Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي
: اور پکاریں گے
اَصْحٰبُ
: والے
الْاَعْرَافِ
: اعراف
رِجَالًا
: کچھ آدمی
يَّعْرِفُوْنَهُمْ
: وہ انہیں پہچان لیں گے
بِسِيْمٰىهُمْ
: ان کی پیشانی سے
قَالُوْا
: وہ کہیں گے
مَآ اَغْنٰى
: نہ فائدہ دیا
عَنْكُمْ
: تمہیں
جَمْعُكُمْ
: تمہارا جتھا
وَمَا
: اور جو
كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
: تم تکبر کرتے تھے
پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نے آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے
گزشتہ آیات میں ہم نے یہ پڑھا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہوگی جس کی چوٹیوں پر کچھ لوگ ہوں گے جنھیں اصحاب الاعراف کہا گیا ہے وہ وہاں سے جنت اور جہنم کو دیکھ سکیں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن چونکہ دنیا کے طبعی قوانین کو ختم کردیں گے اور آخرت کے وہ حیرت انگیز قوانین نافذ ہوں گے جن کے نتیجے میں انسانی استعداد اور اس کے حواس میں بےپناہ وسعت پیدا ہوجائے گی آج جن چیزوں کو انسان نہیں دیکھ سکتا وہاں وہ بڑی آسانی سے بتمام و کمال ان چیزوں کو دیکھے گا اور جن آوازوں کو محدود حد تک سن سکتا ہے انھیں بےپایاں وسعتوں کے ساتھ سنے گا آج غفلت اور بیخبر ی کا جو پردہ ہماری صلاحیتوں پر تنا ہوا ہے اسے اتار دیا جائے گا اور ہر انسانی قوت کی طرح نگاہ بھی نہایت تیزی سے کام کرے گی ہر اوٹ کے پیچھے دیکھ سکے گی حتیٰ کہ عالم اسباب کے ماورا جو کچھ ہے اسے بھی جھانک سکے گی۔ قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے : لَقَد کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃِ مِنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا اَنْتَ غِطَائَکَ فَبَصَرُکَ اَلْیَوْمَ حَدِیْد ” تو اس سے غفلت میں تھا پس ہم نے تجھ سے ہر پردے کو ہٹا دیا ہے آج تیری نظر نہایت تیز ہے “۔ چناچہ جنت اور جہنم اپنی تمام وسعتوں اور مسافتوں کے باوجود اہل جنت اور اہل جہنم کے لیے سامنے کی چیزوں میں تبدیل کردی جائیں گی۔ اہل جنت اہل جہنم کو دیکھ سکیں گے اور اہل جہنم اہل جنت کو۔ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرسکیں گے اور ایک دوسرے کے احوال کو دیکھ سکیں گے۔ اسی طرح اصحاب اعراف بھی ان دونوں کو دیکھیں گے۔ سب سے پہلے ان کی نگاہ اہل جنت پر پڑے گی اور وہاں کے باسیوں کو وہ پہچانیں گے اور پھر ان کی نگاہ جہنم کی طرف پھیری جائے گی تو وہ جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھ کر اللہ سے دعا کریں گے کہ یا اللہ ہمیں ان سے محفوظ رکھنا اور پھر وہ جہنم کے بڑے بڑے لوگوں کو پہچان کر ان سے سوالات کریں گے۔ چناچہ پیش نظر آیات میں انہی سوالات کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَھُمْ بِسِیْمٰھُمْ قَالُوْا مَٓا اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ ۔ اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُھُمُ اللہ ُ بِرَحْمَۃٍ ط اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ۔ (الاعراف : 48، 49) ” پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ دیکھ لیا تم نے آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ بھی نہ دے گا ؟ داخل ہوجاؤ جنت میں ‘ تمہارے لیے نہ خوف ہے نہ رنج “۔ اہلِ جنت و جہنم کی علامات پیش نظر آیت کریمہ اور گزشتہ سے پیوستہ آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اصحاب اعراف اہل جنت کو ان کی علامتوں سے پہچانیں گے اور جہنم کے بڑے بڑے لوگوں کو ان کی علامتوں سے پہچانیں گے اور پھر ان سے کچھ سوال کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ان کو کس طرح پہچانیں گے ؟ قرآن کریم سے بھی ہمیں اس کا جواب ملتا ہے اور احادیث پاک سے بھی۔ مسلم شریف کی ایک روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ حضور آپ ہمیں قیامت کے دن کس طرح پہچانیں گے فرمایا کسی کے گھوڑے اگر پنج کلیان ہوں (یعنی گھوڑے کی پیشانی اور اس کے چاروں پائوں اگر سفید ہوں تو انھیں پنج کلیان کہا جاتا ہے) تو کیا باقی گھوڑوں میں سے انھیں پہچاننا مشکل ہے ظاہر ہے کہ ان کا پہچاننا مشکل نہیں بلکہ ان کی ان علامتوں سے باقی گھوڑوں میں سے ان کو آسانی سے پہچان لیا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس امت کے نیک لوگوں اور نمازیوں کو پنج کلیان بنایا ہے یعنی ہم جو اپنے اعضا وضو میں دھوتے ہیں یعنی چہرہ ‘ دونوں ہاتھ اور دونوں پائوں یہ پانچوں اعضا قیامت کے دن نہایت روشن ہوں گے۔ ان اعضا کی روشنی سے رسول پاک ﷺ اپنی امت کے نیک لوگوں کو پہچانیں گے اور اہل جنت بھی انہی علامتوں کے ساتھ جنت میں داخل کیے جائیں گے اور ہر دیکھنے والا انھیں انہی علامتوں سے پہچانے گا اسی طرح اہل جہنم کی بھی معلوم ہوتا ہے کچھ علامتیں ہیں مثلاً سورة لہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابولہب کی بیوی قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس کی گردن میں لکڑیوں کا گٹھا باندھنے والی رسی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جن لوگوں نے بھی اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو جن اسباب کے تحت اذیتیں پہنچائی ہوں گی وہی ان کے ستم رانی کے طریقے ان کی علامت بنا دیئے جائیں گے۔ اس طرح قرآن کریم سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن صاحب ایمان لوگوں کے چہرے نہایت روشن اور تروتازہ ہوں گے۔ لیکن اس کے برعکس کافروں کے چہرے نہایت سیاہ اور مکروہ ہوں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں جو بڑے بڑے کفار ہوں گے جنھوں نے آئمہ کفر کی طرح اپنا رول ادا کیا ہوگا وہ اپنے چہروں کی بڑھی ہوئی سیاہی اور چہروں پر پڑی ہوئی لعنت سے پہچانے جائیں گے۔ جتنا کوئی بڑا کافر ہوگا اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ سیاہ اور مکروہ ہوگا اور کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ان کے چہروں پر اور بھی کوئی ایسی علامتیں ہوں جن کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہ پیش آئے کہ یہ ابوجہل ہے اور یہ ابولہب۔ ایسی ہی علامتوں سے اصحاب اعراف ان اہل جہنم کے بڑے بڑے کافروں کو پہچانیں گے اور پھر ان سے مختلف سوالات کریں گے۔ پہلا سوال ان کے رویے اور ان کے بعض مزعومات کے حوالے سے ہوگا ان کا رویہ یہ تھا کہ اسلام اور آنحضرت ﷺ کے مقابلے میں انھیں اپنی افرادی قوت ‘ اپنی کثرت تعداد اور اپنے مال و دولت پر بڑا فخر اور ناز تھا اور وہ بات بات پر مسلمانوں کو یہ طعنہ دیتے تھے کہ تمہارا دین اگر سچا ہوتا تو کیا اس کے قبول کرنے والے تم جیسے بےبس اور بےکس لوگ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ اپنی سچائی کے لیے یقینا ان لوگوں کو کھڑا کرتا جن کی بات میں وزن ہوتا ‘ لوگ جنھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوتے۔ تم غریب لوگ جنھیں کسی مجلس میں بار نہیں ملتا ‘ تمہاری بات سننے کا کوئی روادار نہیں ‘ تمہیں معاشرے میں کوئی عزت کا مقام حاصل نہیں ‘ عزت اور اہمیت کی بات بھی تمہاری زبانوں پر آجانے کے بعد اہمیت کھو دیتی ہے ‘ لوگ اسے سننے کے روادار نہیں ہوتے تو جس دین کو تم جیسے لوگ پسند کرتے ہیں یہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس دین میں کوئی قابل قبول بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زاویہ نگاہ بدل جانے سے الفاظ کا مفہوم اور حقیقتوں کے مصداق بدل جاتے ہیں غریب لوگوں نے آگے بڑھ کر اسلام کو سینے سے لگایا تو اشراف مکہ کی نگاہ میں یہ بات اسلام کی سبکی کا باعث بن گئی اور اسی کو دلیل بنا کر انھوں نے اسلام کو سچا مذہب اور سچادین سمجھنے سے انکار کردیا لیکن یہی بات قیصر روم کی نگاہ میں بالکل ایک دوسرا مفہوم رکھتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جب خطوط کے ذریعے سلاطین عالم کو اسلام کی دعوت دی تو قیصر روم کو بھی اسی سلسلے میں آپ نے ایک مکتوب گرامی لکھا۔ چناچہ جب اس کو یہ مکتوب ملا تو بجائے اس کے کہ وہ کسریٰ ایران کی طرح توہین آمیز رویہ اختیار کرتا اور اس مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیتا اس نے نہایت احترام سے اس کو وصول کیا اور کہا کہ یہاں کچھ عرب اگر تجارت کے سلسلے میں آئے ہوئے ہوں تو انھیں میرے پاس لائو تاکہ اس نبوت کے دعوے دار کے بارے میں میں ان سے تحقیق کرسکوں اتفاق سے ابو سفیان جو ان دنوں اسلام کے بدترین دشمن تھے وہ وہاں موجود تھے۔ انھیں ان کے ساتھیوں سمیت قیصر روم کے سامنے پیش کیا گیا۔ قیصر نے جہاں اور کئی سارے سوالات کیے وہیں ان سے یہ بھی ایک سوال کیا کہ اس نبی پر ایمان لانے والے کون لوگ ہیں امیر یا غریب ؟ ابو سفیان نے جواب دیا کہ غریب لوگ ہیں۔ قیصر بجائے اس کے کہ اشراف مکہ کی طرح اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ جس نبی کی دعوت کو غریب لوگ قبول کریں وہ اس قابل نہیں کہ اس پر غور بھی کیا جاسکے اس نے اس کے بالکل برعکس یہ کہا کہ اگر واقعی اس پر ایمان لانے والے غریب لوگ ہیں تو وہ اللہ کا سچا نبی ہے کیونکہ نبیوں پر سب سے پہلے ایمان لانے والے ہمیشہ غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ امراء تو اس وقت شریک ہوتے ہیں جب قافلہ بن جاتا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ امراء کا طبقہ چونکہ اپنے ساتھ بیشمار مالی مفادات رکھتا ہے معاشرے میں حاصل کردہ مقام و مرتبہ کے تحفظ کی اسے فکر رہتی ہے وہ جب دیکھتا ہے کہ نئے دین کی دعوت کو قبول کرنے کے نتیجے میں بہت سارے مالی مفادات کو چھوڑنا پڑے گا ہوسکتا ہے بہت کچھ ایثار کرنا پڑے تو مال و دولت کی محبت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شخصی بزدلی کے باعث وہ اسلام کی طرف آنے سے انکار کردیتا ہے اور مال و دولت کے وہ پتھر جو اس کی ذات کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں وہ اسے ایثار و قربانی کے اس دریا میں اترنے سے روکتے ہیں وہ جانتا ہے کہ اگر میں ان پتھروں سمیت دریا میں اترا تو ڈوب جاؤں گا اس لیے کسی بھی انقلاب کے پس پردہ اگر آپ جھانک کے دیکھیں تو انقلاب کی جان اور انقلاب کی قوت ہمیشہ غربا کا طبقہ رہا۔ امراء میں ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوتے ہیں جو شروع ہی میں پیغمبر کی دعوت کو قبول کر کے اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کے یہاں بڑے مقام کے مالک بن جاتے ہیں لیکن طبقہ امراء کے بیشتر لوگ ہمیشہ انقلاب کی آگ سے دور رہتے ہیں بلکہ عموماً ان کا مقام اور ان کا اثر و رسوخ اور ان کا مال و دولت انقلاب کے رستے کی رکاوٹ بنتا ہے اور وہ اگر شریک ہوتے بھی ہیں تو اس وقت جب وہ دیکھتے ہیں کہ اب یہ انقلاب اپنی کامیابیوں کی طرف بڑھ رہا ہے یہی حال اشراف مکہ کا بھی تھا وہ اپنے موجودہ مقام و مرتبہ ‘ اپنی خوشحالی اور خوش عیشی کو کسی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں تھے بلکہ اسے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ اس لیے سب سے پہلا سوال جو اصحاب اعراف ان اہل جہنم کے بڑے بڑے سرداروں سے کریں گے وہ یہی ہوگا کہ بتائو تمہاری یہ جمعیت اور تمہارا مال و دولت تمہارے کس کام آیا جسے تم اپنے سچا ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے اس دلیل نے تمہیں کیا فائدہ دیا اور دوسرا سوال ان کے استکبار کے حوالے سے ہوگا۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ دیکھو تم دنیا میں ہمیشہ مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور تم پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی غریب آدمی تمہیں مخاطب کرنے کی جرأت بھی کرسکے اور اسی تکبر کے نتیجے میں تم ان کی کسی بات کو وزن دینے کو تیار نہیں تھے بلکہ تم قسمیں کھا کھا کر یہ کہتے تھے کہ یہ غریب لوگ جن کو جنت کی طلب نے اندھا کردیا ہے نجانے یہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے یہ کبھی اللہ کی رحمت کے سزاوار نہیں ہوسکتے اگر یہ اس کی رحمت کے مستحق ہوتے تو دنیا میں اس بےسروسامانی کے ساتھ زندگی نہ گزارتے یہ نان شبینہ کے محتاج لوگ کیا اس قابل ہیں کہ انھیں جنت کا وارث بنادیا جائے۔ اصحاب اعراف ان سے کہیں گے کہ دیکھو جن لوگوں کے بارے میں تم قسمیں کھا کر یہ کہتے تھے کہ یہ کبھی اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہوں گے وہی آج جنت میں ہیں اور تم جہنم میں پڑے جل رہے ہو۔ بتائو تمہارے اس تکبر نے تمہیں آخر کیا فائدہ پہنچایا۔ اہل جہنم سے یہ سوال اصلاً مشرکین مکہ ‘ مشرکین عرب اور دنیا بھر کی لادینی قوتوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ہر جگہ کا کفر انہی دو امراض کا شکار ہے کہ یا ان کو اپنی جمعیت اور اپنے مال و دولت کی کثرت پر ناز ہے اور اسی کو وہ اپنے برسرحق ہونے کی دلیل بھی سمجھتے ہیں اور یا انھیں اپنی قوت کے باعث تکبر کا مرض لاحق ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق بھی سمجھتے ہیں اور غریب مسلمانوں کو نہ وہ دنیا میں کسی قابل سمجھتے ہیں اور نہ آخرت کا سزاوار جانتے ہیں اور یہاں واقعاتی دنیا کو سامنے رکھ کر اور انجام سے پردہ اٹھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ کے یہاں نجات پانے اور کسی مقام کو حاصل کرنے کے لیے لاؤلشکر کی کثرت اور دولت اور قوت کی فراوانی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ وہاں جو چیز عزت حاصل کرسکے گی وہ ہر آدمی اور ہر قوم کا کا ایمان و عمل اور اس کا ذاتی کردار ہوگا۔ جنت میں داخل ہونے کا مفہوم کیا ہے ؟ اور اس کے مخاطب کون ہیں ؟ اس کے بعد فرمایا جنت میں داخل ہوجاؤ جنت میں جانے کے بعد نہ تمہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنت میں داخلے کا حکم کسے دیا جا رہا ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے جس کی طرف ہمارے بیشتر مفسرین گئے ہیں کہ یہ حکم اصحاب اعراف کو ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جہنم سے بچا لیے جائیں گے لیکن ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے دونوں کے درمیان اپنے بہتر انجام کی آرزو لیے منتظر ہوں گے انہی سے فرمایا جا رہا ہے کہ اب تم جنت میں داخل ہوجاؤ تم اب تک جس خوف اور جن اندیشوں