Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
بیشک ! تمہارا رب وہی اللہ ہے ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ہے۔ پھر وہ عرش اقتدار پر متمکن ہوا۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے ‘ جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے اور اس نے سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے ‘ جو اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ خبردار ! خلق اور امر اسی کے لیے خاص ہیں۔ بڑا ہی برکت والا ہے اللہ ‘ سارے جہانوں کا رب۔
تمہید گزشتہ رکوع کے اختتام تک شرک کے مختلف پہلوئوں پر تنقید اور اس کے دنیوی اور اخروی نتائج کی بحث کو مکمل کردیا گیا ہے۔ پیش نظر آیات میں توحید کے دلائل کو ذکر فرماتے ہوئے شرک کے پیدا ہونے کے اسباب کو نہایت پہلودار طریقے سے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس بحث کو اگر سمجھ لیا جائے تو توحید کی حقیقت اور شرک کی مذمت پیش پا افتادہ حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اِنَّ رَبَّکُمُ اللہ ُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ قف یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیِْثًا لا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ م بِاَمْرِہٖط اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط تَبٰرَکَ اللہ ُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الاعراف : 54) ” بیشک ! تمہارا رب وہی اللہ ہے ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا ہے۔ پھر وہ عرش اقتدار پر متمکن ہوا۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے ‘ جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے اور اس نے سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے ‘ جو اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ خبردار ! خلق اور امر اسی کے لیے خاص ہیں۔ بڑا ہی برکت والا ہے اللہ ‘ سارے جہانوں کا رب “۔ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے مشرکینِ مکہ اور دیگر مشرکینِ عرب بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ تمام کائنات کا خالق تو یقینا اللہ کی ذات ہے۔ لیکن تمام کائنات کا رب وہ تنہا نہیں بلکہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سارے ارباب اور شرکاء موجود ہیں ‘ جن کو خود اس نے اپنے ساتھ یہ حیثیت دے رکھی ہے۔ اگرچہ رب الارباب کی حیثیت اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ لیکن اس کی عطا کردہ ربوبیت کے حامل چھوٹے چھوٹے اور بھی بہت سے لوگ اور بہت سی قوتیں ہیں۔ ان کی اس غلط فہمی کی بنیاد یہ تھی کہ یہ بات تو وہ کسی طرح مان چکے تھے کہ تمام کائنات کو خلق اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اور وہی کائنات کا خالق ہے ‘ لیکن یہ اتنی بڑی کائنات جس کے اور چھور کا کوئی اندازہ ہی نہیں ‘ کیسے ممکن ہے کہ پوری کائنات کے انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں ‘ اس میں بسنے والی مخلوقات کی رزق رسانی ‘ ان کی ضروریات سے آگاہی اور پھر ہر ضرورت کو پورا کرنا ‘ یہ سب کچھ تنہا اللہ کی ذات کرسکے ؟ یہ بات ان کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس لیے پروردگار نے کائنات اور مخلوقات کے نظام کو ٹھیک رکھنے کے لیے اور ان کی ضروریات بہم پہنچانے کے لیے ‘ یہ ضروری سمجھا کہ بہت ساری قوتوں کو ان انتظامی امور میں شریک کرلیا جائے۔ چناچہ کسی کو رزق دینے ‘ کسی کو اولاد عطا کرنے ‘ کسی کو بیماریوں سے شفا دینے اور کسی کو بارش برسانے جیسی ذمہ داریوں پر لگا دیا گیا۔ اب اگر انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی تمام ضروریات احسن انداز میں اسے ملتی رہیں تو پھر یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ ان تمام قوتوں کی عبادت کرے ‘ ان سے استمداد کرے ‘ ان کی پوجا پاٹ کرے ‘ تاکہ وہ قوتیں اس سے خوش ہو کر اس کی ضروریات کو پورا کرتی رہیں اور اس کو مصیبتوں سے بچاتی رہیں اور پھر انہی قوتوں کے واسطے سے اور انہی پاکیزہ صفات ہستیوں کے طفیل وہ اپنے اس عظیم رب کو ‘ جس کو وہ اللہ کے نام سے پکارتا ہے ‘ خوش بھی کرسکے۔ درحقیقت ان کے نزدیک اللہ کی حیثیت شہنشاہ کی طرح تھی۔ ایک شہنشاہ بہت بڑے ملک کا مالک تو ہوسکتا ہے ‘ اس کا حکمران بھی کہلا سکتا ہے۔ لیکن یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ ایک ایک صوبے اور ایک ایک شہر کے انتظام کی براہ راست نگرانی کرے۔ اسے یقینا اپنی ماتحتی میں بہت سارے کارکنوں کو بھرتی کرنا پڑتا ہے اور پھر انھیں اختیارات دے کر ان خدمات کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ یہی حال پروردگار عالم کا بھی ہے یہ وہ بنیادی وجہ تھی ‘ جس نے اللہ کو رب الارباب مانتے ہوئے بھی انسان کو اور بہت سارے چھوٹے بڑے ارباب کو ماننے پر مجبور کیا اور پھر اسی پر بات رکی نہیں ‘ وقت کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ان کے ذہنوں میں مدھم ہوتی گئی کہ رب الارباب اللہ کی ذات ہے۔ ان کے ذہنوں پر جس خیال کا تسلط محکم ہوتا گیا وہ یہ تھا کہ جن سے براہ راست ہماری ضرورتیں متعلق ہیں اور جو ہماری ضروریات کو پورا کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں ‘ بس انہی کو رب مان کر انہی کی پوجا پاٹ اور عبادت کرنی ہے۔ یہاں پہلی بات تو یہ فرمائی جا رہی ہے کہ اے مشرکین عرب ! اچھی طرح اس بات کو سمجھ لو کہ جو اس کائنات کا اور تمہارا خالق ہے ‘ وہی تمہارا رب بھی ہے۔ تم نے اللہ کو ایک شہنشاہ قرار دے کر جس طرح دوسرے ارباب کے لیے ضرورت پیدا کی ہے ‘ وہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ ایک شہنشاہ ‘ شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنی ذات میں وہ ہمہ گیر صفات نہیں رکھتا ‘ جس کے نتیجے میں وہ ہر ایک کی ضرورت سے آگاہ بھی ہو سکے اور ضرورت پوری کرنے پر قادر بھی ہو سکے۔ لیکن اللہ کی ذات کمال قدرت کی حامل ہے۔ اس کا علم بےپناہ ہے۔ اس کی ہر صفت اپنے اندر غیر محدود وسعتیں رکھتی ہے اس کے لیے تمام مخلوقات کو دیکھنا ‘ ان کی ضروریات کو جاننا ‘ پھر ان کی ایک ایک ضرورت مہیا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ ہم جس طرح اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھتے ہیں اور اس کی ایک ایک لکیر کو پڑھ سکتے ہیں ‘ پروردگار عالم اس سے بھی زیادہ آسانی سے پوری کائنات کو دیکھتے اور اس کی ایک ایک چیز کو سمجھتے ہیں۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ سمندروں کی گہرائیوں میں کوئی مچھلی اگر حرکت کرتی ہے تو وہ اسے دیکھتا ہے ‘ جنگل میں کوئی پتہ گرتا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے۔ ہر خشک و تر چیز اس کے علم کے خزانے میں محفوظ ہے۔ جس کی صفات اس قدر وسعتوں کی مالک ہوں اسے شہنشاہوں پر قیاس کر کے شرک کے لیے جواز پیدا کرنا سخت بےعقلی اور بےدانشی کی انتہا ہے۔ قرآن میں رب کی دو بنیادی صفات اس کے ساتھ ایک اور چیز بھی سمجھ لینی چاہیے۔ وہ یہ کہ قرآن کریم جب رب کا لفظ استعمال کرتا ہے تو وہ اس سے دو چیزیں مراد لیتا ہے۔ 1 ایک تو یہ کہ انسانی جسم ‘ جسمانی صلاحیتیں ‘ دل و دماغ کی رعنائیاں ‘ فعلی اور انفعالی قوتیں ‘ احساسات کی گہرائی اور ایسی ہی اور چیزیں ‘ جن کی انسان کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ضرورت درپیش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والے ہیں۔ ربوبیت کا مفہوم ہے انشاء الشی حالاً فحالاً الیٰ حدالتمام کسی چیز کو رفتہ رفتہ نقطہ کمال تک پہنچانا اور ہر مرحلے پر اس کی ضروریات کو فراہم کرنا۔ مثلاً جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہے تو ماں کے پیٹ میں اس کو غذا پہنچانا ‘ اس کی زندگی کا سروسامان کرنا ‘ پھر ایک وقت مقرر پر اسے تخلیق کے عمل سے گزارنا اور پھر دنیا میں آنے کے بعد اس کی ماں کے سینے میں اس کی غذا کا چشمہ رواں کردینا اور دنیا میں اس کے اترنے سے پہلے ماں کے اندر مامتا پیدا کردینا اور باپ کے کندھوں اور دل و دماغ میں شفقت کا طوفان اٹھا دینا ‘ ننھیالی اور ددھیالی رشتوں کو اس کی حفاظت کے لیے وجود میں لے آنا ‘ پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اس کے اندر احساس کا چراغ روشن کرنا اور مزید آگے بڑھ کر اسے عقل کے نور سے منور کردینا۔ بالکل ابتدا میں اس کا معدہ کسی ثقیل غذا کا متحمل نہیں ہوسکتا تو ماں کے دودھ میں مائیت کے عنصر کو غالب رکھنا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دودھ میں دھنیت کو بڑھاتے چلے جانا ‘ تاکہ بچے کی نمود و پرداخت اور توانائی میں کام لیا جاسکے۔ اسی طرح پوری زندگی کو تصور میں لا کر اندازہ کیجیے کہ کس طرح اس کی ربوبیت کا عمل بچے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ تو وہ ربوبیت ہے ‘ جس کا تعلق انسان کے داخل سے ہے اور جہاں تک اس کی خارجی زندگی کا تعلق ہے۔ اس میں غور کر کے دیکھئے تو قدم قدم پر آپ کو ربوبیت بکھری ہوئی دکھائی دے گی۔ سورج کی روشنی ‘ چاند کی حلاوت ‘ ستاروں کی آنکھ مچولی ‘ ہوا کا جسم سے چھو کر گزرنا ‘ آکسیجن کا چاروں طرف پھیلا ہوا سمندر اور پھر زمین کو مختلف قسم کی غذائوں اور قوت روئیدگی سے مالا مال کردینا اور پھر زمین پر ابلتی ہوئی آبشاریں ‘ برستی ہوئی بارشیں ‘ بہتے ہوئے دریا ‘ بل کھاتی ہوئی ندیاں ‘ چھتری تانے ہوئے درخت ‘ جھنڈوں کی طرح گڑھے ہوئے قدآور اشجار ‘ چاندی کی طرح پگھلتی ہوئی برف اور پارے کی طرح رواں دواں چشمے ‘ اس طرح بیشمار نعمتیں ہیں ‘ جن سے انسان شب و روز فائدہ اٹھاتا ہے اور کوئی ضرورت ایسی نہیں ‘ جو پیدا ہونے سے پہلے وجود میں نہیں آچکی اور کوئی مطالبہ ایسا نہیں ‘ جسکو پورا نہیں کردیا گیا۔ یہ وہ ظاہری ربوبیت ہے ‘ جو انسان کے خارج میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ 2 لیکن اسی طرح ایک ربوبیت اور بھی ہے ‘ جو خود اس ظاہری ربوبیت کا ایک لازمہ اور نتیجہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس اللہ نے یہ تمام نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور جس نے جسم و جان کی رعنائیوں سے انسان کو گراں بار کیا ہے۔ اگر وہ انسان کو یہ نہ بتاتا کہ ان تمام نعمتوں اور ان تمام قوتوں سے کام کس طرح لینا ہے۔ وہ زندگی دیتا اور زندگی کا مقصد متعین نہ کرتا۔ وہ انسانوں کو جنسی احساسات سے گراں بار کردیتا ‘ لیکن شرم و حیا کے نازک احساسات سے محروم رکھتا۔ وہ انسان کو دل دیتا ‘ لیکن رحم و مروت ‘ ہمددی اور غمگساری جیسی اقدار کا اسے علم نہ دیتا۔ حتیٰ کہ انسان کو مسجود ملائک بناتا ‘ لیکن زمین پر بھیجنے کے بعد اس کی ذمہ داریوں سے اس کو آگاہ نہ کرتا۔ تو آپ اندازہ فرمایئے کہ کیا یہ اللہ تعالیٰ کی ادھوری ربوبیت نہ ہوتی ؟ قرآن کریم نے جابجا اس کی طرف اشارے کیے۔ وہ جہاں بھی انسان کی تخلیق کا ذکر کرتا ہے ‘ وہیں اسے زندگی کے بارے میں ہدایت دینے کی بات بھی کرتا ہے۔ جہاں اس کی دنیا کا تذکرہ کرتا ہے ‘ وہیں وہ آخرت کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ جس طرح اس کی مخلوق میں ہر چیز کا ایک جوڑا پیدا کیا گیا ہے ‘ دنیا کا جوڑا اس نے آخرت کو بنایا۔ اگر دنیا کی باتیں ہوتیں ‘ لیکن آخرت کی تیاری کے لیے کوئی رہنمائی نہ دی جاتی تو یہ نا مکمل ربوبیت ہوتی۔ اس آیت کریمہ میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ دیکھو ! جس اللہ نے تمہیں اور باقی کائنات کو پیدا فرمایا ہے ‘ وہ صرف تمہارا خالق نہیں ‘ بلکہ وہ تمہارا رب بھی ہے۔ یعنی تمہیں اس نے زندگی کے امکانات اور زندگی کی ضروریات بھی دی ہیں اور پھر زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی ‘ تمہیں عطا کیا ہے اور پھر انسانوں پر اپنے احسانات کا ذکر فرماتے ہوئے اپنی تخلیق کی تھوڑی سی وسعت بیان فرمائی ہے کہ تمہارا رب وہ ہے ‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ‘ اس لیے کہ پوری کائنات کو جس حصار میں محصور کیا گیا ہے اور اس کی ہمہ ہمی کو جس میدان میں برگ و بار لانے کا موقع دیا گیا ہے ‘ وہ زمین و آسمان ہی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس سے مراد پوری کائنات ہے مزید یہ فرمایا کہ ہم نے اس پوری کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ اس میں دو باتیں سمجھنے کی ہیں ایک تو یہ بات کہ چھ دنوں سے کیا وہ دن مراد ہیں جو دن اور رات کے تسلسل سے وجود میں آتے ہیں یا اس سے مراد خدائی دن ہیں۔ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد ہمارے دن نہیں بلکہ اللہ کے اپنے دن مراد ہیں اور قرآن پاک میں تصریح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دن کبھی ایک ہزار سال کے ہوتے ہی اور کبھی پچاس ہزار سال کے برابر اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں چھ دنوں سے چھ ادوار مراد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کو چھ ادوار میں پیدا فرمایا اور یہی بات تورات نے بھی کہی ہے اور ہمارا فلسفہ جدید تو بڑی شدومد سے اس کا دعوے دار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا جدید فلسفہ کائنات کے وجود کو نظریہ ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم اس کے خلاف نہیں البتہ نظریہ ارتقاء کی تقریر جس انداز سے اس کے علمبرداروں کی طرف سے کی جاتی ہے اس میں چونکہ بہت سے منطقی خلا موجود ہیں اس لیے قرآن کریم اس کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ کائنات چھ ادوار میں مکمل ہوئی یعنی ایک ارتقا کے ساتھ اس کا تخلیقی عمل وجود میں آیا لیکن یہ بات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں کہ انسان کو اولاد آدم ماننے کی بجائے بندر کی اولاد مانا جائے اور بندر سے پہلے اور بندر کے بعد جو جھول موجود ہے ان کا کوئی جواب نہ دیا جائے۔ انسانی ایجادات کو دیکھ لیجیے کہ انسان نے پہیہ ایجاد کیا اور اس کے بعد ایجادات کی دنیا میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ پھر قسم قسم کی چیزیں بنتی چلی گئیں لیکن ایک سواری کے بعد دوسری سواری نے جو شکل اختیار کی ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں کوئی آدمی اس کو ماننے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوگا کہ ہم چھکڑے سے اترے اور ہوائی جہاز اور راکٹ پر چڑھ گئے تو اسی طرح اس بات کو کون تسلیم کرے کہ انسان کے ارتقاء نے پہلے بندر کی شکل اختیار کی اور پھر یکلخت کوئی موجودہ انسان کی شکل اختیار کر گیا درمیان کی کڑیاں کہاں ہیں اس کا کوئی جواب نہیں۔ دوسری بات جو اس میں سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور قرآن کی تصریحات کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بات کوئی مشکل نہ تھی کہ وہ ایک کلمہ کن سے تمام کائنات پیدا فرما دیتا تو پھر اس تدریجی عمل کی کیا ضرورت تھی کہ چھ ادوار میں کائنات کو تخلیق فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اپنے خلق و تدبیر کے ہر شعبے میں جس طرح اپنی قدرت نمایاں فرمائی ہے اسی طرح اپنی حکمت اور ربوبیت اور رحمت کی شانیں بھی نمایاں فرمائی ہیں اور اس کی ان شانوں کا نمایاں ہونا بھی انسان کے کمال عقلی و روحانی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح خدا کے کمال قدرت کا نمایاں ہونا ضروری ہے۔ کہیں ہم اس کے کمال قدرت کے اظہار کو غالب دیکھتے ہیں اور کہیں حکمت ‘ ربوبیت اور رحمت کے اظہار کو۔ پہاڑوں کے سلسلے اس نے یکلخت ہمارے سامنے کھڑے کردیئے یعنی ہم نے ان کو دھیرے دھیرے وجود پذیر ہوتے نہیں دیکھا یعنی اس کا ایک ایک پتھر ہمارے سامنے جوڑا نہیں گیا اور پھر ان کو سربفلک عمارت کی شکل نہیں دی گئی اس لیے جب ہم پہاڑوں کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی قدرت یاد آتی ہے لیکن اس کے بالکل برعکس ہم جب دیکھتے ہیں کہ اس نے ہماری غذائی ضرورتوں کو کس طرح پیدا فرمایا ہے تو اس سے اللہ کی قدرت بھی یاد آتی ہے لیکن زیادہ تر اس کی رحمت کا فیضان نظروں کے سامنے نمایاں ہوجاتا ہے۔ کسان گندم کے دانے زمین کا سینہ چیر کر اس میں ڈالتا ہے۔ اب یہ یکلخت پودا بن کر دانے واپس نہیں کرنے لگتا بلکہ ایک سوئی نکلتی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک پودا بنتی ہے اس میں ایستادگی آتی ہے ‘ ہوائیں اس کو لوریاں دیتی ہیں ‘ موسم کے تغیرات اس کی نگرانی کرتے ہیں ‘ سمندر سے سورج کرنوں کے ڈول بھر بھر کر کھینچتا ہے اور فضا میں ابر کی چادریں بچھا دیتا ہے۔ پھر ہوائیں انھیں کھینچتی ہوئی وہاں لے جاتی ہیں جہاں آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ دانے میں گداز پیدا کرنے کے لیے چاند اپنی حلاوت لٹاتا ہے اور اس میں پختگی پیدا کرنے اور اسے پکانے کے لیے سورج کی حدت اپنا کام کرتی ہے۔ اس طرح کائنات کا پورا کارخانہ اپنا اپنا فرض انجام دیتا ہے ‘ تب ہم اپنی غذا کی چند ضرورتوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنے تخلیقی مراحل سے گزرنے کی بجائے ایک بنا بنایاجوان رعنا کی صورت زمین پر اتار دیا جاتا تو اندازہ فرمایئے ماں کی مامتا ‘ باپ کی شفقت ‘ بچے کی من موہنی ادائیں پھر بچوں کی آپس میں خوش فعلیاں اور گھر کی رونق اور آسودگی جو اللہ کی بیش بہا نعمت ہے یہ کہاں سے وجود میں آتیں اور ان کو دیکھ دیکھ کر جس طرح اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت یاد آتی ہے اس کو ہم کہاں تلاش کرتے تو زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کرنے میں یہی حکمت و دانش اور ربوبیت اور رحمت کا اظہار مقصود ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِکہ پھر اللہ تعالیٰ عرش اقتدار پر متمکن ہوا۔ اس جملے سے مشرکین کی اس غلطی کا ازالہ فرمایا گیا ہے جس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ شرک میں مبتلا ہوئے یعنی انھوں نے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق تو ہے لیکن تمام کائنات کا تنہاحاکم نہیں کیونکہ ایک بادشاہ اور ایک حاکم تنہاپوری کائنات کا نظام نہیں چلا سکتا اس لیے یہ بات ضروری ٹھہری کہ کائنات کے مختلف حصوں کو کچھ شرکاء کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اس کا انتظام چلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے صرف زمین و آسمان کو پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا کہ اس کی حکمرانی سے ہمارا کوئی تعلق نہ ہو جیسے تم سمجھتے ہو یا بعض جاہل فلسفی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اللہ اس کائنات کی علت العلل یا علت اولیٰ ہے یعنی وہ پہلی علت ہے جس نے کائنات کے پہیے کو حرکت دی اور اس کے بعد اسے اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا کہ وہ پہیہ اب تک اپنے زور پر گھوم رہا ہے اس کائنات کو یقینا اللہ نے بنایا لیکن اس کے بعد اس نے انتظام و انصرام دوسروں کے حوالے کردیا اور خود اس کے ایک گوشے میں بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ جس پروردگار نے یہ سارا کارخانہ اس تدریج و اہتمام کے ساتھ بنایا ‘ سنوارا اور پھر اس کی تدبیر و انتظام سے بالکل بےتعلق ہو کر کسی گوشے میں جا بیٹھا اس خلق کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو پیدا کرنے کے بعد اس کے تخت حکومت پر متمکن ہو کر اس کے تمام امور و معاملات کا انتظام بھی فرمائے۔ چناچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بعض جگہ پروردگار نے ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِکے ساتھ یُدَبِّرُ الْاَمَرْ بھی فرمایا ہے۔ ایک بادشاہ اگر بڑے اہتمام سے ملک حاصل کرے لیکن ملک حاصل کر کے کسی گوشے میں جا بیٹھے اس میں امن و عدل کا اہتمام نہ کرے۔ مفسدین اس میں دھاندلی مچاتے پھریں تو ساری دنیا اس کو نالائق بادشاہ کہے گی تو ایک معمولی بادشاہ کے لیے جو بات عیب میں داخل ہے ‘ آسمان و زمین کے خالق ومالک کے لیے وہ بات کس طرح باور کی جاسکتی ہے۔ استواء کا مفہوم ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِکا جو مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اگرچہ اس کا تعلق تاویل سے ہے لیکن یہ ایسی تاویل نہیں جس میں تصنع داخل ہو اور بات بنانے کی کوشش کی گئی ہو اگر شریعت میں الفاظ کی حیثیت بنیادی ہے تو جس مفہوم کو الفاظ خود اچھال رہے ہوں اسے قبول کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے البتہ یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے سادہ مفہوم پر اصرار کرے اور وہ یہ کہے کہ اللہ کا ایک عرش ہے اور وہ اس پر مستوی ہے اور اس استواء کی کسی خاص ہیئت پر اصرار نہ کرے تو ہم اس کی بات کو غلط نہیں کہیں گے۔ یہ آیت چونکہ اپنے مفہوم و مراد میں پوری طرح واضح نہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متشابہات میں داخل ہے تو پھر عافیت اسی میں ہے کہ اس میں قیل و قال نہ کی جائے اور امام مالک ( رح) کے ارشاد پر عمل کیا جائے۔ انھوں نے فرمایا تھا : الاستواء معلومٌ و مراد ہٗ مجہولٌ وَ الایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ کہ استوا تو معلوم ہے لیکن اس کی مراد واضح نہیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن اس میں قیل و قال اور بحث کرنا بدعت ہے۔ اللہ کی حاکمیت کی ایک جھلک اللہ تعالیٰ نے عرش اقتدار پر متمکن ہو کر جس طرح کائنات کا نظام چلایا ہے اس کے بعد اس کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ اس کی کائنات بیشمار وسعتوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کی بعض نعمتیں ایسی ہیں جس سے ہمیں ہر وقت واسطہ رہتا ہے انہی میں دن اور رات کا آنا جانا بھی ہے اور یہ انسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ جس کے بغیر اس کی زندگی گزرنا محال ہے۔ دن انسان کی سرگرمیوں کے لیے ہے اور رات انسان کی آرام و راحت کے لیے ہے ان دونوں سے ہمیں ہمیشہ واسطہ رہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ذرا اسی پر غور کرو کہ جہاں تک تمہارا علم کام کر رہا ہے کیا کوئی ایک نشان بھی تمہارے سامنے ہے جس سے تم یہ کہہ سکو کہ کبھی سورج کے غروب ہونے یا سورج کے طلوع ہونے یعنی رات کے چھا جانے یا دن کے چڑھ آنے میں کبھی وقت کی پابندی نہ کی گئی ہو اور کبھی انھوں نے اپنی ذمہ داری سے تخلف کیا ہو یہ دن اور رات کی آمدورفت کا انتظام اتنا مستحکم ہے کہ ہم ہزاروں سال سے کیلنڈر کا ایک نظام رکھتے ہیں اس میں کبھی آج تک کمی بیشی نہیں ہوئی اگر رات اور دن کے آنے جانے میں چند منٹ کی کمی بیشی بھی ہوتی تو سارے حساب ناکام ہوجاتے اور تمام جنتریاں بےکار ہوجاتیں۔ کہا ذرا رات کو دیکھو کس طرح سرگرمی سے وہ دن کا تعاقب کرتی ہوئی آتی ہے اور یہی حال دن کا بھی ہے یہ تو وہ مشاہدہ ہے جو ہم زمین پر رکھتے ہیں اور جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو بیشمار ستارے ‘ سیارے اور کواکب ہماری نظروں کے سامنے جھلملاتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ستاروں نے اپنے سفر میں کبھی غلطی کی ہو ‘ انھوں نے کبھی روشنی دینے سے انکار کردیا ہو اور جو جو فرائض ان کے ذمے عائد کیے گئے ہیں کبھی اس کی ادائیگی میں تساہل ہوا ہو۔ انسان اپنی ایجادات میں کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے لیکن اس کی کوئی ایجاد ایسی نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ یہ کبھی خراب نہیں ہوسکتی یا کبھی یہ تباہ نہیں ہوگی۔ بڑی سے بڑی ایجاد حادثے کا شکار ہوتی ہے اور اس کے بنانے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ چند دن پہلے خلائی شٹل کا حادثہ پیش آیا ہے جس نے امریکہ جیسی قوت کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن سورج چاند اور ستاروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے پابند اور مسخر ہیں تو جس پروردگار کی قوت تسخیر اور جس کی حاکمیت اتنی ہمہ گیر ہو اس کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ اس نے اپنے کوئی شرکاء بنا رکھے ہیں اور وہ ان کے واسطے سے کائنات کا نطام چلاتا ہے اور ایسا کرنے پر وہ مجبور ہے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط یہ اسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو ” استواء علی العرش “ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ اللہ محض خالق ہی نہیں آمر اور حاکم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کردیا ہے کہ وہ اس میں حکم چلائیں اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصے کو خودمختار بنادیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر اللہ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل و نہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ اللہ کے حکم سے ہو رہی ہے ‘ جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔ سورج ‘ چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں بالکل مسخر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو اللہ ان سے لے رہا ہے۔ تَبٰرَکَ اللہ ُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ میں غایت درجہ مبالغہ کا مضمون پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے تَبٰرَکَ اللہ ُ کے معنی ہوں گے بڑی ہی برکت و رحمت والی ہستی ہے اللہ۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلق و تدبیر کی جو شانیں واضح فرمائی ہیں ان سے جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ‘ جس طرح اللہ کی قدرت و عظمت کا اظہار ہو رہا ہے اسی طرح اس کی رحمت و ربوبیت ‘ اس کے جود و نوال اور اس کی کرم نوازی و فیض بخشی کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ یہ اللہ کے باب میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہوئیں کہ انھوں نے خدا کی عظمت و جبروت کا تصور اس قدر بڑھایا کہ اس کی صفات رحمت و برکت کا تصور اس کے نیچے بالکل دب کر رہ گیا۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بندوں کے لیے اللہ سے براہ راست تعلق و توسل ناممکن سمجھ لیا گیا اور پھر ایسے وسائل و وسایط کی تلاش ہوئی جو اللہ سے مقصد برآری کا ذریعہ بن سکیں۔ ہم بقرہ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ صفاتِ الٰہی کے باب میں یہ گمراہی شرک کے عوامل میں سے ایک بہت بڑا عامل ہے۔ مشرکین نے بہت سے فرضی معبودوں کی پرستش ‘ بالخصوص ملائکہ کی پرستش ‘ اسی وجہ سے شروع کی کہ یہ اللہ کی چہیتی بیٹیاں ہیں ‘ یہ ہم سے راضی رہیں تو یہ اپنے باپ کو ہم سے راضی رکھیں گی اور پھر سارا جہان ہم پر مہربان ہوجائے گا۔ قرآن نے یہاں تَبٰرَکَ اللہ ُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کائنات جس طرح اپنے خالق کی بےپایاں عظمت و جبروت پر شاہد ہے اسی طرح اس کی بےپایاں برکت و رحمت پر بھی گواہ ہے تو اس سے مانگنے کے لیے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں۔ خوف اور طمع ‘ امید اور بیم ہرحال میں اسی کو پکارو اور اسی سے مانگو ‘ جس طرح وہ اپنے جلال میں یکتا ہے اسی طرح اپنی رحمت میں بھی یکتا ہے۔
Top