر میں ان پتھروں سمیت دریا میں اترا تو ڈوب جاؤں گا اس لیے کسی بھی انقلاب کے پس پردہ اگر آپ جھانک کے دیکھیں تو انقلاب کی جان اور انقلاب کی قوت ہمیشہ غربا کا طبقہ رہا۔ امراء میں ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوتے ہیں جو شروع ہی میں پیغمبر کی دعوت کو قبول کر کے اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے یہاں بڑے مقام کے مالک بن جاتے ہیں لیکن طبقہ امراء کے بیشتر لوگ ہمیشہ انقلاب کی آگ سے دور رہتے ہیں بلکہ عموماً ان کا مقام اور ان کا اثر و رسوخ اور ان کا مال و دولت انقلاب کے رستے کی رکاوٹ بنتا ہے اور وہ اگر شریک ہوتے بھی ہیں تو اس وقت جب وہ دیکھتے ہیں کہ اب یہ انقلاب اپنی کامیابیوں کی طرف بڑھ رہا ہے یہی حال اشراف مکہ کا بھی تھا وہ اپنے موجودہ مقام و مرتبہ ‘ اپنی خوشحالی اور خوش عیشی کو کسی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں تھے بلکہ اسے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اس لیے سب سے پہلا سوال جو اصحاب اعراف ان اہل جہنم کے بڑے بڑے سرداروں سے کریں گے وہ یہی ہوگا کہ بتائو تمہاری یہ جمعیت اور تمہارا مال و دولت تمہارے کس کام آیا جسے تم اپنے سچا ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے اس دلیل نے تمہیں کیا فائدہ دیا اور دوسرا سوال ان کے استکبار کے حوالے سے ہوگا۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ دیکھو تم دنیا میں ہمیشہ مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور تم پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی غریب آدمی تمہیں مخاطب کرنے کی جرأت بھی کرسکے اور اسی تکبر کے نتیجے میں تم ان کی کسی بات کو وزن دینے کو تیار نہیں تھے بلکہ تم قسمیں کھا کھا کر یہ کہتے تھے کہ یہ غریب لوگ جن کو جنت کی طلب نے اندھا کردیا ہے نجانے یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے یہ کبھی اللہ کی رحمت کے سزاوار نہیں ہوسکتے اگر یہ اس کی رحمت کے مستحق ہوتے تو دنیا میں اس بےسروسامانی کے ساتھ زندگی نہ گزارتے یہ نان شبینہ کے محتاج لوگ کیا اس قابل ہیں کہ انھیں جنت کا وارث بنادیا جائے۔ اصحاب اعراف ان سے کہیں گے کہ دیکھو جن لوگوں کے بارے میں تم قسمیں کھا کر یہ کہتے تھے کہ یہ کبھی اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہوں گے وہی آج جنت میں ہیں اور تم جہنم میں پڑے جل رہے ہو۔ بتائو تمہارے اس تکبر نے تمہیں آخر کیا فائدہ پہنچایا۔ اہل جہنم سے یہ سوال اصلاً مشرکین مکہ ‘ مشرکین عرب اور دنیا بھر کی لادینی قوتوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہر جگہ کا کفر انہی دو امراض کا شکار ہے کہ یا ان کو اپنی جمعیت اور اپنے مال و دولت کی کثرت پر ناز ہے اور اسی کو وہ اپنے برسرحق ہونے کی دلیل بھی سمجھتے ہیں اور یا انھیں اپنی قوت کے باعث تکبر کا مرض لاحق ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بھی سمجھتے ہیں اور غریب مسلمانوں کو نہ وہ دنیا میں کسی قابل سمجھتے ہیں اور نہ آخرت کا سزاوار جانتے ہیں اور یہاں واقعاتی دنیا کو سامنے رکھ کر اور انجام سے پردہ اٹھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کے یہاں نجات پانے اور کسی مقام کو حاصل کرنے کے لیے لاؤلشکر کی کثرت اور دولت اور قوت کی فراوانی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہاں جو چیز عزت حاصل کرسکے گی وہ ہر آدمی اور ہر قوم کا کا ایمان و عمل اور اس کا ذاتی کردار ہوگا۔ جنت میں داخل ہونے کا مفہوم کیا ہے ؟ اور اس کے مخاطب کون ہیں ؟ اس کے بعد فرمایا جنت میں داخل ہوجاؤ جنت میں جانے کے بعد نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنت میں داخلے کا حکم کسے دیا جا رہا ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے جس کی طرف ہمارے بیشتر مفسرین گئے ہیں کہ یہ حکم اصحاب اعراف کو ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جہنم سے بچا لیے جائیں گے لیکن ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے دونوں کے درمیان اپنے بہتر انجام کی آرزو لیے منتظر ہوں گے انہی سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب تم جنت میں داخل ہوجاؤ تم اب تک جس خوف اور جن اندیشوں کا شکار رہے ہو آئندہ اس کا کوئی امکان نہیں ہوگا اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس سے مراد اہل جنت ہوں ‘ ان کو جنت میں داخلے کا حکم دیا جا رہا ہے اگر یہ مراد لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل جنت تو جنت میں پہنچ چکے ان کو داخلے کا حکم دینے کا کیا مطلب ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ عربی زبان میں فعل ہر جگہ اپنے ابتدائی معنی ہی پر دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ بعض مواقع میں وہ تمکن و استمرار پر دلیل ہوتا ہے یعنی مقصود اس سے یہ نہیں ہوتا کہ یہ کام کرو بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کام کے جو حقیقی فوائد اور حقیقی مقاصد ہیں انھیں حاصل کرو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کو جب ان کے وطن سے مصر میں بلایا تو آپ کے بھائی اپنے والدین سمیت جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے باقاعدہ دربار میں ان کا استقبال کیا۔ والدین کو اپنے پہلو میں بٹھایا اور اس کے بعد فرمایا، جس کو قرآن کریم بیان کرتا ہوا کہتا ہے : فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَا نْشَآئَ اللہ ُ آمِنِیْنَ ” پس جب وہ یوسف کی خدمت میں حاضر ہوئے اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو انشاء اللہ امن کے ساتھ “ (یوسف : 99) غور فرمایئے ! انھیں مصر میں داخل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ مصر میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے اس کا مفہوم داخل ہونا تو مراد نہیں لیا جاسکتا یقینا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) انھیں اس داخلے پر مبارکباد دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ یہ نہ سمجھئے کہ آپ مصر میں ایک مہمان کے طور پر تشریف لائے ہیں بلکہ یہ آپ کا وطن ہے اب آپ کو یہیں زندگی گزارنی ہے اس لیے یہاں ایک معزز شہری کے طور پر جو رول آپ کو ادا کرنا چاہیے اسے ادا کیجیے اور وطن کی جو نعمتیں آپ کی ضرورت ہوں اور آپ کو مطلوب ہوں انھیں آگے بڑھ کر حاصل کیجیے اور ان کا حق ادا کیجیے۔ اس آیت کریمہ میں بھی معلوم ہوتا ہے اہل جنت سے یہی کہا جا رہا ہے کہ اب آپ جنت میں اللہ کے فضل سے آچکے ہیں اس کی ایک ایک نعمت پر آپ کا حق ہے اب یہاں کبھی آپ کو اندیشے پریشان نہیں کریں گے یہاں سے کبھی آپ کو نکالانھیں جائے گا بس یوں سمجھئے کہ یہ جنت آپ کے لیے ہے اور آپ اس کے لیے ہیں اب آپ کو یہاں خوش عیشی کی زندگی گزارنی ہے۔ بقول شاعر مزے لوٹو کلیم اب بن پڑی ہے بڑی اونچی جگہ قسمت لڑی ہے اہل جہنم اصحاب اعراف کے سوالوں کا سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں دے سکیں گے لیکن اسی اثناء میں جب اللہ تعالیٰ اصحاب اعراف کو جنت میں داخلے کا حکم دیں گے تو ان کی محرومیاں اور بھڑک اٹھیں گی اور یہ بےساختہ اہل جنت کو پکارنا شروع کردیں گے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی جہنم میں پہنچانے والے ان اعمال کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ جہنم میں پہنچے ہیں اور ہر زمانے کے لوگ ایسے ہی اعمال کے نتیجے میں جہنم میں پہنچیں گے اس لیے اس میں جہاں اہل جہنم کے انجام کو دیکھتے ہوئے عبرت حاصل ہوتی ہے وہیں ان کی فرد جرم کو دیکھتے ہوئے ہر دور کا انسان اس سے بچنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔
Top