کا شکار رہے ہو آئندہ اس کا کوئی امکان نہیں ہوگا اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس سے مراد اہل جنت ہوں ‘ ان کو جنت میں داخلے کا حکم دیا جا رہا ہے اگر یہ مراد لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل جنت تو جنت میں پہنچ چکے ان کو داخلے کا حکم دینے کا کیا مطلب ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ عربی زبان میں فعل ہر جگہ اپنے ابتدائی معنی ہی پر دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ بعض مواقع میں وہ تمکن و استمرار پر دلیل ہوتا ہے یعنی مقصود اس سے یہ نہیں ہوتا کہ یہ کام کرو بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کام کے جو حقیقی فوائد اور حقیقی مقاصد ہیں انھیں حاصل کرو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کو جب ان کے وطن سے مصر میں بلایا تو آپ کے بھائی اپنے والدین سمیت جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے باقاعدہ دربار میں ان کا استقبال کیا۔ والدین کو اپنے پہلو میں بٹھایا اور اس کے بعد فرمایا، جس کو قرآن کریم بیان کرتا ہوا کہتا ہے : فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰی یُوْسُفَ اٰوٰٓی اِلَیْہِ اَبَوَیْہِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَا نْشَآئَ اللہ ُ آمِنِیْنَ ” پس جب وہ یوسف کی خدمت میں حاضر ہوئے اس نے اپنے ماں باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں داخل ہو انشاء اللہ امن کے ساتھ “ (یوسف : 99) غور فرمایئے ! انھیں مصر میں داخل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ مصر میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے اس کا مفہوم داخل ہونا تو مراد نہیں لیا جاسکتا یقینا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) انھیں اس داخلے پر مبارکباد دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ یہ نہ سمجھئے کہ آپ مصر میں ایک مہمان کے طور پر تشریف لائے ہیں بلکہ یہ آپ کا وطن ہے اب آپ کو یہیں زندگی گزارنی ہے اس لیے یہاں ایک معزز شہری کے طور پر جو رول آپ کو ادا کرنا چاہیے اسے ادا کیجیے اور وطن کی جو نعمتیں آپ کی ضرورت ہوں اور آپ کو مطلوب ہوں انھیں آگے بڑھ کر حاصل کیجیے اور ان کا حق ادا کیجیے۔ اس آیت کریمہ میں بھی معلوم ہوتا ہے اہل جنت سے یہی کہا جا رہا ہے کہ اب آپ جنت میں اللہ کے فضل سے آچکے ہیں اس کی ایک ایک نعمت پر آپ کا حق ہے اب یہاں کبھی آپ کو اندیشے پریشان نہیں کریں گے یہاں سے کبھی آپ کو نکالانھیں جائے گا بس یوں سمجھئے کہ یہ جنت آپ کے لیے ہے اور آپ اس کے لیے ہیں اب آپ کو یہاں خوش عیشی کی زندگی گزارنی ہے۔ بقول شاعر مزے لوٹو کلیم اب بن پڑی ہے بڑی اونچی جگہ قسمت لڑی ہے اہل جہنم اصحاب اعراف کے سوالوں کا سوائے خاموشی کے اور کوئی جواب نہیں دے سکیں گے لیکن اسی اثناء میں جب اللہ تعالیٰ اصحاب اعراف کو جنت میں داخلے کا حکم دیں گے تو ان کی محرومیاں اور بھڑک اٹھیں گی اور یہ بےساختہ اہل جنت کو پکارنا شروع کردیں گے۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی جہنم میں پہنچانے والے ان اعمال کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ جہنم میں پہنچے ہیں اور ہر زمانے کے لوگ ایسے ہی اعمال کے نتیجے میں جہنم میں پہنچیں گے اس لیے اس میں جہاں اہل جہنم کے انجام کو دیکھتے ہوئے عبرت حاصل ہوتی ہے وہیں ان کی فرد جرم کو دیکھتے ہوئے ہر دور کا انسان اس سے بچنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔
Top