Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 83
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ۖ٘ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : ہم نے نجات دی اس کو وَاَهْلَهٗٓ : اور اس کے گھر والے اِلَّا : مگر امْرَاَتَهٗ : اس کی بیوی كَانَتْ : وہ تھی مِنَ : سے الْغٰبِرِيْنَ : پیچھے رہنے والے
پس ہم نے لوط اور اس کے اہلخانہ کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔
فَاَنْجَیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اِلَّا امْرَاَتَہٗ زصلے کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 83) ” پس ہم نے لوط اور اس کے اہل خانہ کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی “۔ یعنی یہ پورا علاقہ اور اس پر بسنے والی یہ قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوئی صرف ایک حضرت لوط (علیہ السلام) کا گھر اس عذاب سے محفوظ رہا۔ اس گھر کے رہنے والوں کو سرشام ہی وہاں سے نکل جانے کا حکم ملا جب یہ لوگ اگلی صبح تک اس گھر سے اتنا دور نکل گئے کہ عذاب کے اثرات سے محفوظ رہ سکتے تھے تب اللہ کا عذاب اس قوم پر آدھمکا اور اس بری طرح انھیں تباہ کیا کہ آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے ساتھ صرف آپ کے اہل خانہ کو اس عذاب سے بچایا گیا تھا البتہ آپ کی بیوی چونکہ اسی قوم کی ایک فرد تھی تو قومی عصبیت نے اسے حق کو قبول کرنے سے روکا اور وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ اس عذاب کا شکار ہوئی۔ اندازہ فرمایئے ! اللہ تعالیٰ کے فیصلے کتنے بےلاگ ہیں کہ بچانے پر آتا ہے تو ہر اس شخص کو بچاتا ہے جس کے پاس ایمان کی دولت ہو چاہے وہ اپنی ذات میں کتنا بھی بےقیمت کیوں نہ ہو اور پکڑنے پر آتا ہے تو نہ پیغمبر کی بیوی بچتی ہے نہ پیغمبر کا بیٹا نہ پیغمبر کا چچا اور نہ پیغمبر کا باپ کیونکہ اس کی نگاہوں میں حقیقی قدر و قیمت صرف ایمان و عمل کی ہے اس آیت کریمہ کی پہلی آیت میں اُنَاسٌ کا لفظ آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے اہل خانہ کے علاوہ بھی کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے ہوں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ اور لوگ ایمان لائے بھی تھے تو ان کی تعداد بہت محدود تھی اور ان کا آپ سے تعلق قرابت داری کا تھا اس لیے ایک طرح سے وہ بھی آپ کے اہل خانہ میں ہی سے تھے اس لیے الگ سے ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اس کے بعد عذاب کی ہلکی سی تفصیل بیان کی ہے۔
Top